شرک فی الذات کی جو دوسری صورتیں ہیں وہ فلسفیانہ مذاہب میں رائج رہی ہیں. فلسفیانہ مذاہب کی مکمل ترین اور نمایاں ترین مثالیں ہندوستان کے مذاہب ہیں. ہندومت اصل میں کوئی ایک مذہب نہیں ہے ‘ بلکہ یہ بہت سے مذاہب کا مجموعہ ہے. ان میں وہ مذاہب بھی ہیں جو خدا کا سرے سے انکار کرتے ہیں‘ وہ مذاہب بھی ہیں جو شدید ترین شرک کے اندر مبتلا ہیں‘ اور ان کے برعکس ان میں وہ مذاہب بھی ہیں جو توحید کی بہت اونچی چوٹی پر پہنچے ہوئے ہیں. اسی طرح بدھ مت بھی بظاہر احوال جیسا بھی نظر آتا ہے‘ ایک فلسفیانہ مذہب ہے. جین مت بھی ایک فلسفیانہ مذہب ہے. تاؤ ازم اور کنفیوشسزم بھی فلسفیانہ مذاہب ہیں. اسی طرح یہ جو ہند چینی (Indo Chinese) مذاہب ہیں ‘ان سب کی بنیاد فلسفہ ہے. اگرچہ ہم یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتے‘ لیکن گوتم بدھ کے بارے میں بعض محققین کا گمان ہے کہ وہ حضرت ذوالکفل ؑتھے‘کپل وستو والے.یعنی کپل کا ’’پ‘‘ ‘ ’’ف‘‘ سے بدل گیا تو ذوالکفل ہو گیا (واللہ اعلم). بہرحال ان فلسفیانہ مذاہب میں شرک کی جو یہ دو صورتیں اور شکلیں بنیں ان کو جان لیجیے.

ایک شکل وہ ہے جسے انگریزی میں 
Pantheism سے تعبیر کیاجاتا ہے.

فارسی میں اس کا ترجمہ ’’ہمہ اوست‘‘ ہے‘ اگرچہ اس کو خلطِ مبحث کیا جاتا ہے عقیدہ ’’وحدت الوجود‘‘ سے ‘جو ہمارے ہاں کے بعض حکماء‘ فلاسفہ اور صوفیاء کی اکثریت کاعقیدہ ہے. بعض لوگ ناسمجھی میں ’’ہمہ اوست‘‘ کو وحدت الوجود کے مترادف یا وحدت الوجود کو ہمہ اوست کے مترادف قرار دے دیتے ہیں.

شرک فی الذات کی دوسری نمایاں شکل وہ ہے جسے انگریزی میں 
Incarnation اور ہندی میں ’’اَوتار‘‘ کا عقیدہ کہا جاتا ہے ‘اور عربی کا لفظ ’’حلول‘‘ تقریباً ان دونوں صورتوں کی تعبیر کے لیے استعمال ہوتا ہے.

اب پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ ہمہ اوست یا 
Pantheism کیا ہے. یہ اصل میں فلسفۂ وجود کی ایک بحث ہے. ہندوستان میں بعض لوگ دو ہستیوں کو قدیم مانتے ہیں‘ یعنی خدا بھی قدیم اور مادہ بھی قدیم . ان کے خیال میں تخلیق کا عمل خدا اور مادّے کے اشتراک سے وجود میں آتا ہے. جیسے ایک بڑھئی لکڑی سے کرسی ‘میز یا منبر بنا دے‘ تو کرسی ‘میز یا منبر بنانے والا بڑھئی بھی پہلے سے موجود تھا اور وہ لکڑی بھی پہلے سے موجود تھی جس سے یہ چیزیں بنائی گئیں. اسی طرح خدا بھی قدیم اور مادہ بھی قدیم ہے‘ اور خدا نے مادے سے یہ مختلف شکلیں بنا دی ہیں. اس کو آپ ثنویت کہہ لیجیے کہ دو ہستیوں کو قدیم ماننا.اس کے علاوہ ایک عقیدہ اُن کا رہا جو تین اشیاء کو قدیم مانتے ہیں ‘ یعنی خدا بھی قدیم‘ مادہ بھی قدیم اور روح بھی قدیم. وہ خدا اور مادے کے ساتھ روح کو بھی قدیم مانتے ہیں کہ وہ بھی ہمیشہ سے ہے. یہ ’’تعدّدِ قدماء‘‘ کا عقیدہ ہے کہ قدیم ہستیاں ایک سے زائد دویا تین مان لی گئیں اور یہ بھی ایک طرح کی تثلیث ہے. 

لیکن جو نسبتاًتوحید کے ماننے والے تھے‘ جنہوں نے نہ روح کو قدیم مانا اور نہ مادے کو‘بلکہ صرف خدا کو قدیم مانتے تھے ‘اب انہوں نے توحید سے شرک نکال لیا. ان کے لیے یہ بڑا اشکال پیدا ہوا کہ پھر خدا نے اس دنیا کو کیسے بنایا؟ اس لیے کہ جب کوئی شے پہلے سے تھی ہی نہیں اور صرف وہی قدیم ہے‘ یعنی نہ مادہ قدیم‘ نہ روح قدیم تو یہ دنیا کیسے وجود میں آ گئی؟تو اس کی ایک شکل انہوں نے یہ قرار دی اور یہ عقیدہ وجود میں آیا کہ خدا نے خود ہی اس کائنات کا روپ دھار لیا. جیسے برف پگھل کر پانی بن جائے تو اب برف ہی پانی ہے‘ یعنی برف ہی نے پانی کی شکل اختیار کر لی. اب اس پانی کو آپ نے آگ دی تو وہ بھاپ بن گیا.تو اب یہ بھاپ ہی پانی ہے اور بھاپ ہی برف ہے. اسی طرح اُن کے خیال میں خدا نے کلیتاً یا جزواً اس کائنات کی شکل اختیار کر لی. اب اس عقیدے کی بھی دو شکلیں ہو گئیں. ایک یہ کہ خدا اب رہا ہی نہیں‘ بلکہ خدا کُل کا کُل اس کائنات کی شکل میں ڈھل گیا ہے‘ اب علیحدہ سے خدا کے نام سے کوئی شے نہیں. اور دوسری شکل یہ کہ خدا کے کسی جزو نے اس کائنات کی شکل اختیار کر لی. یعنی اگرچہ خدا بھی موجود ہے‘ لیکن یہ کائنات بھی اس کا جزو ہے‘ یا یہ اسی کے جزو کی ایک شکل ہے. ہندوؤں کے ہاں یہ تصورات ہیں کہ (نعوذ باللہ) خدا کے سر سے برہمن پیدا ہوئے‘ بازوؤں سے کھشتری پیدا ہوئے جو لڑنے والے ہیں‘ اور اس کے پاؤں سے شودر پیدا ہوئے . یہ تصورات اسی عقیدے کا ایک منطقی ربط ہیں. اس عقیدے کے فلسفیانہ پہلو پر غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب ہر چیز الوہیت کی حامل ہے. اس لیے کہ جب خدا ہی نے کائنات کا روپ دھار لیا ہے تو پھر درخت بھی خدا ہیں ‘ سورج بھی خدا ہے‘ چاند بھی 
خدا ہے‘کیڑے مکوڑے بھی خدا ہیں‘وغیرہ وغیرہ. یہ بدترین شرک ہے جو آپ کو ہندوستان کی سرزمین میں ملے گا.

صرف خدا کو قدیم ماننے والوں میں سے بعض نے اس طرح پیدا شدہ اشکال کے ازالے کے لیے ایک دوسری شکل یہ اختیار کی کہ خدا انسانوں کی شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے ‘یعنی کسی ایک انسان میں حلول کر جاتا ہے. یہ اَوتار یا 
Incarnation کا عقیدہ ہے. چنانچہ ان کے نزدیک رام چندر جی اور کرشن جی خدا کے اوتار ہیں. ان کے ہاں نو اَوتار تھے. ایک دسواں اوتار اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں نے ان میں شامل کر لیا ہے ‘جس کاتذکرہ بعد میں آئے گا.بہرحال ہمہ اوست (Pantheism) اور اَوتار بن جانے یا حلول کر جانے (Incarnation) کا عقیدہ شرک فی الذات کی وہ صورت ہے جو فلسفیانہ مذاہب میں رائج ہے.