اس ضمن میں باطنی طور پر تو اصل دخل ہے حکمت خداوندی کو کہ یہ تحفظِ خصوصی ہے جو محمدٌ رسول اللہ کو حاصل ہوا‘ لیکن اس میں دو چیزیں اور ہیں جو ظاہری اسباب میں سے ہیں. جیسے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید کی حفاظت کا اصل سبب تو ہے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اللہ تعالیٰ کا ذمہ‘ لیکن ظاہری اسباب میں یہ حفظِ قرآن کا جو معاملہ چلا‘ یہ اس کا ذریعہ ہے. یہ قرآن صرف کتابوں ہی میں نہیں ہے‘ بَلۡ ہُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ ؕ (العنکبوت:۴۹’’بلکہ یہ کھلم کھلا آیات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں‘‘.فن قراء ت کی کتابیں تو بعد میں لکھی گئی ہیں.قرآن حکیم تو ایک زبان نے دوسری زبان سے سیکھا ہے ‘اور یہ ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوا ہے ‘اور اب لاکھوں کی تعداد میں حفاظِ کرام موجود ہیں. پھر رمضان المبارک اور تراویح کا نظام ہے جس میں حفظ کو تازہ کیا جاتا ہے.تو یہ سارا سلسلہ حفاظتِ قرآن مجید کے ظاہری اسباب میں سے ہے ‘جس کے باطن میں دراصل مشیتِ خداوندی کارفرما ہے. اسی طرح نبی اکرم  کو جو تحفظ ملا ہے کہ آپؐ کے ساتھ وہ ظلم روا نہیں رکھا گیا‘ درآں حالیکہ آپؐ کے ایک اُمتی پر وہ ظلم ہو گیا ‘تو اصل میں تو یہ مشیتِ الٰہی ہے‘ لیکن اس کے ظاہری اسباب میں سے پہلا سبب یہ ہے کہ قرآن نے نبی اکرم کی بشریت کو بہت نمایاں کیا ہے .قرآن کریم میں جابجا یہ مضمون مختلف پیراؤں میں آیا ہے. ایک جگہ ارشاد ہوا: 

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ 
(الکہف:۱۱۰

’’(اے نبیؐ !) کہیے کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے‘‘.
سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف ‘جو دو جڑواں سورتیں ہیں‘ ان میں اہل علم کے لیے ایک عجیب نکتہ ہے کہ ان دونوں کی آخری دو دو آیات فعل امر 
’’قُلْ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں.سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا بیان ہے . فرمایا:

وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪

’’اور (اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کہ تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا‘ نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ کوئی اس کا دوست ہو‘ اور اس کی بڑائی بیان کرو کمال درجے کی بڑائی‘‘.

اِس مقام پر اللہ تعالیٰ کی شانِ تنزیہی کو خوب نمایاں کیا گیا ہے‘ مبادا کہیں اللہ تعالیٰ کو اُس کے مقامِ بلند سے گرا دیا جائے.اس لیے کہ شرک کی دو ہی صورتیں ہیں. پہلی صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اُس کے مقامِ رفیع سے گرا کر مخلوقات کی صف میں لا کھڑا کیا جائے اوردوسری صورت یہ کہ مخلوقات میں سے کسی کو اٹھا کر خدا کے برابر بٹھا دیا جائے. ان کے علاوہ تیسری صورت تو ممکن نہیں. سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت نے شرک کی پہلی صورت کی جڑ کاٹی ہے‘ جبکہ دوسری صورت کی جڑ کاٹی ہے سورۃ الکہف کی آخری آیت‘نے بایں الفاظ : 
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ (الکہف:۱۱۰

یہی مضمون سورۂ بنی اسرائیل میں ایک اور جگہ بھی آیا ہے. جب مشرکین عرب نے نبی اکرم سے معجزات طلب کیے کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہمارے لیے فوراً ہی یہاں پر ایک چشمہ برآمد ہو جائے ‘ یا ایک باغ تیار ہو جائے ‘یا ایک محل بن جائے‘ یا ہمیں آسمان پر چڑھ کر دکھائیں ‘تو ان سب باتوں کا یہ جواب دلوایا گیا : قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا ﴿٪۹۳﴾ ’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے پاک ہے میرا پروردگار‘ میں تو صرف ایک انسان ہوں‘ جسے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ‘‘. تم یہ مطالبے مجھ سے تب کرتے اگر میں نے خدائی کا دعویٰ کیا ہوتا. میں نے خدائی کا دعویٰ تو نہیں کیا. ثبوت اور دلیل طلب کی جاتی ہے دعوے کی مناسبت سے. اگر میں نے الوہیت اور خدائی کا دعویٰ کیا ہوتا تو تمہارے مطالبے درست تھے کہ یہ کر کے دکھاؤ تو تمہیں خدا مانیں گے‘ جبکہ میں نے تو صرف ایک دعویٰ کیا ہے کہ میں ایک رسولِ بشر ہوں ‘لہذا مجھ سے اسی کی مناسبت سے کوئی دلیل طلب کرو.تو پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید نے نبی اکرم کی بشریت کو بہت نمایاں کیا ہے. 

ایک بار بریلوی مکتب فکر کے ممتاز عالم دین صاحب زادہ فیض الحسن صاحب نے اپنی تقریر میں اپنے مخالفین پر بڑے لطیف پیرائے میں تنقید کی‘ جو مجھے پسند آئی. انہوں نے اپنے ہم مسلک اور ہم مشرب لوگوں کے سامنے مخالفین کو للکار کر کہا کہ :’’کیا تم ہمیں پاگل اور جاہل سمجھتے ہو؟ کیا ہم قرآن نہیں پڑھے ہوئے یا ہم عربی نہیں جانتے؟ ہم خوب جانتے ہیں کہ قرآن نے نبی اکرم کو بشر کہا ہے. ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ تم آپ کی بشریت کو زیادہ نمایاں نہ کرو‘ بشر بشر کی رٹ نہ لگاؤ کہ یہ سوئے ادب ہے. اس لیے کہ تمہارے والد کا نام اگر عبدالرحمن ہے تو تم اسے عبدالرحمن کہہ کر نہیں پکارتے‘ ابا جان کہتے ہو!‘‘ بہرحال قرآن مجید جس طرح سے نبی ٔ اکرم کی بشریت کو نمایاں کر رہا ہے تو یہ کسی حکمت کی وجہ سے ہے. 
فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَا یَخْلُوْ عَنِ الْحِکْمَۃِ کے مصداق لازماً اس کی کوئی ضرورت ہے‘ لازماًکوئی فتنہ ہے جس کا سدّباب مقصود ہے. چنانچہ اس مقصد اور حکمت کے تحت اس کو بیان کرنا ہو گا. البتہ ضدّم ضدّا کا معاملہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے. 

اسی ضدّم ضدّا کی مثال کے طور پر میں نام لیے بغیر ایک دوسرے مکتب فکر کے ایک بہت بڑے عالم دین کا واقعہ پیش کرتا ہوں. اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے! جس کی 
مجھے تحسین کرنی تھی اس کا نام لے کر بات کی ہے اور جس پر تنقید کرنی ہے ا س کا نام نہیں لیناچاہتا. وہ صاحب پنجابی میں سیرت النبی پر ملی جلی تقریر کر رہے تھے‘ جس میں تفسیر بھی تھی‘ سیرت بھی تھی اور اختلافی مسائل بھی تھے. واقعہ یہ ہے کہ اُس اللہ کے بندے نے پوری تقریر میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کے نام کے ساتھ کہیں بھی ’’حضرت‘‘ اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘ نہیں کہا. جب بیعت رضوان کا واقعہ سنایا تو اپنے مخصوص خطیبانہ انداز میں انہوں نے کہا : (اردو ترجمہ) ’’ارے! عثمان زندہ ہے اور اِدھر بیعت ہو رہی ہے!تو کہاں گیا تمہارا علم الغیب؟‘‘ یہ آگ کو ہوا دینے کا سا ایک انداز ہے اور ایک رسہ کشی کا معاملہ ہے.ورنہ یہ کہ ان معاملات کو ہم حل کرنے پر آئیں تو قطعاً کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے. تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جو تحفظ ہوا ہے رسول اللہ کا اس میں بہت بڑا حصہ اس کا ہے کہ قرآن نے نبی اکرم کی بشریت کو بہت نمایاں کیا ہے.

اسی کے تابع دوسری بات سمجھ لیجیے کہ نبی اکرم نے بھی اپنی بشریت کو بہت نمایاں کیا ہے. اگر کہیں ذرا سا بھی وہم پیدا ہونے کا امکان نظر آیا تو وہاں پر بھی نبی ٔ اکرم نے فوراً ٹوک دیا. مثلاً تعظیماً کھڑے ہونا کوئی بڑی بات نہیں. کوئی بزرگ ہستی آئے تو آپ کھڑے ہو جاتے ہیں‘ یہ اس کی تعظیم ہے. لیکن نبی اکرم نے اپنے لیے اسے بھی پسند نہیں کیا‘ بلکہ آپؐ صحابہؓ کو اس سے سختی سے روکتے تھے. ایک صحابیؓ کی زبان سے گفتگو میں یہ الفاظ نکل گئے : 
’’مَا شَاءَ اللّٰہُ وَمَا شِئْتَ‘‘ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپؐ چاہیں. اس پر آپؐ نے فوراً ٹوک دیااور فرمایا: اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا؟ مَاشَاءَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ (۱’’کیا تم نے مجھے اللہ کا مدّمقابل بنا دیا؟(بلکہ وہی ہو گا) جو تنہا اللہ چاہے!‘‘ یہاں آپؐ نے ’’نِدّ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس کی جمع ’’اَنداد‘‘ ہے. قرآن مجید میں ایک جگہ ارشادِ الٰہی ہے : وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵’’اور لوگوں میں سے وہ بھی ہے جو اللہ کو چھوڑ کر اُس کے (۱) ان الفاظ میں یہ حدیث علامہ محمد بن عبدالوہاب نے ’’کتاب التوحید‘‘ میں نسائی کے حوالے سے درج کی ہے. مسند احمد میں الفاظ وارد ہوئے ہیں : اَجَعَلْتَنِیْ وَاللّٰہَ عَدْلًا ’’کیا تو نے مجھے اور اللہ کو برابر کر دیا؟‘‘ (مرتب) مدّ مقابل بناتا ہے‘ اور پھر یہ لوگ ان سے اللہ کی محبت جیسی محبت کرتے ہیں‘‘.تو نبی اکرم نے اتنا سخت لفظ استعمال کیا کہ تم نے مجھے اللہ کا نِدّ (مدمقابل) بنا دیا؟ حالانکہ ظاہر ہے کہ ان صحابیؓ کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں ہو سکتی تھی. لیکن چونکہ اُن کا یہ جملہ وہم پیدا کر سکتا تھا اورمساوات کی شکل ذہن میں آ سکتی تھی ‘لہذا آپؐ نے سختی سے ٹوک دیا. اس لیے کہ مشیت تو صرف اللہ کی ہے . آپ کی شان تو یہ ہے کہ : 

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ (القصص:۵۶)
’’(اے نبیؐ !) آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہیں (یہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے) ‘بلکہ اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے‘‘.
تیسری بات جو مَیں کرنے لگا ہوں وہ ذرا حساس 
(sensitive) بحث ہے. قرآن مجید میں نہ صرف نبی اکرم کی بشریت کو نمایاں کیا گیا بلکہ اگر کہیں آپؐ سے بتقاضائے طبع بشری معمولی سی خطا یا چوک بھی ہوئی (ایسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے بھی زبان لڑکھڑاتی ہے) تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ٹوکا اور گرفت فرمائی اور اس گرفت کو ہمیشہ ہمیش کے لیے قرآن مجید کا جزو بنا دیا‘ تاکہ تمام کلمہ گو‘ تمام اُمتی ہمیشہ پڑھتے رہیں کہ یہ گرفت ہوئی تھی محمدٌ رسول اللہ کی. چنانچہ سورۂ عبس میں ارشادہوا: 

عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۴﴾اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۵﴾فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ﴿۶﴾وَ مَا عَلَیۡکَ اَلَّا یَزَّکّٰی ؕ﴿۷﴾وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲

’’ تیوری چڑھائی اور منہ موڑ لیا‘ اس لیے کہ ان کے پاس آیا ایک اندھا. آپ کو کیا معلوم شاید کہ وہ تزکیۂ نفس حاصل کرتا یا وہ نصیحت اخذ کرتا تو نصیحت اسے فائدہ پہنچاتی.جو شانِ استغناء کا مظاہرہ کر رہا ہے‘ اس کی طرف آپ توجہ کرتے ہیں. حالانکہ اگر وہ تزکیہ حاصل نہ کرے تو آپ پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو آپ کے پاس دوڑ کر آیا ‘اور اس کے اندر خشیت ہے‘ تو آپ اس سے بے اعتنائی برت رہے ہیں. ہرگز نہیں ‘یہ تو ایک یاددہانی ہے. پس جو چاہے اس یاد دہانی کو اخذ کرے‘‘.

اسی طرح غزوۂ اُحد کا واقعہ ذہن میں لایئے جس پر رسول اللہ کی گرفت ہوئی‘ حالانکہ آپ میں وہ پہاڑ جیسی عزیمت تھی کہ کوہ ہمالیہ بھی جس پر رشک کرے. یومِ طائف میں یہ عزیمتِ محمدیؐ خوب ظاہر ہوتی ہے. پتھراؤ سے جسم لہولہان ہے‘ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی جاں نثار ساتھ نہیں ہے. اندازہ کیجیے کہ سائے کی طرح آپؐ کے ساتھ رہنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی سفر طائف میں آپؐ کے ہمراہ نہیں تھے. آپؐ کا استہزاء ہوا ‘ فقرے چست کیے گئے‘ طائف کے تینوں رؤسا نے ایک سے ایک بڑھ کر کلیجے کو چھید دینے والے الفاظ استعمال کیے . اس پر مستزاد یہ کہ اوباشوں نے جس طرح آپؐ کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا وہ ناقابل بیان ہے. لیکن اُس وقت بھی جبکہ آپؐ کو اختیار دیا گیا کہ اگر آپؐ چاہیں تومَلَک الجبال ان دونوں پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا دے اور طائف کے رہنے والے ان کے مابین سرمہ بن جائیں‘ عزیمتِ محمدیؐ ‘ کوئی بددعائیہ کلمہ زبان سے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہوئی. بلکہ زبانِ رحمت سے ارشاد ہوا کہ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے!

لیکن غزوۂ اُحد میں جب دندانِ مبارک شہید ہوئے اور چہرۂ انور لہولہان ہوا تو زبان سے یہ جملہ نکل گیا: کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ (۱’’وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا‘ جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف پکار رہا تھا!‘‘ حالانکہ یہ کوئی بددعا نہیں تھی کہ اے اللہ! ان کو ہدایت نہ دیجیو‘ بلکہ یہ ایک تبصرہ تھا.لیکن اس پر گرفت ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی : لَیۡسَ لَکَ مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ اَوۡ یُعَذِّبَہُمۡ (آل عمران:۱۲۸’’(اے نبی!) آپ کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہے (ہدایت اور ضلالت کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے) وہ چاہے گا تو اُن کی توبہ قبول کرے گا اور اگر چاہے گا تو اُن پر عذاب بھیج دے گا‘‘.یہ فیصلہ (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الفتن‘ باب الصبر علی البلاء. و مسند احمد: ۱۲۷۲۵.اس مضمون کی احادیث صحیح مسلم اور سنن ترمذی میں بھی موجود ہیں. اے نبیؐ ! آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے‘ہمارے ہاتھ میں ہے. آپ اپنا کام کیجیے اور ان کے انجام کو ہمارے حوالے کیجیے. اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ ﴿ۙ۲۵﴾ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ ﴿٪۲۶﴾ (الغاشیۃ) ’’یقینا ہماری طرف ان سب کو لوٹ کر آنا ہے‘ پھر ہمارے ذمہ ہے ان کا حساب‘‘. اور تاریخ کی اس حقیقت کو دیکھئے کہ اس پورے حادثۂ فاجعہ کا جو سب سے زیادہ ذمہ دار شخص ہو سکتا تھا ‘ یعنی خالد بن ولیدؓ ‘ اسی کو اللہ تعالیٰ نے لسانِ محمدیؐ سے خطاب دلوایا: خَالِدٌ سَیْفٌ مِّنْ سُیُوفِ اللّٰہِ ’’خالدؓ تو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے‘‘. عالمِ اسباب میں تو غزوۂ اُحد میں مسلمانوں کی فتح کو شکست میں بدل دینے والے خالد بن ولیدؓ ہی تھے‘لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے انہیں محمدٌ رسول اللہ کے جاں نثاروں میں شامل فرما دیا. بہرحال قرآن مجید نے ان باتوں کو نمایاں کیا ہے تو حکمتِ بالغہ کے تحت کیا ہے. ایسے مقامات سے گزرتے ہوئے قاری کے دل میں یہ بات آتی ہو گی کہ اگر یہ چیزیں قرآن میں نہ ہوتیں تو کیا حرج تھا. ہمیں ان آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے اور ہماری زبان لڑکھڑاتی ہے. ایک جگہ ارشاد ہے : 

وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَفۡتِنُوۡنَکَ عَنِ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَہٗ ٭ۖ وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوۡکَ خَلِیۡلًا ﴿۷۳﴾وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰکَ لَقَدۡ کِدۡتَّ تَرۡکَنُ اِلَیۡہِمۡ شَیۡئًا قَلِیۡلًا ﴿٭ۙ۷۴﴾ (بنی اسراء یل)

’’اور (اے نبیؐ !) یہ لوگ تو درپے تھے اس کے کہ آپ کو بچلا دیں اس وحی سے جو ہم نے آپ کی طر ف نازل کی ہے تاکہ آپ ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑلائیں‘اور تب تویہ لازماً آپ کو اپنا دوست بنا لیتے. اور اگر ہم آپ کے پاؤ ں جمائے نہ رکھتے تو آپ تو ان کی طرف کسی درجے میں مائل ہو ہی جاتے.‘‘

اور اگلی آیت میں پھر اس پر تبصرہ ہوا ہے: 

اِذًا لَّاَذَقۡنٰکَ ضِعۡفَ الۡحَیٰوۃِ وَ ضِعۡفَ الۡمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیۡنَا نَصِیۡرًا ﴿۷۵
’’اگر ایسا ہو جاتا تو ہم لازماً آپ کو دوہری سزا دیتے دنیا کی اور دوہری سزا دیتے موت کی‘پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں اپنے لیے کوئی مددگار(اورکوئی چھڑانے والا) نہ ملتا‘‘.

مقصود یہ بتاناہے کہ چودہ سو برس بیت جانے کے باوجود محمدٌ رسول اللہ کی شخصیت اُسی طرح شرک کی آمیزش سے پاک اورصاف ہے. آپؐ بشر ہیں اور رسول ہیں. آپؐ عبدہٗ بھی ہیں اور رسولہٗ بھی ہیں. آپؐ عبدِ کامل بھی ہیں اور رسولِ کامل بھی.اس شعر میں کتنی بڑی حقیقت بیان ہوئی ہے :

اَلرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلْ
وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی

’’ربّ ربّ ہی ہے چاہے وہ کتنا ہی نزولِ اجلال فرما لے‘ اور بندہ بندہ ہی ہے خواہ وہ کتنا ہی بلند مقام پر پہنچ جائے‘‘.
چودہ سو برس گزرنے کے باوجود یہ امتیاز قائم ہے‘ حالانکہ اس اُمت میں اپنے نبی کے ساتھ محبت اور عقیدت میں کسی زمانے میں کوئی کمی نہیں رہی ہے.

بہرحال یہ حکمتِ خداوندی اور مشیتِ ایزدی کے تحت ہے ‘اور یہ لازمی نتیجہ ہے ختمِ نبوت کا. لیکن اس کے اسبابِ ظاہری میں سے پہلا یہ ہے کہ قرآن مجید نے نبی ٔ اکرم کی بشریت پر بہت زور دیا ہے اور اسے بہت نمایاں کیا ہے .دوسرے یہ کہ آپ نے اگر کہیں صحابہ کرامؓ میں کوئی ایسا رجحان دیکھا کہ جس سے کسی دیکھنے والے کو مغالطہ ہو سکتا تھا تو اس پر آپؐ نے نکیر فرمائی . اور تیسرے یہ کہ جہاں کہیں بھی بربنائے طبع بشری آپ سے کوئی خطا یا چوک ہوتی تھی‘ اگرچہ وہ جانبِ خیر ہی ہوتی تھی‘ تو اُس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سخت گرفت ہوتی. یہاں میں کسی مغالطے کے سدّباب کے لیے وضاحت کر دوں کہ نبی کی غلطی کے لیے ’’خطا‘‘ کا لفظ موزوں ترین ہے. اس لیے کہ خطا میں نیت کو دخل نہیں ہوتا. ا س لفظ کا سب سے نمایاں استعمال ہے ’’نشانے کا خطا ہو جانا‘‘. اب نشانچی کی تو نشانہ لگانے کی انتہائی کوشش ہوتی ہے‘ اس کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ نشانہ اِدھر اُدھر ہو‘ لیکن بعض اوقات نشانہ خطا ہو جاتا ہے.

 اور یہ اس کے ارادے اور نیت سے بالکل باہر کا معاملہ ہے . دوسری بات یہ کہ خطا میں نفسانیت نہیں ہوتی بلکہ خیر ہی کی طلب ہوتی ہے. یعنی نبی سے خطا ہوتی ہے تو جانبِ خیر میں ہوتی ہے‘ جانبِ شر میں نہیں ہوتی. سورۂ عبس کے واقعے کو پیش نظر رکھیے کہ یہ سارا معاملہ دین کی تبلیغ کے لیے تھا‘ دین کی اقامت کے لیے راستہ نکالنا مقصود تھا. نبی اکرم نے چاہا کہ ان چودھریوں اور سرداروں کی طرف توجہ اور التفات کروں گا تو ان میں سے اگر ایک بھی ایمان لے آتا ہے تو وہ ہزاروں کے برابر ہو جائے گا. یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے جھولی پسار پسار کر دعا کی ہے کہ پروردگار! عمرو بن ہشام یا عمربن الخطاب میں سے ایک کو تو ضرور اسلام کی توفیق عطا فرما دے! اس لیے کہ آپؐ جانتے تھے کہ ان میں سے ایک جو ہے وہ ایک لاکھ کے برابر ہے. ایک ایمان لے آئے گا تو دین کو تقویت پہنچے گی. تو یہ سارا معاملہ محض دین کے لیے تھا اس سے محمدٌرسول اللہ کو (معاذ اللہ) کوئی اپنی ذاتی آسانی مطلوب نہیں تھی‘ کوئی اپنی ذاتی قدر و منزلت بڑھانی مقصود نہیں تھی. ان بڑوں کی طرف التفات اس لیے نہیں تھا کہ ان کی دولت کی طرف آپؐ کی کوئی حریصانہ نگاہ تھی ‘(معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ) بلکہ یہ دین کی بہتری کے لیے اور ان مسلمانوں کی مصلحت کے لیے تھا جو چکی کے پاٹوں میں پسے ہوئے تھے. آپؐ نے چاہا کہ اگر ایسے چند بااثرلوگ ایمان لے آئیں تو ان کو بھی ریلیف ملے گا‘ انہیں بھی سہارا ملے گا‘ ان کو قوت اور تقویت حاصل ہو گی.

بہرحال قرآن نے ان چیزوں کو جس طرح نمایاں کیا اور جو سخت اندازِ خطاب برتا ہے یہ درحقیقت اس وجہ سے ہے کہ مقامِ ربوبیت اور مقامِ عبدیت میں امتیاز قائم رہے.اور یہ صورت حال الحمد للہ ‘ثم الحمد للہ چودہ سو سال گزرجانے کے باوجود برقرار رہی ہے. باقی یہ کہ ہمارے ہاں اگر کچھ اولیاء اللہ اور صوفیاء کی عقیدت میں کچھ غلو ہوا ہے تو جان لیجیے کہ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ کے مصداق اگر محمدٌ رسول اللہ کا مقام یہ ہے جو قرآن نے بیان فرمایا تو کسی اور کا ان سے اونچا مقام کیونکر ہوجائے گا؟ کسے باشد! بڑے سے بڑے پیر ‘ بڑے سے بڑے صوفیاء اور بڑے سے بڑے اولیاء اللہ کا مقام بھی محمدٌ رسول اللہ کے سامنے ایسے ہے جیسے سورج کے سامنے ستارے ہوں‘ ان سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں. ہمارے ہاں جو مغالطے پھیلے ہوئے ہیں وہ محض اسی نوعیت کے ہیں جیسے میں نے بتایا کہ جہلاء‘ شعراء‘ نعت گوؤں اور واعظوں نے اپنے غلوِ بیان میں یہ شکلیں اختیار کر لی ہیں. بدقسمتی سے اس میں اَوتار (Incarnation) کا عقیدہ بھی آ گیا ہے اور ہمہ اوست (Pantheism) بھی آ گیا ہے اور اس میں ’’بغیر عین کے اِک عرب‘‘ سے خدا کا ایہام بھی پیدا کر دیا گیا ہے. آپ ان ساری چیزوں کو اسی کھاتے میں رکھیے اور اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ چودہ سو برس بیت جانے کے باوجود بھی اس اُمت مسلمہ کے کسی بھی مستند فرقے کے مستند عقائد کی فہرست میں ’’شرک فی الذات‘‘ کی یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں. یعنی نہ تو کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا اور بیٹی قرار دیا گیا اور نہ ہمہ اوست اور اوتار کے عقائد پیدا ہوئے.