شرک کی دوسری قسم ’’شرک فی الصفات‘‘ کی بحث شروع کرنے سے پہلے میں ایک اہم علمی نکتے پر بات کرنا چاہتا ہوں. ہمارے ہاں ایک مسئلہ مذہبی بحث و نزاع کا موضوع بنا ہوا ہے. وہ محمدٌرسول اللہ کی ’’بشریت‘‘ اور ’’نور‘‘ کا مسئلہ ہے کہ آپؐ بشر تھے یا نور.عوامی سطح پر جو مذہبی جلسے ہوتے ہیں ان میں اکثر و بیشتر اسی مسئلے پر گفتگو ہوتی ہے‘ دھواں دار تقریریں ہوتی ہیں جن میں جوش و خروش اور غیظ و غضب کا اظہار ہوتا ہے. ایک گروہ رسول اللہ کی بشریت کی نفی اور نورانیت کے اثبات پر اوردوسرا گروہ آپؐ کی نورانیت کی نفی اور بشریت کے اثبات پر بہت زیادہ زور لگاتا ہے جس سے مناظرے اور مباحثے کا بازار گرم ہو جاتا ہے اور ایک نزاع کا عالَم پیدا ہو جاتا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں نزاع کا قطعاً کوئی پہلو نہیں ہے. اس سلسلے میں محض کھینچ تان اور جوشیلی تقریروں کی وجہ سے بات بگڑتی ہے اور فریقین میں باہم شدت اور تلخی بڑھتی چلی جاتی ہے. 

جان لیجیے کہ نبی اکرم کے معاملے میں نہ یہ کہنا درست ہے کہ آپ بشر 
بشر نہیں تھے بلکہ نورتھے اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ آپؐ نور نہیں تھے بلکہ بشر تھے. دونوں باتیں یکساں غلط ہیں‘ اصل حقیقت یہ ہے کہ آپؐ بیک وقت بشر بھی تھے اور نور بھی تھے. اور یہ معاملہ صرف رسول اللہکا نہیں ہے بلکہ میرا اور آپ کا اور ہر انسان کا ہے. ہر انسان کے اندر اس کے وجود کے دو حصے ہیں. ایک اس کا ’’حیوانی‘‘و جود ہے. وہ خاکی ٔ الاصل ہے جو اِس زمین سے بنا ہے. وہ اپنی اصل کے اعتبار سے ظُلمانی ہے. اس میں تاریکی ہے‘ اس میں پستی کا رجحان ہے‘ اس میں برائی کا میلان ہے. قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳’’اور میں اپنے نفس کی براء ت نہیں کر رہا ہوں‘ یقینا نفس تو برائی پر اُبھارتا ہے‘‘. لیکن انسان مجرد اِس پستی اور خاکی ٔالاصل وجود ہی کا نام نہیں ہے‘ بلکہ اس کے وجود کا دوسرا حصہ ’’روح‘‘ ہے.

نقطۂ نوری کہ نامِ او خودی
زیر خاکِ ما شرارِ زندگی 

انسانِ اوّل کو آدم علیہ السلام بنانے والی چیز یہی روحِ خداوندی تھی جو اُن میں پھونکی گئی. اوروہ روح خاکی اورظلمانی نہیں ہے‘ بلکہ نورانی حقیقت رکھنے والی شے ہے. وہ ملائکہ کی ہم پلہ ہی نہیں ملائکہ کی مسجود ہے. ملائکہ نوری الاصل ہیں تو کیا روح خاکی ٔ الاصل ہے؟ نہیں‘ روح خاکی اور ظُلمانی نہیں ہے ‘بلکہ نورانی ہے. بقولِ اقبال : ؎ 

ہے ذوقِ تجلی بھی اِسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحبِ ادراک نہیں ہے!

حواسِ خمسہ یعنی دیکھنا‘سننا ‘سونگھنا ‘چکھنا اور چھونا تو حیوانات میں بھی ہیں! انسان نے بھی اپنی حقیقت اگر یہی سمجھی تو اُس نے گویا اپنی اصل عظمت کو نہیں پہچانا. ادراک تو اصل میں اپنے سے باہر کی کسی شے کو محسوس کرنا ہے‘ جبکہ روشنی تو خود اپنا ظہور چاہتی ہے‘ اپنی تجلی چاہتی ہے. تو انسان کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے وجود کے دو حصے ہیں‘ ایک اس کا یہ حیوانی وجود ہے ‘ جو خاکی ٔالاصل ہے‘ ظُلمانی ٔالاصل ہے. اس کا میلان پستی اور گناہ کی طرف ہے. اور ایک اس کا روحانی وجود ہے جو نورانی ٔالاصل ہے. اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا تھا : فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾ (الحجر) ’’پس جب میں اسے (آدم علیہ السلام کو) بناسنوار لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونکوں تو گر پڑنا اس کے سامنے سجدے میں‘‘.یہاں روح کی نسبت اللہ تعالیٰ نے خود اپنی طرف کی ہے.

تو یہ ہے ہمارا وہ نورانی عنصر جوہر ایک انسان میں ہے. لیکن ؏ ’’گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی‘‘کے مصداق سب کا نور برابر تو نہیں ہے . کسی کا محض ایک ٹمٹماتا ہوا دیا ہے. کسی کی اس نورانیت پر اس کے نفس کی ظلمانیت اس طرح چھا گئی ہے کہ وہ نور معدوم کے درجے میں ہے. یعنی اس کی فطرت کا نور بجھ چکا ہے‘ جبکہ کسی کا وہ نور اس قدرزیادہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے اس کی تمثیل یوں بیان کی ہے : 
یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ (النور:۳۵’’(کسی کی فطرت کا نور اتنا صاف اور شفاف ہے کہ)بھڑک اٹھنے کو بے تاب ہے‘ چاہے اسے آگ نے چھوا تک نہ ہو. روشنی پر روشنی ہے.‘‘یہ ہے وہ نور جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں موجود تھا. ابھی وحی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا ‘لیکن ان کے اندر اخلاقِ حسنہ کے انوار پہلے سے موجود تھے. ایسے ہی تمام صدیقین اور انبیاء علیہم السلام کے اندر نورِ فطرت موجود ہوتا ہے . اب اس تناظر میں دیکھئے تونبی اکرم کی شخصیتِ مبارکہ چونکہ بلندترین ہے تو آپؐ کی نورانیت بھی اتنی کامل ہے کہ اس نے خاکی وجود کی ظلمانیت کوبالکل معدوم کر دیا ہے. اس معنیٰ میں اگر کہا جائے کہ نبی اکرم نورِ مجسم ہیں توغلط نہیں ہے.

تو یہ دونوں چیزیں بیک وقت صحیح ہیں . نبی اکرم بیک وقت بشر بھی ہیں اور نور بھی ہیں. آپؐ کی بشریت کا کون انکار کرے گا! آپ کی ولادت ہوئی ہے جیسے کسی انسان کی ولادت ہوتی ہے. آپؐ کے بھی وہی دو ہاتھ اور دو پاؤں تھے. وہی انسانی خون آپ کے وجود میں بھی سرایت کیے ہوئے تھا اور گردش کر رہا تھا . طائف میں آپؐ پر پتھراؤ ہوا ہے تو زخموں میں سے خون رسا ہے. میدانِ اُحد میں جب تلوار کا وار آپؐ 
کے چہرۂ مبارک پر لگا ہے تو خون کا فوارہ چھوٹا ہے. اسی طرح آپ نے شادی کی ہے اور آپؐ کے ہاں اولاد ہوئی ہے. لیکن اس سب کے باوجود نبی اکرم کی نورانیت کی نفی ہرگز نہ کیجیے! آپؐ کی نورانیت کی نفی درحقیقت اِس دَور کا مادّہ پرستانہ فکر ہے جو میری آج کی بحث کا اصل موضوع ہے. ہم نے مادہ پرستانہ فکر اپنے ذہنوں پر اتنا مسلط کر لیا ہے کہ ہم روح کی حقیقت اور اس کے جداگانہ تشخص سے یا توبالکلیہ منکرہو گئے ہیں یا اس کا زبان پر ذکر لاتے ہوئے ہمیں حجاب محسوس ہوتا ہے. بقول اکبر الٰہ آبادی : ؎ 

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں!

کہ روحانیت کی باتیں کرتے ہو؟ روح کی بات کرتے ہو؟روح کو کوئی علیحدہ وجود مانتے ہو؟ تو یہ چیزیں ہمارے فکر اور نظریات کے دائرے سے اس طور سے باہر چلی گئی ہیں کہ اب ہم سمجھتے ہیں کہ انسان تو بس اسی حیوانی وجود کا نام ہے. ہم اپنے اس وجودِ حیوانی ہی کو اصل انسان سمجھے بیٹھے ہیں‘ اس لیے نورانیت کی نفی ہو رہی ہے. 

اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارا جو نورانی عنصر ہے ‘ایمان اور عمل صالح سے اس کی نورانیت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے برعکس گناہوںاور نفسانیت سے یہ نور بجھتا چلا جاتا ہے. قرآن مجید میں سورۃ الحدید اور سورۃ التحریم میں دو جگہ میدانِ حشر کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ اُس دن اہل ایمان کی شان یہ ہو گی کہ : 

یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۚ۱۲﴾ (الحدید) 

’’اُس دن آپ مؤمن مردوں اور عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور اُن کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا. (اُن سے کہا جائے گا ) آج بشارت ہے تمہارے لیے ایسے باغات کی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں‘ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے. یہی ہے بڑی کامیابی.‘‘
آگے منافقین کے بارے میں فرمایا گیا: 
یَوۡمَ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ؕ (آیت ۱۳)

’’اُس دن منافق مردوں اور عورتوں کا حال(جو دنیا میں چراغ گل کر کے جائیں گے) یہ ہو گا کہ وہ اہل ایمان سے استدعا کریں گے : ذرا ہماری طرف دیکھو (ذراہمیں مہلت دو) ‘تاکہ ہم تمہارے نور سے استفادہ کریں. کہا جائے گا لوٹ جاؤ پیچھے کی طرف (اگر ہو سکتا ہے تو دنیا میں واپس جاؤ ) اور اس نور کی تحصیل کر کے آؤ .‘‘

سورۃ التحریم میں ہے : 

نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾ 
’’اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ: اے ہمارے ربّ! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کرد ے اور ہم سے درگزر فرما‘ یقینا تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے.‘‘

اس نور کے بارے میں نبی اکرم کا ارشادِ گرامی ہے کہ قیامت کے دن کسی کا نور بس اتنا ہو گا کہ ا س سے صرف اس کے قدموں کے آگے روشنی ہو جائے گی‘ اور کسی کا نور اِس قدر ہو گا کہ اس کی روشنی مدینہ منورہ سے صنعاء تک پہنچے گی.یعنی اُس روز کسی کا نور بہت تھوڑا ہو گا کہ بس اس سے قدموں کے آگے آگے روشنی ہو گی. اور قیامت کے دن یہ نور بھی بہت غنیمت ہو گا جس کو نصیب ہو گیا. اس لیے کہ اندھیرے میں ایک ٹارچ بھی بہت غنیمت ہوتی ہے جس سے آپ بالآخر منزلِ مراد تک پہنچ سکتے ہیں.جبکہ کسی کا نور اُس روز بہت زیادہ ہو گا جس سے ہر سو چراغاں ہو جائے گا. یہ حفظِ مراتب ہے. اس تناظر میں دیکھئے تو محمدٌ رسول اللہ کا نور کس قدر ہو گا! اِن باتوں کو ذہن میں رکھیے تو جھگڑا ختم ہو جاتا ہے. رسول اللہ بیک وقت ’’بشر‘‘ بھی ہیں اور ’’نور‘‘ بھی ہیں. اور یہی معاملہ ہم سب کا بھی ہے. ہمارا ایک روحانی وجود ہے جو نوری ٔالاصل ہے اور ایک مادی وجود ہے جو خاکی ٔالاصل ہے اور ہماری شخصیتوں میں ان دونوں کا امتزاج 
ہے. کسی کی ظلمانیت اس نور پر ایسے غالب آ گئی ہے کہ نور معدوم ہو گیا ہے اور کسی کی ظلمانیت پر اس کی نورانیت کا اتنا غلبہ ہو گیاہے کہ اس کی ظلمانیت کا فور ہو گئی ہے. 

اسی حقیقت کو حدیث نبویؐ کی روشنی میں اس طرح سمجھ لیجیے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا:

مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلاَّ وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِیْنُہٗ مِنَ الْجِنِّ قَالُوْا : وَاِیَّاکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: وَاِیَّایَ اِلاَّ اَنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ فَلَا یَاْمُرُنِیْ اِلاَّ بِخَیْرٍ (۱

’’تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے ہمراہ ایک ساتھی شیطان نہ سونپ دیا گیا ہو‘‘. صحابہ کرامؓ نے (بڑی ہمت کر کے) دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپؐ بھی؟ آپؐ نے فرمایا:’’ہاں میں بھی‘ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی تو میں نے اسے مسلمان بنا لیا. اب وہ مجھے سوائے بھلائی کے کوئی اور مشورہ نہیں دیتا.‘‘

یہ رسول اللہ کا بات کو سمجھانے کا ایک انداز تھا. بہرحال وہ نفس تھا تو سہی رسول اللہؐ کے اندربھی. آپؐ کا بطنِ مبارک بھی کھانے کو مانگتا تھا. بھوک کا احساس محمد کو بھی ہوتا تھا . بھوک کی وجہ سے آپؐ پر بھی نقاہت طاری ہوتی تھی. طائف میں پتھراؤ کی وجہ سے جب بہت زیادہ خون بہا تو آپؐ پر نقاہت طاری ہو ئی اور آپؐ بیٹھ گئے. اسی طرح اُحد میں بھی بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے آپؐ پر نقاہت طاری ہوئی اور آپؐ بے ہوش ہو گئے.آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘اس لیے کہ انسانی عواطف و میلانات اور احساسات و جذبات آپؐ کی شخصیت میں بتمام و کمال موجود تھے. لیکن ان چیزوں کی وجہ سے کبھی آپ سے (معاذ اللہ) خدا کی معصیت کا صدور ممکن نہیں ہوا. آپؐ کو تمام بشری تقاضوں اور آثارِ طبیعی پر اس قدر قابو تھا کہ کوئی بھی چیز آپؐ سے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کرا سکی. 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار‘ باب تحریس الشیطان وبعثہٖ سرایاہ لفتنۃ الناس وان مع کل انسان قرینا.