مسلمانوں میں اَوتار کا تصور

گزشتہ صفحات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ ہندوؤں کے ہاں نو اَوتار تھے‘ ایک دسواں اَوتار اپنے آپ کو مسلمان کہنے والوں نے اُن میں شامل کر لیا ہے. اب اس بات کی ذرا تفصیل جان لیجیے!دراصل شیعیت کی بہت سی شاخیں ہیں. ہمارے ہاں جو معروف شیعہ ہیں وہ ’’اثنا عشری‘‘ ہیں‘ یعنی پہلے بارہ اماموں کے ماننے والے. ان کے خیال میں بارہویں امام غائب ہو گئے جو امامِ منتظَر کہلاتے ہیں اور وہ اُن کے انتظار میں ہیں کہ دوبارہ آئیں گے. چھٹے امام پر ایک شاخ علیحدہ ہو گئی جو ’’شش امامیہ‘‘ کہلاتے ہیں. یعنی پہلے چھ امام تو ’’اثنا عشری‘‘ اور ’’شش امامیہ‘‘ کے مابین مشترک ہیں ‘ لیکن اسماعیل‘ جو امام جعفر صادق ؒ کے بڑے صاحبزادے تھے ‘ ان سے اِن شش امامیہ والوں کی شاخ الگ ہو گئی. شش امامیہ والوں کی بھی آگے چل کر دو شاخیں ہو گئیں. ایک شاخ وہ ہے جو ہمارے ہاں ’’بوہرے‘‘ کہلاتے ہیں . ان کے غالباً۳۲ ویں امام غائب ہو گئے. طاہر سیف الدین‘ جن کا انتقال ہو گیا‘ اور برہان الدین جو بمبئی میں رہتے ہیں ‘ ان کے مذہبی پیشوا ہیں. یہ امام نہیں کہلاتے بلکہ داعی کہلاتے ہیں . شش امامیہ کی دوسری شاخ ’’اسماعیلی‘‘ ہے. ان کے کہنے کے مطابق ان کے امام غائب نہیں ہوئے ‘بلکہ امامت کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ چل رہا ہے. اِس وقت پرنس کریم آغا خان ان کے امامِ حاضر ہیں. یہ امام کو معصوم مانتے ہیں. 

پیر شمس الدین سبزواری (۱اور دیگر اسماعیلی مبلغین کے ذریعے اسماعیلیت کی دعوت جب ہندوستان میں دی گئی تو ان مبلغین نے دعوت و تبلیغ کے لیے یہ حکمتِ عملی اختیار کی کہ چونکہ ہندوؤں کو مسلمان بنانا آسان کام نہیں‘ لہذا ان کے عقیدوں کے ساتھ ہی ذرا اپنے عقیدے کو جوڑدیں تو بات بن جائے گی. ہندو نو اَوتار مانتے تھے‘ انہوں نے یہ کہا کہ نو اَوتار تمہارے ہیں اور دسواں اَوتار ایک اور آیا ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (۱) ان کا مزار ملتان میں ہے جو خواہ مخواہ شمس تبریز کے نام سے مشہور ہو گیا ہے. حالانکہ شمس تبریز کا ملتان میں آنے کا کوئی سوال اور امکان ہی نہیں ہے.ہیں. اس مذہب میں ’’دشم اَوتار‘‘ یعنی دسواں اَوتار حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مانا جاتا ہے. اَوتار یا Incarnation کا یہ عقیدہ باضابطہ طور پر ان کے عقائد میں شامل ہے.

دوسرا کام ان مبلغین نے یہ کیا کہ ہندوستان میں نئے ایمان لانے والوں پر سے شریعت ساقط کر دی. ظاہر بات ہے اگر کسی کو اسلام یا دین کی تعلیم دی جائے اور اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ پانچ نمازیں بھی پڑھنی پڑیں گی‘ تیس روزے بھی رکھنے پڑیں گے‘ تووہ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے دس دفعہ خوب سوچے گا. لیکن اگر اسے یہ کہا جائے کہ کوئی شریعت تم پر لاگو نہیں ہو گی‘ بس تم کلمہ پڑھو ‘تو اس کے لیے اب کام آسان ہو جائے گا. جیسے سینٹ پال نے کہا تھا کہ بس حضرت مسیح( علیہ السلام ) کو مان لو تو تمہارے گناہوں کی طرف سے وہ پیشگی کفارہ ہو جائیں گے‘ تمہارے اوپر شریعت کا بھی بوجھ نہیں ہو گا اور حلال و حرام کی قید بھی نہیں ہو گی‘ چاہے خنزیر کھاؤ اور شراب پیو.چنانچہ ان کے ہاں پہلے سے جو مشرکانہ عقائد تھے ان پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنی تثلیث بنا لی اور حضرت مسیح ؑ کو خدا کا بیٹا قرار دے کر اس عقیدے سے اپنے مذہب کو جوڑ دیا. تو اس طرح سے سینٹ پال والی عیسائیت جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی. بعینہٖ یہی کام ہندوستان میں اسماعیلی داعیوں نے کیا کہ شریعت ساقط قرار دے دی. لہذا ہمارے آغاخانیوں کے ہاں نماز روزہ وغیرہ کچھ نہیں ہے. ان کی مسجدیں نہیں ہوتیں‘ محض جماعت خانے ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت کلبوں اور چوپال کی ہے جہاں وہ آ کر بیٹھتے ہیں اور ساتھ مل کر کھانا وغیرہ کھاتے ہیں. جماعت خانہ ان کی سوشل لائف کا ایک مرکز ہے. باقی یہ کہ شریعت اُن سے ساقط ہے. البتہ ہمارے شمالی علاقے ہنزہ اور چترال میں جو اسماعیلی آباد ہیں‘ ان کے ہاں شریعت موجود ہے.اس لیے کہ وہ 
local converts نہیں ہیں‘ بلکہ وہ ایران سے آئے تھے. جبکہ بمبئی اور کاٹھیاواڑ وغیرہ کے علاقے میں مقامی لوگوں نے جو اسماعیلیت قبول کی ہے اس میں ایک تو شریعت ساقط ہے اور دوسرے حضرت علی رضی اللہ عنہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کے دسویں اَوتار ہیں. جیسا کہ عرض کیا گیا‘ہندوستان میں نو اَوتار پہلے سے پوجے جا رہے تھے‘ دسواں اَوتار حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منوا کر اس کے ساتھ جوڑ دیاگیا.