پہلی چیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کا وجود بھی قدیم ہے اور اس کی صفات بھی قدیم ہیں‘ جبکہ ماسوی اللہ (جملہ مخلوقات) کا وجود بھی حادث ہے اور صفات بھی حادث ہیں. جو بڑے سے بڑے مشرک گزرے ہیں خدا کو تو انہوں نے بھی قدیم مانا ہے. ’’تعدّدِ قدماء‘‘ کا نظریہ رکھنے والوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ بھی قدیم‘ روح بھی قدیم اور مادہ بھی قدیم. کچھ لوگوں نے ذرا رعایت کرتے ہوئے دو ہستیوں کو قدیم مانا ہے کہ خدا بھی قدیم اور مادہ بھی قدیم‘ جبکہ توحید یہ ہے کہ قدیم ہستی صرف اللہ کی ہے‘ باقی سب کو حدوث لاحق ہے کہ پہلے نہیں تھے ‘پھر ہو گئے.
دوسری چیز یہ کہ اللہ کا وجود بھی ذاتی ہے اور صفات بھی ذاتی ہیں‘ جبکہ ماسوی اللہ کا وجود بھی عطائی ہے اور صفات بھی عطائی ہیں. اللہ تعالیٰ تو از خود ہے‘ خود بخود ہے. کوئی اور تو اسے وجود دینے والا نہیں ‘ معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ.اسی طرح اس کی صفات بھی ذاتی ہیں‘ کسی اور کی عطا کردہ نہیں‘ اس کو علم کسی اور نے نہیں دیا‘ معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ. جبکہ جملہ مخلوقات کا وجود بھی عطائی ہے‘ اللہ نے ہی سب کو وجود عطا کیا ہے. بقول شاعر : ؎
لائی حیات آئے ‘ قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے ‘ نہ اپنی خوشی چلے
تو یہ قضا اور حیات تو بس ارادۂ خداوندی ہے‘ فیصلۂ خداوندی ہے‘امرِ خداوندی ہے. اُس نے چاہا تو ہم ہو گئے. اسی طرح جملہ مخلوقات کی صفات بھی عطائی ہیں‘ ذاتی نہیں ہیں‘اللہ نے عطا کی ہیں.
تیسری چیز یہ کہ اللہ کی ذات بھی مطلق ہے اور صفات بھی مطلق ہیں‘ جبکہ ماسوی اللہ (جملہ مخلوقات) کا وجود بھی محدود ہے اور صفات بھی محدودہیں. ’’مطلق‘‘ عربی زبان میں ’’ط‘ ل‘ ق‘‘ مادے سے ہے جس کا مطلب ہے آزادی‘ بے قید ہونا‘لامتناہی ہونا‘ حدود اور نہایت سے مبرّا ہونا. ’’طلاق‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ عورت کو نکاح کے بندھن سے آزاد کر دیا جائے. تو اللہ تعالیٰ کا وجود اور صفات مطلق‘ لامتناہی‘ حدود و قیود اور انتہا سے مبرا ہیں. انگریزی میں اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے : ’’The Absolute Being‘‘ . ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے بیان کے لیے ایک ہی لفظ ’’کُل‘‘ کے دامن میں پناہ لیتے ہیں کہ : وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ’’وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے‘‘.اور : وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ’’وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘.
اس حوالے سے جان لیجیے کہ جب بھی کوئی لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے بطور وصف یا صفت بولا جائے تو مذکورہ بالا تین تصورات ذہن میں مستحضر رہیں کہ (۱) اللہ تعالیٰ کی وہ صفت یا وصف قدیم ہے‘ اس میں حدوث کا کوئی شائبہ نہیں. (۲) وہ ذاتی ہے‘ کسی کا عطا کردہ نہیں. اور (۳) وہ مطلق اور لامتناہی ہے‘ اس میں کہیں کوئی حدّونہایت نہیں. اس کے بالکل برعکس جب وہی لفظ ہم مخلوقات میں سے کسی کے لیے بطور صفت یا وصف بولیں گے تو وہاں یہ تین تصورات ملحوظ رہیں گے کہ جیسے وہ چیز خود حادث ہے ویسے ہی اس کی وہ صفت بھی حادث ہے‘ جیسے اس کا وجود عطائی ویسے ہی اس کی صفت بھی عطائی ہے اور جیسے اس کا وجود محدود ہے ویسے ہی اس کی صفت بھی محدود ہے. تو یہ تینوں تصورات اگر ہروقت مدّنظر رہیں تو صفات کے معاملے میں آدمی شرک میں ملوث نہیں ہو گا. لیکن اگر ان میں سے کسی میں بھی ٹھوکر کھا گئے تو ’’شرک فی الصفات‘‘ کا راستہ کھل جائے گا. یہ الجبرے کے فارمولے کی طرح بالکل واضح بات ہے. اس کو سمجھ لیاجائے تو بڑے بڑے مسائل اور عقدے حل ہوتے چلے جائیں گے. یہ گویا وہ کلید ہے کہ جس سے ہمارے ہاں عقائد کی بحثوں کے جو بڑے بڑے تالے پڑے ہوئے ہیں وہ کھلتے چلے جائیں گے.