اس کو ایک حدیث کے حوالے سے سمجھئے. نبی اکرمﷺ نے ایک مرتبہ زہد کی تعریف اس طرح بیان فرمائی کہ : اَلزَّھَادَۃُ فِی الدُّنْیَا لَـیْسَتْ بِتَحْرِیْمِ الْحَلَالِ وَلَا اِضَاعَۃِ الْمَالِ وَلٰــکِنَّ الزَّھَادَۃَ فِی الدُّنْیَا اَنْ لَا تَـکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ اَوْثَقَ مِمَّا فِیْ یَدَیِ اللّٰہِ (۱) (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الزھد عن رسول اللہﷺ ‘ باب ما جاء فی الزھادۃ فی الدنیا. ’’دنیا میں زہد (اپنے اوپر) حلال کو حرام کر لینے اور مال ودولت کو ضائع کرنے کا نام نہیں ہے ‘ بلکہ دنیا میں زہد تو یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھوں میں ہے اس پر تمہارا توکل اور اعتماد زیادہ نہ ہو جائے اس چیز سے جو اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘.
یعنی تم عام طور پر سمجھتے ہو کہ حلال چیزوں کو بھی اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا جائے تو یہ زہد ہے‘ یعنی نہ اچھا کھانا‘ نہ اچھا پہننا‘ حالانکہ اللہ نے یہ چیزیں حلال کی ہیں . ارشادِ الٰہی ہے:
قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ (الاعراف:۳۲)
’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں (ممنوع کردیں)؟‘‘
بلکہ زہد تو یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس پر تمہاراوثوق‘ اعتماداور توکل زیادہ ہو جائے اس سے کہ جو تمہارے ہاتھ میں ہے‘ یعنی اسباب و وسائل اور دولت وغیرہ.لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جیب میں پیسہ ہے تو دل کو سکون ہے‘ جیب میں پیسہ نہیں تو دل اڑا ہوا ہے‘ اس لیے کہ اللہ کے خزانوں پر ‘ اللہ کی رزّاقیت اور قدرت پر ہمارا اتنا اعتماد اور یقین نہیں جتنا کہ پیسے پر ہے‘ بلکہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں. اب اسے شرک کہہ لیں یا کفر کہہ لیں. جیسے ایک درویش نے کہا ہے : ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘ کہ انسان کا جو سانس غفلت میں بسر ہوتا ہے تو درحقیقت اس کا وہ وقت ایک نوع کے کفر میں گزرتا ہے.
دیکھئے نبی اکرمﷺ نے توحید کی کتنی تلقین کی ہے! آپؐ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکو تاکید فرمائی کہ اس بات کو ذہن نشین کر لو کہ ’’اگر تمام انسان مل کر تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے مگر وہی کچھ جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے ‘اور تمام انسان مل کر اگر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے مگر وہی کچھ جو اللہ نے تمہارے خلاف لکھ دیا ہے.‘‘ (۱) جب تک انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی کہ تمام بیم و رجاء کا مرکز اللہ کی ذات ہو جائے‘ ماسوی اللہ سے امید اور خوف دونوں منقطع ہو جائیں تو گویا اصل توحید حاصل نہیں .توحیدکا نام ہی تو ولایتِ (۱) سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع. خداوندی ہے . ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ (یونس) ’’سنو! جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے یقینا کسی خوف اور غم کا موقع نہیں ہے‘‘.ان کی امیدیں اور ان کا خوف سب ماسوی اللہ سے کٹ کر اللہ کی ذات پر مرتکز ہو جاتا ہے. امید ہے تو اللہ سے اور خوف ہے تو اللہ سے. اُن کا ایمان اور یقین ہوتا ہے کہ کسی اور کے کیے کچھ نہیں ہو سکتاجب تک اللہ نہ چاہے.کوئی میری بگڑی نہیں بنا سکتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے ‘کوئی میری تکلیف رفع نہیں کر سکتا اگر اللہ نہ چاہے .تو خوف اور امید دونوں جب تک جملہ مخلوقات سے منقطع ہو کر اللہ کی ذات سے منسلک نہ ہو جائیں انسان توحید کا لذت آشنا نہیں ہو سکتا.آج کا انسان اس مادہ پرستانہ فکر کی وجہ سے اس سے بہت محروم ہو چکا ہے. البتہ زبان سے لا الٰہ کہہ دینا آسان ہے‘ اس میں کوئی مشکل نہیں پڑتی.