اب جو اِس دَور کا سب سے بڑا شرک ہے پہلے اسے سمجھ لیا جائے ‘جس کے بارے میں مَیں اپنے بارے میں بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں اس سے بالکل بری ہوں.اللہ ہی جس کو بچا لے وہ بچ جائے گا ‘ ورنہ اللہ کی توفیق کے بغیر اس سے بچنا انسان کے بس کی بات نہیں. وہ شرک کیا ہے؟ وہ ’’مادّہ پرستی کا شرک‘‘ ہے. اصل میں ایک نظریہ‘ ایک خیال اور ایک مغالطہ دنیا میں رہا تو ہمیشہ سے ہے ‘لیکن اِس دَور میں آ کر اس نے ایک فلسفہ‘ فکرِ انسانی کے لیے ایک بہت بڑے محور اور مرکز کی حیثیت اختیار کر لی ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ مادہ کی صفات 
(Properties of the matter) مستقل ہیں‘ دائم ہیں‘ غیر متبدل (immutable) ہیں‘ ان میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی‘یہ صفات مادے سے منفک نہیں ہو سکتیں اور قوانین طبیعی (Laws of the Nature) کبھی تبدیل نہیں ہوتے.

جب سے سائنس کا دَور دورہ‘ شہرہ اور غلغلہ ہوا ہے اور جب سے ذہنوں پر اس کی چھاپ بہت گہری ہو گئی ہے اور سائنسی اکتشافات نے انسان کو مبہوت اور مرعوب کر دیا ہے تب سے یہ فکر ہمارے ذہنوں میں پیوست ہو گیا ہے کہ مادے کی صفات مستقل ہیں‘ دائم ہیں‘ ہمیشہ بروئے کار آتی ہیں‘ کوئی صورت نہیں ہے کہ مادے سے اس کی صفت منفک ہو جائے ‘ بلکہ وہ اپنی جگہ مستقل بالذات ہے. گویا ہم نے آج مادے کو اُس مقام پر بٹھا دیا ہے جہاں اصلاً اللہ تعالیٰ کی ذات ہے. صفات تو اللہ تعالیٰ کی مستقل اور دائم ہیں‘ قانون تو اس کا ہے جو کبھی نہیں بدلتا . شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنے بچے کو وصیت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ : لَا فَاعِلَ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَلَا مُؤَثِّرَ اِلَّا اللّٰہُ ’’فاعلِ حقیقی اور مؤثرِ حقیقی اللہ کے سوا کوئی نہیں‘‘. جیسے حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہے تھے : یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ ’’اے میرے بچے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کیجیو! یقینا شرک بہت بڑا ظلم (اور بہت بڑی ناانصافی) ہے.‘‘

اصل حقیقت یہ ہے کہ آگ میں جلانے کی تأثیر ہے‘ لیکن یہ اس کی ذاتی نہیں ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ ہے اور اُسی وقت بروئے کار آئے گی جب اللہ چاہے گا. 
آگ کو جلانے کی صفت ودیعت کرنے کے بعد ‘معاذ اللہ‘ اللہ کے ہاتھ بندھ نہیں گئے کہ مَیں تو آگ میں جلانے کی صفت پیدا کر چکا‘ بدبختوں نے ابراہیم علیہ السلام کو اٹھا کر آگ میں پھینک دیا ہے تو اب میں کیا کروں!معاذ اللہ.آگ کا وصف ذاتی اور مستقل نہیں‘ بلکہ اللہ کے اِذن کے تابع ہے .آگ اُسی وقت جلائے گی جب اللہ کا اِذن ہو گا‘ اگر نہیں ہوگا تو نہیں جلائے گی. لہذا تمام صفاتِ مادہ تابع ہیں مشیتِ خداوندی کے‘ یہ مستقل بالذات نہیں ہیں. نیوٹونین فزکس یعنی جو فزکس کا ابتدائی دَور تھا‘ اس میں بڑا اِذعان اور بڑا یقین تھاکہ جوقوانین ہم نے دریافت کر لیے ہیں یہ حتمی ہیں‘ ان میں کسی تبدیلی کا امکان ہی نہیں ہے . 

".We have discovered the final truth" 
اور’’ قانون بقائے مادہ‘‘ کی رو سے مادہ لازوال اور غیر فانی ہے : 

(.Matter is indestructible) 
اور matter اور energy دو جدا کیٹیگریز ہیں. یہ نیوٹن کی فزکس کے مبادیات تھے. ان کا جب ہمارے عقائد‘ مذہبی فکر اور ایمانی نظریات کے ساتھ تصادم ہوا تو اس کا پہلامظہر یہ سامنے آیا کہ اب معجزات کی کیا تعبیر وتأویل کی جائے! مغربی فکر اور استعمار کا یہ ریلا اتنا شدیدتھا کہ بیچارے سرسید احمد خان جیسا مخلص مسلمان بھی ثابت قدم نہ رہ سکا اور اس سیلاب کی رو میں بہہ گیا. 

اُس وقت ایک طرف مغربی تہذیب‘ مغربی استعمار اور مغربی قوت تھی ‘ ان کی فوجیں آ رہی تھیں. اور دوسری طرف اُن کا فکر آ رہا تھا ‘ سائنس بڑے زور و شور کے ساتھ آ رہی تھی تو اس سیلاب کے آگے کھڑے رہنا آسان نہیں تھا‘لہذا بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے اور انہوں نے قرآنی تعلیمات کو مغربی فکر کے سانچے میں ڈھالنے اور اس کے موافق بنانے کی کوشش کی. اُن کے لیے یہ مشکل پیدا ہوئی کہ پانی تو اپنی سطح برقرار رکھتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عصاءِ موسیٰ کی ضرب سے سمندر کا پانی پھٹ گیا؟ سرسید کے فکر کی ترجمانی کی جائے تو وہ یہ ہو گی کہ یہ تو بڑی مصیبت ہے کہ قرآن میں ایسی ہلکی بات آ گئی‘ اب ہم دنیا کو کیا مُنہ دکھائیں؟ہمارے لیے تو اِس سائنسی دَور میں لوگوں سے 
آنکھیں چار کرنا ممکن نہیں رہا. لہذا اس کی کوئی ایسی تأویل اور تعبیر کرو کہ مذہب اپنی جگہ قائم رہ جائے اور سائنس اپنی جگہ قائم رہ جائے. چنانچہ انہوں نے کہا کہ اصل میں یہ تو مدّ و جزر کی بات تھی جسے مولویوں نے سمجھا نہیں اور اسے خواہ مخواہ ایک عجوبہ اور معجزہ قرار دے دیا اور ایک افسانہ بنا لیا. جوار بھاٹا سمندر میں آتا رہتا ہے. کبھی سمندر recede کر جاتا ہے ‘پیچھے کو ہٹ جاتا ہے اور خشکی نکل آتی ہے ‘ کبھی سمندر چڑھاؤ پر آتا ہے توپانی ہی پانی ہو جاتا ہے. اصل میں سمندر اُس وقت جزر پر تھا جبکہ موسٰی علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر نکل گئے ‘اور جب فرعون اپنے لشکر سمیت گزرنے لگا تو اُس وقت سمندر مدّ پر آگیا ‘لہذا فرعون لشکر سمیت ڈوب گیا. 

یہ تأویل درحقیقت سرسید کی اس سوچ کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ سائنسی فکر‘ اس کے رعب و دبدبے اور جاہ و جلال کے مقابلے میں اپنے تئیں اسلام کا دفاع کر رہے تھے . اس حوالے سے سرسید ہمدردی کے مستحق ہیں.یہ درحقیقت اس مغربی فکر کا پہلا حملہ تھا جو ہم پر ہوا‘ جس کے نتیجے میں معجزات کا انکار ہوا اور ہر چیز کی تأویل کرنے کی کوشش کی گئی. انسان کے ذہن میں جب کوئی فکر راسخ ہو جاتا ہے تو بڑی بڑی حقیقتیں اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں‘ وہ گویا اندھا ہو جاتا ہے اور راستے کے بڑے بڑے پتھر اسے نظر نہیں آتے. اور ایسا بڑے بڑوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے. چنانچہ سرسید احمد خان پر جب یہ فکر مسلط ہو گیا تو انہیں قرآن میں یہ الفاظ نظر نہیں آئے: 
فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۶۳﴾ (الشُّعراء) ’’پس سمندر پھٹ گیا تو اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا‘‘. اِنْفَلَقَ یَنْفَلِقُ کا مطلب ہے پھٹ جانا.اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن مجید میں ’’فَالِقُ الۡاِصۡبَاحِ‘‘(رات کی تاریکی کا پردہ پھاڑنے والا) اور ’’فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی‘‘ (دانے اورگٹھلی کا پھاڑنے والا) کے الفاظ آئے ہیں. تو یہاں فَانْفَلَقَ کا ترجمہ مدّو جزرکسی صورت میں نہیں ہو سکتا. اسی طرح مذکورہ بالا آیت کے اگلے الفاظ : فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۶۳﴾ ’’تو (سمندر کا) ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا.‘‘سے مدّوجزر مراد ہونے کا تو کوئی امکان ہی نہیں‘ اس کی اس فطری مظہر (مدّوجزر) کے ساتھ سرے سے کوئی مناسبت نہیں.تو معلوم ہوا کہ جب کوئی فکر کسی سبب سے انسان کے ذہن کے اوپر اس طرح مستولی ہو جاتا ہے تو بڑی بڑی حقیقتیں نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور بعینہٖ یہی معاملہ سرسید احمد خان کے ساتھ پیش آیا. اور صرف انہی کے ساتھ نہیں ‘اور بھی کئی بڑے بڑوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوا ہے.

میں یہاں ایک مثال مولانا ثناء اللہ امرتسری کی دیتا ہوں. وہ راسخ العقیدہ مسلمان تھے ‘ پکے اہلحدیث تھے‘ اسلامی روایات‘ قرآن مجید اور حدیث کو تھامنے والے تھے. لیکن وہ دَور ہی ایسا تھا کہ ایک جگہ اُن کے قدم بھی پھسل گئے. سورۃ البقرۃ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ نقل ہوا ہے کہ ابراہیم ؑنے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی: 
رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ’’اے میرے پروردگار! مجھے دکھا دے تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے!‘‘اللہ تعالیٰ نے فوراً سوال کیا : اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ ’’کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟‘‘ اس پر ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا : بَلٰی وَ لٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ ’’کیوں نہیں (میں یقینا ایمان رکھتا ہوں)لیکن ذرا مزید اطمینانِ قلبی درکار ہے.‘‘ اس کے بعد حکم دیا گیا : فَخُذۡ اَرۡبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرۡہُنَّ اِلَیۡکَ ’’تو چار پرندے لے لو اور انہیں اپنے سے ہلا لو( مانوس کر لو).‘‘ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنۡہُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعۡیًا (آیت ۲۶۰’’پھر (انہیں ذبح کر کے) اُن کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو‘ پھر اُن کو پکارو ‘ وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے.‘‘ یہاں فَصُرۡہُنَّ اِلَیۡکَ ’’تو انہیں اپنے ساتھ مانوس کر لو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرندے آپ کو پہچان لیں جن کو آپ نے ٹکڑوں میں بانٹا ہے اور آپ اُن کو پہچان لیں کہ یہ وہی پرندے ‘کبوتر یا تیتر وغیرہ ہیں جن کے آپ نے ٹکڑے کیے ہیں‘ کوئی اور نہیں ہیں جو بلانے پر آ گئے ہوں. اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا ثنا ء اللہ امرتسری کے لیے مسئلہ پیدا ہوا کہ اس سائنسی سوچ کے دَور میں یہ بات کیسے کہیں.

لہذا انہوں نے تأویل کی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ چار پورے پورے پرندے مختلف پہاڑوں پر رکھو اور انہیں پکارو تو وہ آ جائیں گے. اب یہ مشاہدہ تو ہر تیتر باز اور بٹیر باز کو ہوتا ہے کہ وہ خود سے مانوس تیتر یا بٹیر کو اپنے پاس بلاتا ہے ‘ سیٹی بجاتا ہے تو وہ آ جاتا ہے.اگر اس سے یہی مراد ہے تو اِس قدر اہتمام کے ساتھ اور احیاءِ موتی ٰ پر اطمینانِ قلب حاصل کرنے کی دعا کے جواب میں یہ بات کیوں کہی گئی؟ جس میں ابتداء ًذرا ڈانٹ کا انداز بھی آ گیا کہ کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑی لجاجت کے ساتھ کہا کہ پروردگار! میں مانتا تو ہوں لیکن ذرا اطمینانِ قلبی درکار ہے. جب مولانا ثناء اللہ امرتسری سے کہا گیا کہ آپ نے اس آیت کی یہ تأویل کیوں کر دی ‘تو انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ میں کیا کروں‘ مجھے دوسروں کے سامنے بات پیش کرنی ہے. تو یہ ہے اصل بات کہ جس دَور کے لوگوں سے خطاب کرنا ہو اُن کے مسلّمات کا کچھ تو لحاظ رکھنا پڑتا ہے. 

تو پہلی بات یہ جان لیجیے کہ اگر آپ نے کسی کے کسی وصف کو دائم اور مستقل بالذات مان لیا تو آپ شرک فی الصفات کے مرتکب ہو گئے.اس لیے کہ قائم و دائم‘ مستقل بالذات اور مطلق اوصاف تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہیں‘ کسی اور کے اندر کوئی صفت‘ تأثیر یا وصف مستقل نہیں‘ مطلق نہیں‘ ہمیشہ سے نہیں اور ہمیشہ رہنے والا نہیں. ہر شے اور ہر ہستی کے اوصاف تابع ہیں اذنِ خداوندی کے. اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اُن کا ظہور ہو گا‘ ورنہ کسی صفت کی کوئی تأثیر ظاہر نہیں ہو سکتی.

مذکورہ بالا سائنسی طرزِ فکر کی وجہ سے ذہنوں میں جو سوچ پختہ اور راسخ ہوئی ہے اسے ’’مادہ پرستی کا شرک‘‘ کہا جا سکتا ہے. اس لیے کہ ہمارا سارا توکل اور انحصار مادی اسباب و وسائل پر ہے‘ اگر یہ حاصل ہیں تو دلجمعی بھی حاصل ہے‘ یہ نہیں ہیں تو دل اُڑا ہوا ہے. اللہ کی قدرت پر اتنا یقین نہیں ہے جتنا کہ مادی وسائل کے نتائج پر یقین ہے. نتیجتاً سارا بھروسہ اور توکل ذاتِ خداوندی سے ہٹ کر مادی اسباب ووسائل کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے. حکمتِ قرآنی کی جڑ توحید ہے اور 
’’تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا‘‘ کے مصداق توحید کو سمجھنے کے لیے شرک کو سمجھنا پڑے گا. رات کو دن کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے اور دن کی حقیقت رات کے حوالے سے روشن ہوتی ہے.چنانچہ توحید کو سمجھنے کے لیے شرک کو سمجھنا ضروری ہے. سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف میں توحید کو مثبت انداز میں اور شرک کومنفی انداز میں خوب عیاں کیا گیا ہے. ان دونوں سورتوں کو میں ’’حکمتِ قرآنی کے عظیم ترین خزانے‘‘ قرار دیتا ہوں. سورۂ بنی اسرائیل کے بالکل آغاز میں فرمایا گیا:

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲

’’اورہم نے موسیٰ کو کتاب (تورات) عطا فرمائی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت نامہ بنایا (رہنمائی قرار دیا) کہ میرے سوا کسی اور کو اپنا وکیل (کارساز) نہ بنالینا.‘‘ 

’’وَکِیْلٌ‘‘ کا مادہ ’’و‘ ک‘ ل‘‘ ہے اور مطلب ہے جس پر توکل اور بھروسہ ہو‘ جس سے اُمیدیں وابستہ ہوں‘ جس کو کارساز سمجھا گیا ہو‘جس کو کسی بھی مسئلے میں اپنی مشکل کا حل سمجھا جا رہا ہو. سورۃ المؤمن میں مؤمنِ آل فرعون کے الفاظ نقل ہوئے ہیں : وَ اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿۴۴﴾ ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں‘ یقینااللہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘.’’توحید فی التوکل‘‘ یہی تو ہے کہ سارا بھروسہ ‘دا ر و مدار اور انحصار اسباب و وسائل کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو. اسباب ووسائل کی نفی قطعاً نہیں ہے ‘لیکن یہ کہ کوئی بھروسہ اُن پر قطعاً نہ ہو. سورۃ الانفال میں فرمایا گیا: وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ… (آیت ۶۰’’اور اپنی امکانی حد تک ان (کفار) کے مقابلے کے لیے طاقت تیار رکھو.‘‘یعنی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہنے کے بجائے جتنے بھی اسباب ووسائل فراہم کر سکتے ہو کرو‘ لیکن تمہارا توکل ان اسباب و وسائل پر نہ ہو.

یہ حقیقت ذہن نشین رہے کہ اسباب سے کچھ نہیں ہو گا‘ بلکہ ہو گا وہی جو اللہ چاہے گا.اور اللہ بغیر اسباب کے بھی نتیجہ پیدا کر سکتا ہے‘ وہ اسباب کا محتاج قطعاً نہیں ‘اور اللہ تعالیٰ اسباب کے ہوتے ہوئے الٹا نتیجہ بھی برآمد کر سکتا ہے‘ وہ اسباب کا پابند نہیں. ان دونوں میں سے کوئی پہلو بھی اگر آپ کے ذہن میں ہے تو آپ ’’شرک فی التوکل‘‘ کے اندر ملوث ہو گئے. میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ آپ نے کہیں جانا ہے اور آپ کے پاس کار یا کوئی اور سواری درست حالت میں موجود ہے‘ آپ نے اس کے لیے پٹرول کا انتظام بھی کر لیا ہے اور آپ نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ صبح اُٹھ کرلازماً اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں گے . اگر آپ کو یقین ہو گیا ہے کہ اب آپ کے روانہ ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور آپ یہ بھول گئے ہیں کہ ان اسباب کے اوپر ایک مُسبّب الاسباب ہستی بھی ہے اور سارے وسائل کے جمع ہونے کے باوجود بھی آپ اُس کے اِذن کے بغیر ہل نہیں سکتے تو آپ گویا مادہ پرستی کے شرک میں مبتلا ہو گئے‘ شرک فی التوکل میں ملوث ہو گئے. یہ اصل میں محجوبیت ہے کہ آپ اسباب کے پردے میں محجوب ہو گئے‘ اسباب کا یقین آپ کے دلوں میں پیدا ہو گیا . آپ کے ذہن میں اسباب پر توکل پیدا ہو گیا‘ آپ نے اپنے دل کے سنگھاسن پر مادی اسباب ووسائل کو بٹھا دیا‘ اللہ سے نگاہیں محجوب رہ گئیں. جیسے اقبال نے کہا : ؎ 

بُتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟ 

ہمارا طرزِ عمل ہمیشہ یہی ہونا چاہیے کہ جب بھی کسی کام کا ارادہ کریں تو مقدور بھر اسباب و وسائل بروئے کار لانے کے بعد زبان پر الفاظ ہوں ’’اِن شاء اللہ‘‘ اور دل میں یہ پختہ یقین ہو کہ تمام اسباب و وسائل اذنِ خداوندی کے محتاج ہیں اور نتیجہ وہی نکلے گا جو اللہ چاہے گا. اسباب و وسائل پر یقین کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ’’میں کل یہ کام ضرور کروں گا‘‘. اگر کوئی عامی انسان یہ کہہ رہا ہو تو اس کی فوری پکڑ نہیں ہوگی‘ اس لیے کہ اس کی اپنی ذہنی سطح ہے ‘ اسے ابھی وہ قلبی ترفّع حاصل نہیں ہوا‘ وہ تو اسباب و وسائل ہی کے چکر میں ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر نبی کریمکی گرفت فرمائی. مشرکین مکہ نے آپ  سے کچھ سوالات کیے کہ ذرا بتایئے اصحابِ کہف کون تھے‘ روح کی حقیقت کیا ہے‘ ذوالقرنین کون تھا؟ تو رسول اللہ نے یہ سوچ کر کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آتے ہی رہتے ہیں‘ان سے پوچھ لوں گا‘ کہہ دیا :’’میں کل جواب دے دوں گا‘‘ اور ’’اِن شاء اللہ‘‘ نہ کہا تو آپؐ کی گرفت ہو گئی. اس لیے کہ ’’حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ‘‘ کہ بہت سی چیزیں جو اَبرار کے لیے نیکیاں ہو سکتی ہیں وہی مقربین کے لیے قابل گرفت ہو سکتی ہیں‘ ان کے مرتبے سے فروتر ہو سکتی ہیں. اب حضرت جبرائیل ؑ نہیں آ رہے اور لوگ تالیاں پیٹ رہے ہیں کہ محمدؐ ! کیا جوابات ہیں اِن سوالوں کے؟ نبی اکرم خاموش ہیں. آپ ذر ا سوچیے کہ یہ نبی اکرم کے لیے کس قدر تشویش ناک اور نازک صورت حال ہو گی. لیکن حکمتِ خداوندی یہی تھی کہ آپؐ کی گرفت ہوئی. اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۫ 
(الکہف:۲۳۲۴
’’اور (اے نبیؐ !) کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کروں گا‘ مگر (اس استثناء کے ساتھ کہ) اگر اللہ نے چاہا.‘‘
اس کے بعد سورۃا لکہف میں اُن سوالات کے جوابات نازل فرمائے گئے.تو یہ ہے اصل میں 
’’توحید فی التوکل‘‘ کہ کسی شے سے کچھ نہیں ہو سکتا‘ جب تک کہ اللہ نہ چاہے. 

’’شرک فی التوکل‘‘ یا مادہ پرستی کی سورۃ الکہف کے پانچویں رکوع میں اس شرک کی مختلف پہلوؤں سے وضاحت ہوئی ہے. اس میں دواشخاص کا مکالمہ بڑی تفصیل سے نقل ہوا ہے. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمثیلی پیرایہ ہو.ان دو اشخاص میں سے ایک درویشِ خدا مست تھا. اس کے پاس دُنیوی اسباب و وسائل اور مال و دولت نہیں تھی‘ لیکن اللہ پر اس کا کامل یقین اور توکل تھا. وہ معرفتِ خداوندی اور اللہ پر ایمان سے سرشار تھا‘جبکہ دوسرا سرمایہ دارِ مال مست تھا. قرآن مجید میں یہ واقعہ بایں الفاظ بیان ہوا ہے:

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا ﴿ؕ۳۲﴾کِلۡتَا الۡجَنَّتَیۡنِ اٰتَتۡ اُکُلَہَا وَ لَمۡ تَظۡلِمۡ مِّنۡہُ شَیۡئًا ۙ وَّ فَجَّرۡنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا ﴿ۙ۳۳﴾وَّ کَانَ لَہٗ ثَمَرٌ ۚ ’’اور(اے نبیؐ !) ان کے سامنے مثال بیان کیجیے دو اشخاص کی‘ ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑ لگائی اور اُن کے درمیان کاشت کی زمین رکھی. (یعنی پھل کے ساتھ ساتھ اجناس بھی پیدا ہو رہی تھیں) دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور بارآور ہونے میں انہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی اور ان باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کر دی (یعنی آب پاشی کا نظام بھی موجود تھا اور باغ کبھی سوکھا نہیں تھا) .مزید یہ کہ اس کا ثمر بھی تھا‘‘. [اس سے یہ مراد بھی لی گئی ہے کہ وہ صاحب اولاد بھی تھا اور یہ بھی کہ باغ پھلوں سے لدا پھندا تھا] 

فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَنَا اَکۡثَرُ مِنۡکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ﴿۳۴﴾ 
’’پس اس نے اپنے ساتھی (درویشِ خدا مست) سے کہا جو کہ اُ س سے ہم کلام تھا (خیر اور بھلائی کی کوئی بات کررہا تھا‘ کچھ خوفِ خدا دلا رہا تھا) کہ میں تجھ سے زیادہ مال دار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقت ور نفری رکھتا ہوں‘‘.

یعنی اس کا دُنیوی مال و متاع اور اسباب و وسائل پر مکمل بھروسہ ہو گیا. آج کل کے زمانے میں یوں سمجھئے کہ کسی شخص کے پاس دو بڑی بڑی ملیں 
(mills) ہوں اور اس نے ایک بڑا فارم بھی لگایا ہوا ہو. آب پاشی کے لیے بھی اس کا اپنا نظام ہو اور بجلی کے لیے واپڈا پر انحصار کرنے کے بجائے اس نے اپنا ہی دیوقامت جنریٹر لگا لیا ہو اور دو سال تک کے لیے ڈیزل بھی مہیا کر رکھا ہو‘ تو اُس شخص کے دل میں جو خناس پیدا ہو گا وہ اُس سرمایہ دارِ مال مست کے دل میں پیدا ہوگیا تھا‘ لہذا اُس درویشِ خدا مست کے جواب میں اُس نے کہا :’’میں تجھ سے زیادہ مال دار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقت ور نفری رکھتا ہوں.‘‘ تم خود تو جوتیاں پٹخارتے پھرتے ہو اور ہمیں آئے ہو نصیحت کرنے! ہمارے پاس یہ جو مال و متاع اور ساز و سامان ہے آخر ہمیں یوں ہی تو نہیں مل گیا! آخر ہمارے اندر کچھ ذہانت و فطانت ہے‘ ہم نے کچھ سوچا اور محنت کی ہے ‘تب ہی تو یہ چیزیں ہمیں حاصل ہوئی ہیں!

آگے فرمایا : 
وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ ’’اور (یہ کہتے ہوئے ) وہ اپنے باغ میں داخل ہوا جبکہ وہ اپنے اوپر ظلم کر رہا تھا‘‘.جب اس نے باغ کا لہلہاتا ہوا منظر دیکھا تو اس کا نشہ دو آتشہ ہو گیا اور اس کے دل میں ایک خناس سا پیدا ہو گیا. قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ﴿ۙ۳۵﴾وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ ’’اس نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ میرا یہ باغ کبھی بھی تباہ ہو سکتا ہے ‘اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی‘‘. تم خواہ مخواہ مجھے خدا سے اور بُرے انجام سے ڈراتے ہو. 

دیکھئے یہ تھا وہ جہل مرکب جو اُس کے اندر پیدا ہوا. اس کے اعتقادات و نظریات میں کہیں بھی کسی دیوی دیوتا کا ذکر نہیں ہے. ذکر ہے تو اسباب و وسائل اور دُنیوی ساز وسامان کا ہے. اُس نے کہیں یہ نہیں کہا کہ یہ فلاں دیوی کا مجھ پر کرم ہے اور فلاں دیوتا کی مجھ پر کرپا ہے. بلکہ اس کے اگلے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ماننے والاایک ربّ ہی کا ہے. 
وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا ﴿۳۶﴾ ’’تاہم اگر کبھی مجھے اپنے ربّ کے حضور لوٹایا بھی گیا تو میں ضرور اس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا‘‘.جب میرے اندر یہ صلاحیتیں ہیں کہ مجھے یہاں اتنا کچھ ملا ہے تو وہاں اس سے بڑھ کر ملے گا. تم یہاں جوتیاں پٹخار رہے ہو تووہاں بھی جوتیاں پٹخارو گے. یہ ہے اس کا وہ خناس جو ظاہر ہوا.

اب اُس بندۂ خدا کا جواب ملاحظہ فرمایئے : 
قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰىکَ رَجُلًا ﴿ؕ۳۷﴾ ’’اُس (درویشِ خدا مست) نے اُس (سرمایہ دارِ مال مست) سے کہا جو اُس سے ہم کلام تھا کہ کیا تو نے کفر کیا اُس ذات کا جس نے تجھے مٹی سے ‘ پھر نطفے سے پیدا کیا‘ پھر تجھے ایک مکمل انسان بنا دیا؟‘‘ لٰکِنَّا۠ ہُوَ اللّٰہُ رَبِّیۡ وَ لَاۤ اُشۡرِکُ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا ﴿۳۸﴾ ’’لیکن میرا ربّ تو وہی اللہ ہے (میں تو اس ایک ہی ربّ کا ماننے والا ہوں)اور میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کرتا‘‘. وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ دَخَلۡتَ جَنَّتَکَ قُلۡتَ مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۚ ’’اور (اے بدبخت!) یہ کیوں نہ ہوا کہ تو جب اپنے باغ میں داخل ہوا تھاتوکہتاجو کچھ اللہ چا ہے (وہی ہو گا) کوئی زور نہیں (نہ میرا نہ کسی اور کا) مگر اللہ ہی کی توفیق و تائید سے‘‘. یہ ’’ماشاء اللہ‘‘ کیا ہے؟ یہ کہ انسان کوئی سہانا منظر اور نعمت وغیرہ دیکھے اور سمجھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی مشیت کا ظہور ہے‘ اس کا کرم اور مہربانی ہے‘ اسی کی دین ہے‘ یہ میری قوتوں ‘ میری صلاحیتوں اور میری توانائیوں کا ظہور نہیں ہے! یہ ہے اصل میں توحید کہ اگر آپ کہیں گھر میں داخل ہوں اور وہاں آپ کو کوئی اچھا منظر نظر آئے‘ بچے کھیل رہے ہوں‘ گھر کے اندر خوشی کاماحول ہو‘ ایک ہنستا بستا ہرا بھرا گھر ہو تو فوراً زبان سے نکلنا چاہیے ’’ماشاء اللہ‘‘. نگاہ کہیں اسباب و وسائل کی طرف منتقل نہ ہو جائے‘ بلکہ نگاہ کو ایک ہی زقند میں پہنچنا چاہیے مُسبّب الاسباب تک کہ وہ ہے جس کے فضل کا یہ ظہور ہے‘ یہ کسی اور کی کوئی مہارت‘ کاریگری ‘ہوشیاری اور کسی اور کی ذہانت و فطانت نہیں ہے. 

اس درویشِ خدا مست نے پھر کہا : 

اِنۡ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنۡکَ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴿ۚ۳۹﴾فَعَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یُّؤۡتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرۡسِلَ عَلَیۡہَا حُسۡبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصۡبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا ﴿ۙ۴۰﴾اَوۡ یُصۡبِحَ مَآؤُہَا غَوۡرًا فَلَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ لَہٗ طَلَبًا ﴿۴۱

’’اگر تو مجھے مال او راولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے ‘تو مجھے یقین ہے کہ میرا ربّ (اگر چاہے تو) مجھے تیرے باغ سے بہتر باغ عطا کر دے اور (تیرے) اس (باغ) پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے کہ وہ چٹیل میدان بن کر رہ جائے (جہاں خاک اڑ رہی ہو). یا اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے اور تو (کسی طرح سے بھی) پانی کو کھینچ کر نہ لا سکے‘‘.

یہ وہ درویشِ خدا مست کی بات تھی جو اُس کی زبان سے نکلی. نبی اکرم نے فرمایا: 
رُبَّ اَشْعَثَ مَدْفُوْعٍ بِالْاَبْوَابِ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ (۱یعنی ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اگرچہ پراگندہ بالوں والے ہوتے ہیں‘ دروازوں سے ان کو دھتکار دیا جاتا ہے ‘لیکن اگر وہ کسی با ت پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کی لاج رکھتا ہے‘‘. اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا. وَ اُحِیۡطَ بِثَمَرِہٖ ’’اور کھینچ لیا گیا (ختم کر دیا گیا) اس کا سارا ثمر‘‘. ہو سکتا ہے کوئی ایسی وبا آئی ہو کہ ساری اولاد بھی ہلاک ہو گئی ہو اور کوئی ایک ایسا بگولا آیا ہو جو اُس کے پورے کے پورے باغ کو جھلسا کر ۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب فضل الضعفاء والخاملین. عن ابی ھریرۃ ؓ چلا گیا ہو. فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا وَ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ’’اب وہ باغ پر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر اپنی ہتھیلیاں ملتا رہ گیا ‘ جبکہ وہ باغ اپنی ٹٹیوں پر الٹا پڑا ہوا تھا.‘‘ یعنی اس بات پر افسوس کہ میری ساری عمر کی محنت اور کمائی اس پر لگی ہوئی تھی اور یہ چشم زدن میں ختم ہو گئی. وَ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ لَمۡ اُشۡرِکۡ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا ﴿۴۲﴾ ’’اور وہ کہنے لگا کاش کہ میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا!‘‘

اب یہاں دیکھئے کہ یہ کون سا شرک مراد ہے؟ اس پورے واقعہ میں کسی بعل کا‘ کسی دیوی یا دیوتا کا اور کسی لات و منات اور عزیٰ کا کوئی ذکر نہیں . ذکر ہے تو ربّ کا ہے کہ 
وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ ’’اور اگر کبھی میں اپنے ربّ کی طرف لوٹا دیا گیا…‘‘ یہ اصل میں مادے اور اسباب و وسائل پر توکل ہے‘ اپنی توانائیوں‘ ذہانت ‘ دُور اندیشی اور معاملہ فہمی کا گھمنڈ ہے جسے مذکورہ بالا رکوع میں شرک سے تعبیر کیا گیا ہے. یہ مادہ پرستی کا شرک ہے جو پہلے شاید شاز ہوتا ہو ‘لیکن آج کائناتی (universal) ہے. سائنس اسی بنیاد پر پروان چڑھی اور اُبھری ہے.یہ اس کائنات کے تمام مظاہر فطرت (phenomena) کو ایسے بیان کرتی ہے کہ یہ خودکار نظام ہے اور اس میں طبیعی قوانین عمل پیرا ہیں. مثلاً بھاپ اٹھی‘ ہوا اُسے اِدھر سے اُدھر لے گئی‘ بادل بنے اور بارش برسی. اس میں کہیں خدا کی مشیت‘ خدا کے ارادہ‘ خدا کے اِذن کا کوئی ذکر نہیں ہے. اس کا مجموعی اثر یہ ہوا ہے کہ اگر خدا کا اقرار ہے بھی تومحض ا س حد تک کہ وہ معاذ اللہ کسی کونے میں بیٹھ گیا ہے اور یہ کائنات خود بخود چل رہی ہے . ہمارا سارا توکل اور اعتماد مادی اسباب و وسائل پر ہے. اور اس شرک فی التوکل یا مادہ پرستی کے شرک میں کم و بیش ہم میں سے ہر شخص مبتلا ہے. 

اس کو ایک حدیث کے حوالے سے سمجھئے. نبی اکرم نے ایک مرتبہ زہد کی تعریف اس طرح بیان فرمائی کہ : 

اَلزَّھَادَۃُ فِی الدُّنْیَا لَـیْسَتْ بِتَحْرِیْمِ الْحَلَالِ وَلَا اِضَاعَۃِ الْمَالِ وَلٰــکِنَّ الزَّھَادَۃَ فِی الدُّنْیَا اَنْ لَا تَـکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ اَوْثَقَ مِمَّا فِیْ یَدَیِ اللّٰہِ (۱(۱) سنن الترمذی‘ کتاب الزھد عن رسول اللہ ‘ باب ما جاء فی الزھادۃ فی الدنیا. ’’دنیا میں زہد (اپنے اوپر) حلال کو حرام کر لینے اور مال ودولت کو ضائع کرنے کا نام نہیں ہے ‘ بلکہ دنیا میں زہد تو یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھوں میں ہے اس پر تمہارا توکل اور اعتماد زیادہ نہ ہو جائے اس چیز سے جو اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘.

یعنی تم عام طور پر سمجھتے ہو کہ حلال چیزوں کو بھی اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا جائے تو یہ زہد ہے‘ یعنی نہ اچھا کھانا‘ نہ اچھا پہننا‘ حالانکہ اللہ نے یہ چیزیں حلال کی ہیں . ارشادِ الٰہی ہے: 

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ (الاعراف:۳۲)

’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں (ممنوع کردیں)؟‘‘

بلکہ زہد تو یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس پر تمہاراوثوق‘ اعتماداور توکل زیادہ ہو جائے اس سے کہ جو تمہارے ہاتھ میں ہے‘ یعنی اسباب و وسائل اور دولت وغیرہ.لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جیب میں پیسہ ہے تو دل کو سکون ہے‘ جیب میں پیسہ نہیں تو دل اڑا ہوا ہے‘ اس لیے کہ اللہ کے خزانوں پر ‘ اللہ کی رزّاقیت اور قدرت پر ہمارا اتنا اعتماد اور یقین نہیں جتنا کہ پیسے پر ہے‘ بلکہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں. اب اسے شرک کہہ لیں یا کفر کہہ لیں. جیسے ایک درویش نے کہا ہے : ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘ کہ انسان کا جو سانس غفلت میں بسر ہوتا ہے تو درحقیقت اس کا وہ وقت ایک نوع کے کفر میں گزرتا ہے. 

دیکھئے نبی اکرم نے توحید کی کتنی تلقین کی ہے! آپؐ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکو تاکید فرمائی کہ اس بات کو ذہن نشین کر لو کہ ’’اگر تمام انسان مل کر تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے مگر وہی کچھ جو اللہ نے تمہارے حق میں لکھ دیا ہے ‘اور تمام انسان مل کر اگر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے مگر وہی کچھ جو اللہ نے تمہارے خلاف لکھ دیا ہے.‘‘ 
(۱جب تک انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی کہ تمام بیم و رجاء کا مرکز اللہ کی ذات ہو جائے‘ ماسوی اللہ سے امید اور خوف دونوں منقطع ہو جائیں تو گویا اصل توحید حاصل نہیں .توحیدکا نام ہی تو ولایتِ (۱) سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع. خداوندی ہے . ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ (یونس) ’’سنو! جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے یقینا کسی خوف اور غم کا موقع نہیں ہے‘‘.ان کی امیدیں اور ان کا خوف سب ماسوی اللہ سے کٹ کر اللہ کی ذات پر مرتکز ہو جاتا ہے. امید ہے تو اللہ سے اور خوف ہے تو اللہ سے. اُن کا ایمان اور یقین ہوتا ہے کہ کسی اور کے کیے کچھ نہیں ہو سکتاجب تک اللہ نہ چاہے.کوئی میری بگڑی نہیں بنا سکتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے ‘کوئی میری تکلیف رفع نہیں کر سکتا اگر اللہ نہ چاہے .تو خوف اور امید دونوں جب تک جملہ مخلوقات سے منقطع ہو کر اللہ کی ذات سے منسلک نہ ہو جائیں انسان توحید کا لذت آشنا نہیں ہو سکتا.آج کا انسان اس مادہ پرستانہ فکر کی وجہ سے اس سے بہت محروم ہو چکا ہے. البتہ زبان سے لا الٰہ کہہ دینا آسان ہے‘ اس میں کوئی مشکل نہیں پڑتی.