بعض مذہبی نزاعات اور ان کا حل

اب آیئے ذرا ’’شرک فی الصفات‘‘ کے کچھ دوسرے پہلوؤ ں کی طرف کہ جن سے بعض مذہبی نزاعات رونما ہوئے ہیں.شاید آپ کو ان کا کوئی حل میسر آ جائے. صفاتِ باری تعالیٰ کے باب میں ایک بات تو یہ جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن مجید میں بہت سے الفاظ استعمال ہوئے ہیں بطور صفت بھی اور بطور اسماء بھی. اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں بہت تھوڑا فرق ہے. جب اُس لفظ کو حالت نکرہ میں لاتے ہیں تو وہ اللہ کی صفت ہے اور جب اسے معرّف باللّام کرتے ہیں تو وہ اللہ کا نام ہے. مثلاً ’’سمیعٌ‘‘ اللہ کی صفت ہے کہ اللہ سننے والا ہے‘ جبکہ ’’السمیع‘‘ اللہ تعالیٰ کا نام ہے. ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کے اسماء و صفات ہی کے حوالے سے حاصل ہے. جیسے ہم کہتے ہیں: ’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِــہٖ وَصِفَاتِہٖ ‘‘ کہ میں اللہ پر ایمان لایا جیسا کہ وہ اپنے اسماء اور صفات سے ظاہر ہے .تو ہمارا اللہ کے ساتھ جو ذہنی اور قلبی رشتہ ہے وہ اس کے اسماء و صفات کے حوالے سے ہے. 

قرآن مجید یہ بھی کہتا ہے : 
لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ’’جتنے اچھے نام ہیں اسی کے ہیں‘‘. پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن مجید میں جو نام آ گئے ہیں وہ تو یقینا اللہ کے ہیں اور جن صفات کا اثبات ہو گیا ہے وہ اللہ کے لیے ثابت ہیں‘ لیکن چند صفات کو بنیادی قرار دیا گیا ہے کہ بقیہ صفات انہی کی فروع اور شاخیں (corollaries) ہیں. مثلاً صفت ِ علم اللہ تعالیٰ کی ایک بنیادی صفت ہے اورسمیع ‘بصیر‘لطیف‘خبیر‘ یہ تمام اصل میں علم ہی کے مختلف شعبے اور شاخیں ہیں. اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’قدرت‘‘ ہے. اب اس کے ذیل میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے نام آ جائیں گے‘ مثلاً : اَلْمُعِزُّ ’’عزت دینے والا‘‘ اَلْمُذِلُّ ’’ذلیل کرنے والا‘‘ الرَّافِـع ’’اٹھانے والا‘‘ الْخَافِض ’’گرانے والا‘‘ الباسِط ’’کشادگی دینے والا‘‘ القَابِض ’’تنگی دینے والا‘‘ یہ سب اس کی صفتِ قدرت ہی کی فروع اور اس کی شاخیں ہیں. 

اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات یہ ہیں (اگرچہ مختلف علماء ‘ محققین اور متکلمین کے ہاں یہ مختلف ہیں) : (۱) وجود(۱) (۲) حیات‘ (۳) قدرت‘ (۴) علم‘ (۵) ارادہ‘ (۶) کلام. وہ 
الحی ّ ہے‘ زندہ ہے‘ اس کا وجود حیات والا ہے. وہ صاحب قدرت ہے‘ صاحب علم ہے‘ صاحب ارادہ ہے‘ متکلم ہے ‘ کلام کرتا ہے. اِن تمام صفات کے ساتھ جب آپ تین چیزیں جوڑ لیں گے کہ اس کی یہ صفت مطلق ہے‘ ذاتی ہے اور قدیم ہے تو یہ توحید ہے. اور اگر مطلق ہونے میں‘ قدیم ہونے میں اور ذاتی ہونے میں کسی اور کو کسی پہلو سے شامل کر لیاگیا تو یہ شرک ہے.اللہ تعالیٰ کی حیات مطلق ہے‘ ذاتی ہے اور قدیم ہے‘ جبکہ ماسوی اللہ کی حیات ذاتی نہیں عطائی (اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ)ہے‘ مطلق نہیں مقید اور محدود ہے‘ قدیم نہیں حادث ہے. اگر یہ چیزیں پیشِ نظر رہیں تو توحید میں کوئی خلل نہیں آئے گا. لیکن اگر ان میں سے کسی ایک چیز کو کسی ایک پہلو سے مجروح کر دیا گیا تو یہ شرک بن جائے گا.

اسی طرح علم کے بارے میں توحید یہ ہے کہ اللہ کا علم ذاتی ہے جبکہ ماسوی اللہ کا علم عطائی ہے. ماسوی میں سب شامل ہیں.جب فرشتوں سے کہا گیا کہ بتاؤ ذرا ان چیزوں 
(۱) اللہ تعالیٰ کی صفت ’’وجود‘‘ کے بارے میں علماء و محققین اور متکلمین کے ہاں ایک باریک سی بحث ہے کہ ’’وجود‘‘ صفت ہے یا نہیں. کے نام تو اُن کا جواب تھا : سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ (البقرۃ:۳۲’’تو پاک ہے (اے پروردگار!) ہمیں کوئی علم حاصل نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں سکھایا (عطا کیا) ہے‘‘.تو معلوم ہوا کہ فرشتے ہوں‘ انبیاء ہوں‘ رسول ہوں‘ اولیاء اللہ ہوں ‘ کوئی بڑے سے بڑا علّامہ ‘ فھّامہ ہو‘ کسے باشد‘ سب کا علم عطائی ہے ذاتی نہیں‘ حادث ہے قدیم نہیں‘ محدود ہے مطلق اور لامتناہی نہیں.یہ تینوں قیود اگر موجود ہیں تو شرک نہیں ہے‘ اور اگر ان میں سے ایک قید بھی ہٹ گئی تو شرک ہو جائے گا.