اب ذرا ’’علم غیب‘‘ کے مسئلے کو حل کر لیجیے! یہ ہمارے ہاں کے مہتم بالشان مسائل میں سے ایک ہے اور اس میں بہت طویل بحثیں اور جھگڑے ہیں کہ رسول اللہ کو علمِ‘غیب حاصل ہے یا نہیں ؟ ایک طرف سے اس کی پُرزور نفی ہے اور ایک طرف سے اثبات ہے کہ نبی اکرم
’’عالمُ الکُل‘‘ اور ’’عالِمُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ ہیں. اور اِن دونوں مکاتبِ فکر میں جو رسہ کشی ہے وہ دراصل ’’علم غیب‘‘ کی تعریف (definition) کا اختلاف ہے. مجھ میں الحمد للہ معاملے کی تحقیق کا داعیہ ہے کہ کسی بھی معاملے کی اچھی طرح سے تحقیق کر لی جائے‘ اور یہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر احسانات میں سے ایک احسان ہے. میں ابھی میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا کہ ساہیوال میں ایک بریلوی مکتب فکر کے عالم دین کے پاس گیا اور پوچھا کہ علم غیب کے بارے میں کیا اختلاف پایا جاتا ہے اور اس میں آپ کا موقف کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نبی اکرم کے علم کے بارے میں یہ تینوں قیدیں مانتے ہیں کہ آپؐ کا علم ذاتی نہیں عطائی ہے‘ آپؐ کا علم قدیم نہیں حادث ہے‘ آپؐ کا علم غیر محدود نہیں محدود ہے. بلکہ انہوں نے مجھے اس پر اپنے مکتب فکر کے علماء کی تحریریں دکھائیں کہ ہماری طرف سے ان تینوں باتوں کا برملا اعتراف اور اقرار ہوتا ہے. اس پر میں نے عرض کیا کہ کم از کم ان تینوں چیزوں کو اگر تسلیم کیا جائے تو پھر میرا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اور میرے نزدیک اس میں شرک والی بات نہیں ہے. تو دراصل اختلاف کی وجہ صرف یہ ہے کہ علم غیب کی definition مختلف ہو رہی ہے. جو اِس غیب کی نفی کرتے ہیں وہ اسے کسی اور طریقے سے define کرتے ہیں اور جو غیب کا اثبات کرتے ہیں وہ اسے کسی اور طرح سے define کرتے ہیں. جو اس کا اثبات کر رہے ہیں وہ بھی درست ہیں اور جو نفی کر رہے ہیں وہ بھی درست ہیں ‘لیکن ایک جھگڑا ہے کہ حل نہیں ہو رہا ہے.

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو ’’غیب‘‘ کا لفظ کئی بار آیا ہے کہ 
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ’’وہ غیب اور حاضر کا جاننے والا ہے‘‘ تو یہ ہمارے اعتبار سے ہے. اللہ کے لیے تو کوئی چیز غیب ہے ہی نہیں . ہر شے آنِ واحد میں اس کے سامنے حاضر ہے.اس کے لیے غیب کا کیا سوال ہے! اللہ کے لیے اگر غیب کا تصور بھی آپ کریں گے تو کفر ہو جائے گا . جو چیزیں اللہ نے انسانوں کی نگاہ سے اوجھل رکھی ہیں وہ غیب ہیں. اس لیے کہ ہمیں اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے. اگر سارے حقائق ہماری نگاہوں کے سامنے ہوں تو پھر امتحان کیسا!اگر جنت نگاہوں کے سامنے ہو ‘ دوزخ بھڑکتی نظر آ رہی ہواور فرشتے نگاہوں کے سامنے موجود ہوں تو کون فرعون‘ کون نمرود‘ کون ابوجہل ہو گا جو انکارکرے گا! وہ تو سب کے سب ایمان لے آئیں گے اور پورے پورے مؤمن ہوں گے. اس لیے کہ غیب تو پھر شہادہ بن کر سامنے آ جائے گا. جبکہ امتحان تو اسی میں ہے کہ مانو ہمیں غیب میں رہتے ہوئے‘ مانو فرشتوں کو اِس کے باوجود کہ وہ تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہیں‘ مانو جنت اور دوزخ کو اس کے باوجود کہ وہ تمہارے لیے غیب ہیں .تو اس لفظ ’’غیب‘‘ کو اگر سمجھ لیا جائے تو جھگڑا باقی نہیں رہتا.
دراصل انسانوں کے علم کے آگے ایک پردہ حائل کر دیا گیا ہے اور علم کو شہادہ اور غیب میں تقسیم کر دیا گیا ہے. اب اللہ تعالیٰ جس کو نبوت عطا کرتا ہے تو اسے اس غیب والے علم میں سے کچھ حصہ دیتا ہے‘ تبھی تو وہ نبی بنتا ہے! اگر اس کا علم بھی ہمارے علم کی طرح ہو تو وہ نبی کیسے ہو گیا! اسے تو جنت کی سیر کرائی جاتی ہے جو میرے اور آپ کے لیے غیبِ مطلق ہے. اسے دوزخ کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے جو ہمارے لیے غیب ہے. فرشتے اس کے سامنے ہوتے ہیں. حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصل مَلَکی شکل میں نبی 
اکرم  نے دو مرتبہ دیکھا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی :

وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۳﴾عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۴﴾عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۵﴾اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۷﴾لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾ (النجم)

’’اور ایک مرتبہ پھر اُس نے سِدْرَۃ المنتہیٰ کے پاس اُس کو(جبرائیل ؑ کو) اترتے دیکھا‘ جہاں پاس ہی جنت المأویٰ ہے. اُس وقت سِدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ کہ چھا رہا تھا . نگاہ نہ چندھیائی نہ حد سے متجاوز ہوئی. اور اس نے اپنے ربّ کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘.
یہ مشاہدات عالمِ غیب کے ہیں نہ کہ عالمِ شہادہ کے . یہ جنت اور دوزخ کے مشاہدات ہیں‘ یہ عالم ملکوت کے پردے اٹھائے جا رہے ہیں. حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :

وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ… (الانعام:۷۵)
’’اور اسی طرح ہم ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت کا مشاہدہ کراتے رہے…‘‘

تو معلوم ہوا کہ عام انسانوں کے لیے جو چیزیں غیب کے درجے میں ہوتی ہیں نبی کو اُن میں سے کچھ دیا جاتا ہے تب ہی وہ نبی بنتا ہے‘ ورنہ نبوت کا سوال ہی نہیں. اس کو قرآن مجید نے واضح کر دیا ہے . سورۃ الجن میں فرمایا گیا:

عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ … (الجن:۲۶۲۷
’’اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے‘ وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا‘ مگر اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے…‘‘

البتہ ماسوی اللہ کے لیے کُل غیب کے احاطے کا اگر تصور بھی ہو گیا تب تو کفر بھی ہو گیا اور شرک بھی. کُل غیب تو دُور کی بات ہے‘ اگر کُل حاضر کا تصور بھی ذہن میں آ گیا تو یہ بھی کفر اور شرک ہے. 
جس طرح ’’شرک فی الذات ‘‘ کے ضمن میں قرآن مجید کا اہم ترین مقام سورۃ الاخلاص ہے‘ اسی طرح ’’شرک فی الصفات‘‘ یا بالفاظِ دیگر ’’توحید فی الصفات‘‘ کے ذیل میں قرآن مجید کا عظیم ترین مقام آیت الکرسی ہے. اس میں فرمایا گیا: وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ’’اوروہ احاطہ نہیں کر سکتے اللہ کے علم میں سے کسی بھی شے کا‘ سوائے اس کے جو اللہ چاہے‘‘. علمِ حاضر بھی اللہ ہی کا عطا کردہ ہے‘ ہمارا ذاتی نہیں ہے . آنکھ دیکھ رہی ہے تو اسے اللہ دکھا رہا ہے تو دیکھ رہی ہے‘ ورنہ آنکھ کے بس کا روگ نہیں ہے کہ دیکھ سکے. کان بھی سن رہے ہیں تو اللہ کے سنوانے سے سن رہے ہیں‘ ورنہ کانوں کا ذاتی وصف نہیں ہے کہ وہ سن سکیں. مخلوق کے ذاتی وصف اور صفت کا تو ہم نے انکار کر دیا. اس کا تو سوال ہی نہیں. ذاتی وصف اور ذاتی صفت تو ہے ہی صرف اللہ کے لیے. لہذا علمِ حاضر کے جو ذرائع ہیں وہ بھی جان لیجیے کہ ہمارے ذاتی نہیں‘ عطائی ہیں اور اِن کا بھی اللہ تعالیٰ نے دائرہ مقرر کر دیا ہے. آنکھ کی جو حد ہے اتنا ہی دیکھے گی اس سے آگے نہیں. البتہ دُوربین لگا کر کچھ مزید دیکھ لے گی‘لیکن پھر دُوردبین کی بھی ایک حد ہے جس سے تجاوز ممکن نہیں ہے. لہذا علمِ حاضر ہو یا علمِ غیب‘ اگر ماسویٰ اللہ کے لیے کُل کا احاطہ کریں گے تو شرک ہو جائے گا‘ ورنہ نہیں. 

اب رہا یہ مسئلہ کہ ہم انبیاء کے علم کو ناپیں اور تولیں تو اس سے بڑا پاگل پن اور اس سے بڑی حماقت کوئی نہیں. اس لیے کہ وہ تو نوعیت کے اعتبارسے بھی ہمارے علم سے مختلف ہے. اسے ہم کیسے ناپیں گے! ہمارا علم تو علم بالحواس اور علم بالعقل ہے‘ جبکہ ان کا علم‘ علم بالوحی ہے. لہذا جب حصولِ علم کے ذرائع اور مآخذ ہی مختلف ہوں اور ہم اپنے علم سے اُس علم کو ناپنے لگ جائیں تو اس سے بڑی حماقت اور اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہے . ظلم کی تعریف ہے : 
’’وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ کہ کسی شے کو اُس کے اصل مقام سے ہٹا کر کہیں اور رکھ دینا. اسے منطق میں ’’قیاس مع الفارق‘‘ کہتے ہیں کہ جو چیزیں بنیادی طور پر اور تقسیم کے اعتبار سے ہی مختلف ہوں آپ ان کو ایک دوسرے پر قیاس کریں اور ان کو ایک دوسرے کے پیمانوں سے ناپ رہے ہوں. اور یہی ہے اصل مغالطہ. اللہ تعالیٰ نے جتنا علم چاہامحمدٌ رسول اللہ کو دے دیا. ہم کون ہیں کہ ناپیں محمدٌ رسول اللہ  کے علم کو! جو یہ کہے گاکہ حضر ت محمد  کا علم لامتناہی ہے‘ اور اللہ ہی کے علم کی طرح کامل اور کُل ہے وہ مشرک ہے.لیکن جو اِس کو اپنے تئیں ناپ تول کر بتائے گاکہ آپ کا علم اتنا ہے تو وہ خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے. اگر کوئی محمدٌ رسول اللہ  کے علم کا حدود اربعہ خود معین کر نے بیٹھ گیا ہے تو یہ بھی کم درجے کی گمراہی نہیں ہے. ہم تو یہ جانتے ہیں کہ آپ  کے پاس جو علم بھی تھا اللہ تعالیٰ کا عطا کر دہ تھا. انہیں جتنا دکھایا اللہ تعالیٰ نے دکھایا‘ جو بتایا اللہ تعالیٰ نے بتایا. آپ  نے کوئی غیب کی خبر دی تو اپنی ذات سے نہیں دی بلکہ اللہ کی بتائی ہوئی دی. جو لوگ انبیاء کے لیے علمِ غیب کی نفی کرتے ہیں وہ غیب کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ وہ علم جو خود حاصل ہو وہ غیب ہے. جبکہ خود تو یہاں پر چھٹانک بَھر علم بھی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے. علم تو چاہے حاضر کا ہو چاہے غیب کا ہو وہ سب اللہ ہی کا دیا ہوا ہے.تو اصل میں یہ علم غیب کی تعریف ہی کا سارا فساد ہے کہ تم نے غلط تعریف کی ہے جس کی بنا پر غیب کی نفی کر رہے ہو. تمہارا یہ موقف نہ تو کسی حدیث نبویؐ سے منقول ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کسی آیت سے ماخوذ ہے. قرآن کے الفاظ تو یہ ہیں: 

عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ… (الجن:۲۶۲۷
’’وہ عالم الغیب ہے‘ پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا. مگر جس کو پسند کر لے اپنے رسولوں میں سے …‘‘

چنانچہ یہ غیب کے پردے اللہ تعالیٰ اٹھاتا ہے صرف انبیاء و رُسل کے لیے . البتہ کتنے اٹھاتا ہے‘ کتنی اس کی مشیت ہے‘ کس کو کتنا دکھاتا ہے ‘یہ وہ جانے اور اس کا رسول جانے جس نے دیکھا .

قرآن مجید میں سورۃ النجم میں شب معراج کا ذکر ہوا ہے کہ وہاں کیا دیکھا محمد نے‘ تو اس میں ایک بہت اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں. اب 
میں اور آپ کیا سمجھ سکیں گے کہ وہاں محمد نے کیا دیکھا! اگر یہ بیان بھی کر دیا جائے تو ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آ سکتا کہ وہاں محمد نے کیا دیکھا. لہذا قرآن مجید نے صرف یہ کہا : لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾ ’’انہوں نے دیکھا اپنے ربّ کی بڑی عظیم آیات کو‘‘. سِدْرَۃ المنتہیٰ پر کیا تھا‘ اگر قرآن اسے بیان بھی کرے تو ہماری سمجھ میں کیا آئے گا!لہذا صرف فرمایا گیا : اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾ ’’ـ جب کہ ڈھانپے ہوئے تھا اُس بیری کے درخت (سِدرہ) کو جو ڈھانپے ہوئے تھا‘‘. تم کیا سمجھو گے‘لہذا تمہیں کیا بتائیں کہ کیا ڈھانپے ہوئے تھا! بس تم اسی پر قناعت کرو کہ ’’دیکھا (ہمارے بندے محمد نے) اپنے ربّ کی بڑی عظیم آیات کو‘‘. اس سے آگے تمہارے حاشیۂ خیال میں آنے والی بات نہیں. یہ ہے معاملہ ہمارے علم اور ہماری حدود کا اور ہم اس کو لے کر ناپنے چلیں انبیاء کرام علیہم السلام کے علم کو‘ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر سید الانبیاء‘ سید المرسلین حضرت محمد کے علم کو ‘ تو یہ ہماری بنیادی غلطی اور بنیادی قصور ہے. ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نبی اکرم عالم الکُل ہیں‘ عالمُ ما کان وما یکون ہیں تو یہ عقیدے کی خرابی اور شرک ہے.
 
تاہم 
’’مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘ کو بھی سمجھ لیجیے کہ کہنے والا اگر اس نیت سے کہہ رہا ہے کہ نبی اکرم کا علم ماضی پر بھی مشتمل ہے اور مستقبل پر بھی تو وہ غلط تو نہیں ! اس لیے کہ ماضی کی بھی بہت سی خبریں نبی اکرم کو دی گئیں اور مستقبل کی بھی بہت سی خبریں آپ کو دی گئیں. جب تک کہنے والا اس احاطے کے ساتھ نہ کہے کہ کُل ماضی اورکُل مستقبل کا علم آپؐ کے پاس ہے‘ تب تک اس میں کوئی حرج اور کوئی مضائقہ نہیں ہے. یہ صرف دو کیٹیگریز کے اعتبار سے ہے. نبی اکرم قرآن مجید کے بارے میں یہ بیان کرتے ہیں کہ فِیْہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَـبْلَــکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ… (۱’’اس میں جو کچھ تم سے پہلے ہوا ہے اس کی خبریں بھی ہیں اور جو کچھ تمہارے بعد ہونے والا ہے اس کی خبریں بھی ہیں‘‘ .تو قرآن میں اگر ماضی کی خبریں بھی ہیں اور مستقبل کے حالات (۱) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ما جاء فی فضل القرآن. کے بھی اشارے موجود ہیں تو آپ ‘ کیا قرآن کا علم بھی نہیں رکھتے کہ انہیں معلوم نہ ہو کہ ماضی میں کیا ہوا اور مستقبل میں کیا ہوگا؟ سارے فساد کی جڑ ہے تو وہ ایک لفظ ’’کُل‘‘ ہے. ’’کُل‘‘ اگر ماسوی اللہ کے لیے آ گیا تویہ کفر بھی ہے اور شرک بھی . ’’کُل‘‘ کی شان تو صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی ہے. وہ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ہے ‘ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ہے. ’’کُل‘‘ کا لفظ اگر آپ کسی اور کے لیے لے آئے تو وہ گویا مطلق (absolute) ہو گیا جو کہ کفر و شرک ہے‘ حالانکہ absolute ذات صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے. اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ صرف ایک لفظی نزاع اور اصطلاح کا جھگڑا ہے‘ تعریف (definition) کا ٹکراؤ ہے ‘ورنہ اس میں کوئی بنیادی اختلافی مسئلہ موجودنہیں ہے.