قرآن مجید میں سورۃ النجم میں شب معراج کا ذکر ہوا ہے کہ وہاں کیا دیکھا محمدﷺ نے‘ تو اس میں ایک بہت اہم نکتہ پوشیدہ ہے جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں. اب میں اور آپ کیا سمجھ سکیں گے کہ وہاں محمدﷺ نے کیا دیکھا! اگر یہ بیان بھی کر دیا جائے تو ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آ سکتا کہ وہاں محمدﷺ نے کیا دیکھا. لہذا قرآن مجید نے صرف یہ کہا : لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾ ’’انہوں نے دیکھا اپنے ربّ کی بڑی عظیم آیات کو‘‘. سِدْرَۃ المنتہیٰ پر کیا تھا‘ اگر قرآن اسے بیان بھی کرے تو ہماری سمجھ میں کیا آئے گا!لہذا صرف فرمایا گیا : اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾ ’’ـ جب کہ ڈھانپے ہوئے تھا اُس بیری کے درخت (سِدرہ) کو جو ڈھانپے ہوئے تھا‘‘. تم کیا سمجھو گے‘لہذا تمہیں کیا بتائیں کہ کیا ڈھانپے ہوئے تھا! بس تم اسی پر قناعت کرو کہ ’’دیکھا (ہمارے بندے محمدﷺ نے) اپنے ربّ کی بڑی عظیم آیات کو‘‘. اس سے آگے تمہارے حاشیۂ خیال میں آنے والی بات نہیں. یہ ہے معاملہ ہمارے علم اور ہماری حدود کا اور ہم اس کو لے کر ناپنے چلیں انبیاء کرام علیہم السلام کے علم کو‘ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر سید الانبیاء‘ سید المرسلین حضرت محمدﷺ کے علم کو ‘ تو یہ ہماری بنیادی غلطی اور بنیادی قصور ہے. ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نبی اکرمﷺ عالم الکُل ہیں‘ عالمُ ما کان وما یکون ہیں تو یہ عقیدے کی خرابی اور شرک ہے.
تاہم ’’مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘ کو بھی سمجھ لیجیے کہ کہنے والا اگر اس نیت سے کہہ رہا ہے کہ نبی اکرمﷺ کا علم ماضی پر بھی مشتمل ہے اور مستقبل پر بھی تو وہ غلط تو نہیں ! اس لیے کہ ماضی کی بھی بہت سی خبریں نبی اکرمﷺ کو دی گئیں اور مستقبل کی بھی بہت سی خبریں آپﷺ کو دی گئیں. جب تک کہنے والا اس احاطے کے ساتھ نہ کہے کہ کُل ماضی اورکُل مستقبل کا علم آپؐ کے پاس ہے‘ تب تک اس میں کوئی حرج اور کوئی مضائقہ نہیں ہے. یہ صرف دو کیٹیگریز کے اعتبار سے ہے. نبی اکرمﷺ قرآن مجید کے بارے میں یہ بیان کرتے ہیں کہ فِیْہِ نَبَأُ مَا کَانَ قَـبْلَــکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ… (۱) ’’اس میں جو کچھ تم سے پہلے ہوا ہے اس کی خبریں بھی ہیں اور جو کچھ تمہارے بعد ہونے والا ہے اس کی خبریں بھی ہیں‘‘ .تو قرآن میں اگر ماضی کی خبریں بھی ہیں اور مستقبل کے حالات (۱) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن عن رسول اللہﷺ ‘ باب ما جاء فی فضل القرآن. کے بھی اشارے موجود ہیں تو آپﷺ ‘ کیا قرآن کا علم بھی نہیں رکھتے کہ انہیں معلوم نہ ہو کہ ماضی میں کیا ہوا اور مستقبل میں کیا ہوگا؟ سارے فساد کی جڑ ہے تو وہ ایک لفظ ’’کُل‘‘ ہے. ’’کُل‘‘ اگر ماسوی اللہ کے لیے آ گیا تویہ کفر بھی ہے اور شرک بھی . ’’کُل‘‘ کی شان تو صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی ہے. وہ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ہے ‘ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ہے. ’’کُل‘‘ کا لفظ اگر آپ کسی اور کے لیے لے آئے تو وہ گویا مطلق (absolute) ہو گیا جو کہ کفر و شرک ہے‘ حالانکہ absolute ذات صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے. اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ صرف ایک لفظی نزاع اور اصطلاح کا جھگڑا ہے‘ تعریف (definition) کا ٹکراؤ ہے ‘ورنہ اس میں کوئی بنیادی اختلافی مسئلہ موجودنہیں ہے.