خالق اور مخلوق کے ارادہ و اختیار میں فرق و تفاوت

اور آگے چلیے!ارادہ ہم بھی کرتے ہیں اور ارادہ اللہ کا بھی ہے. لیکن وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ ہے کہ جو ارادہ کرے اسے کر گزرنے والا ہے‘ جبکہ کسی اور کی یہ شان نہیں. سب کے ارادے اللہ کے ارادے کے تابع ہیں.اللہ کا ارادہ مطلق ہے‘ کسی کے تابع نہیں‘ اسے کہیں سے sanction اور منظوری نہیں لینی. ایسی بات نہیں کہ صدرِ امریکہ کوئی بل پاس کرانا چاہتا ہو لیکن پارلیمنٹ منظوری نہ دے اور اس کی جان مخمصے میں پھنس جائے. جیسے وقت کا فرعون جو خدائی کا مدعی تھا‘ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی قرارداد (resolution) اپنے دربار میں پیش کی‘ لیکن درباری نہیں مانے تو فرعون کے ہاتھ بندھ گئے. یہ مطلق شان اللہ کی ہے کہ وہ جو ارادہ کر لے کر گزرنے والا ہے. مشیتِ مطلق صرف اللہ تعالیٰ کی ہے .قرآن مجید میں جگہ جگہ فرمایا گیا ہے : یَفۡعَلُ مَا یَشَآءُ ’’وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘. یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ’’وہ جو چاہتا ہے تخلیق کرتا ہے‘‘. وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ’’تو جسے چاہتاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے‘‘. اُس کا اختیار مطلق ہے. اس کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا. وہ چاہتا تو آنِ واحد میں ابوجہل کوہدایت دے دیتا. یَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ (المائدۃ:۱۸’’وہ جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے ‘‘. اگر وہ ابوجہل کو بخشنا چاہے تو اسے معاذ اللہ کون روکے گا! اور اگر وہ کسی بڑے سے بڑے نیک آدمی کو جہنم میں جھونکنا چاہے تو اس کا اختیار مطلق ہے ‘ اسے کوئی نہیں روک سکتا.

ہمارے اور اہل تشیع کے مابین عقائد میں ایک بڑا بنیادی اختلاف یہ ہے کہ ہم اللہ پر عدل واجب نہیں سمجھتے‘ جبکہ ان کے نزدیک اللہ پر عدل واجب ہے. ان کے نزدیک مجرم کو سزا دینا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے اور بے گناہ کو سزا نہ دینا اس پر واجب ہے‘ جبکہ ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہے . وہ مالک الملک ہے‘ مختارِ مطلق ہے‘ مشیتِ مطلقہ کا حامل ہے ‘ وہ بڑے سے بڑے نیکوکار کو بھی جہنم میں جھونکنے میں بااختیار ہے. البتہ یہ ہم جانتے ہیں کہ وہ نہیں جھونکے گا . امر واقع 
(De facto position) کوئی اور ہے‘ لیکن اس پر کوئی چیز واجب نہیں . اس لیے کہ جب کسی پر کوئی چیز واجب ہو گئی تو وہ مطلق شان تو نہ رہی! ہمارے نزدیک اللہ کی شان ہے ہی مطلق .اگر ہم اللہ پر عدل کو واجب مانیں تو وہ تو گویا ایک قانون کا پابند ہو گیا. حالانکہ اس کی شان تو یہ ہے کہ اس نے جو قانون خود بنائے اس کا بھی پابند نہیں‘ جب چاہے انہیں توڑ دے. اس نے آگ میں جلانے کا وصف رکھا ہے لیکن جب چاہے اسے سلب کرلے‘ پانی میں سطح برقرار رکھنے کا وصف رکھاہے لیکن جب چاہے اسے سلب کر لے. وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین جب چاہے توڑے‘ وہ اپنی مِلک میں جس طرح چاہے تصرف کرے ‘اس کا اختیارمطلق ہے. جبکہ ہمارے اختیار اور ہماری مشیت کی کیا حیثیت ہے؟ فرمایا گیا : وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ (الدھر:۳۰اس کے دو بڑے پیارے ترجمے کیے گئے ہیں. ایک یہ کہ : ’’اور تمہارے چاہے کچھ نہیں ہو گا جب تک اللہ نہ چاہے‘‘. لیکن یہ تو ہے نتیجہ کے اعتبار سے ‘ یہ لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ محتاط ترجمانی ہے. دوسرا ترجمہ ہے : ’’اور تم چاہ بھی نہیں سکتے جب تک کہ اللہ نہ چاہے‘‘. یہ ہے اصل میں اللہ تعالیٰ کی مطلق مشیت‘ کہ تمہاری مشیت بھی اس کی مشیت کے تابع ہے. تم چاہ ہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ نہ چاہے. یہ ہے اصل میں توحید کا وہ مقام کہ جہاں انسان کا ارادہ اللہ کے ارادے میں فنا ہو جاتا ہے کہ پروردگار! جو تو چاہے بس وہی ہے‘ میں کیا چیز ہوں اور میری مشیت اور ارادے کی کیا حیثیت ہے! اس میں چوٹی کی بات یہ ہے کہ سید المرسلین‘ محبوب ربّ العالمین حضرت محمدٌ رسول اللہ کی مشیت کے حوالے سے اگر دھوکہ ہو سکتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے پیش بندی کے طور پرفرمادیا: 

اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ (القصص:۵۶
’’یقینا(اے نبیؐ !) آپ نہیں ہدایت دے سکتے جسے بھی آپ چاہیں لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے‘‘.

اب اس تنبیہہ اور راہنمائی کے بعد کہاں شرک کا امکان باقی رہ سکتا ہے!قرآن مجید نے تو ایسے سب راستے مسدود کر دیے ہیں جن سے شرک درآ سکتا تھا. اور نبی اکرم کے ساتھ یہ اندازِ تخاطب ہے ہی اس لیے کہ کہیں مغالطے کا شائبہ بھی پیدا نہ ہو جائے‘ اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ الحمد للہ یہ اُمت بحیثیت مجموعی شرک سے بچی ہوئی ہے.