اب آیئے حیات کی طرف. ہم بھی زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی زندہ ہے ‘ لیکن ہماری زندگی اوّل تو یہ کہ اپنی نہیں بلکہ عطائی ہے . ؏ ’’ لائی حیات آئے‘ قضا لے چلی چلے‘‘.دوسرے یہ کہ اس حیات کا دار و مدار اسباب پر ہے. کھائیں گے تو زندہ رہیں گے ورنہ مر جائیں گے آکسیجن حاصل نہ رہے تو مر جائیں گے. اگر پندرہ بیس دن مسلسل جاگیں تو موت واقع ہو جائے گی.معلوم ہوا کہ یہ حیات بڑی ہی کمزور اور بے چاری ہے. یہ بڑی ہی مجبور زندگی ہے جو دوسروں کے سہارے پر قائم ہے. اس کے ساتھ ضعف اور احتیاج ہے‘ آرام اور نیند کی ضرورت ہے. جبکہ اللہ تعالیٰ کی حیات کیا ہے؟ آیت الکرسی میں ہے : اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ (البقرۃ:۲۵۵کہ اس کی زندگی تو وہ زندگی ہے جس میں نہ اونگھ ہے اور نہ نیند ہے. اس کی قوتوں میں کوئی اضمحلال پیدا نہیں ہوتا. ارشادِ باری تعالیٰ ہے : 

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ ﴿۳۸﴾ (قٓ) 
’’اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے مابین ہے ‘چھ دنوں میں پیدا کیے اور ہم پر کوئی تکان طاری نہیں ہوئی‘‘.

یعنی خالق کائنات کی زندگی کو اپنی زندگی کے مظاہر پر قیاس نہ کر بیٹھنا . اُس کی زندگی اسباب اور سہاروں کے بل پر قائم نہیں ‘بلکہ قائم بالذات ہے‘ عطائی نہیں بلکہ ذاتی ہے. اب ذرا سوچئے کہ ہماری زندگی کو اُس کی زندگی کے مقابلے میں زندگی کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو صرف صورتِ حیات ہے‘ حیات نہیں ہے. حیات تو صرف اللہ کے لیے ہے. اسی طرح ہمارے پاس صرف صورتِ علم ہے ‘ علم نہیں ہے. العلم تو صرف اللہ کے لیے ہے. ہمارے اندر تو صرف ارادے کی ایک صورت ہے‘ حقیقتاً اور مطلقاً ارادہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا ہے. ہمارے اندر مشیت کی صرف ایک جھلک سی ہے‘ جبکہ اصل مشیت تو اللہ کی ہے.

اس سے یہ نتیجہ نکالیے کہ مخلوقات کی جملہ صفات کو جب صفاتِ خالق کے مقابلے میں رکھا جائے گا تو کہا جائے گا کہ یہ معدوم کے درجے میں ہیں‘ ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے. ہمارے پاس کچھ علم ہے‘ لیکن اللہ کے علم کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے. ہمارے اندر حیات ہے ‘لیکن حیاتِ خداوندی کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے.اللہ کے مقابلے میں ہمیں کوئی قدرت‘ علم‘ مشیت حاصل نہیں ہے. میں اس اہم بحث کے لیے نبی اکرم کے قولِ مبارک سے سند پیش کرتا ہوں.

نبی اکرم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دعائے استخارہ سکھائی. اس دعا کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ آپ نے ہمیں یہ دعا اس طرح تلقین فرمائی جیسے قرآن مجیدکی کوئی سورۃ ہو. دعائے استخارہ کے الفاظ ہیں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ… (۱’’اے اللہ! میں تیرے علم سے خیر کی بھیک مانگتا ہوں‘ اور تیری قدرت سے کچھ قدرت کی بھیک مانگتا ہوںاور میں تیرے فضل عظیم سے کچھ سوال کر رہا ہوں‘‘. جیسے حضرت موسٰی علیہ السلام کے الفاظ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجمعۃ‘ باب ما جاء فی التطوع مثنی مثنی. سورۃ القصص میں آئے ہیں : رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ ’’اے میرے ربّ! تو جو بھی میری جھولی میں ڈال دے میں اس کا محتاج ہوں‘‘. مقامِ عبدیت تو یہی ہے کہ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ (فاطر:۱۵کہ تم ہر معاملے میں اللہ کے محتاج ہو. دعائے استخارہ کے مذکورہ بالا تین جملے مقامِ عبدیت کی وضاحت کے لیے بہت عظیم ہیں. اگلے دو جملے ہیں:فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ… ’’پس تجھے ہی قدرت حاصل ہے‘ مجھے کوئی قدرت نہیں‘ اور تو جانتا ہے مجھے کوئی علم حاصل نہیں.‘‘ اب اگر نبی اکرم کے اِن الفاظِ مبارکہ کو اللہ تعالیٰ سے تقابل میں نہ رکھا جائے تو یہ‘ نعوذ باللہ‘ جھوٹ ہو جائے گا کہ ’’مجھے کوئی قدرت اور علم حاصل نہیں‘‘جبکہ علم تو ہمیں بھی کچھ نہ کچھ حاصل ہے اور نبی اکرم کا تو کہنا ہی کیا! اصل میں یہاں تقابل ہے کہ اے پروردگار! تیرے علم کے مقابلے میں میرا علم صفر ہے. تیری قدرت کے مقابلے میں میری قدرت صفر ہے. تو جب صفاتِ مخلوق کا صفاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تقابل ہو گا تو مخلوق کی صفات معدوم کے درجے میں شمارہوں گی.

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو واقعہ سورۃ الکہف میں نقل ہوا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے فرمایا کہ جاؤ ہمارے ایک بندے کے پاس جسے ہم نے علمِ لدُنی عطا فرمایا ہے ‘ تو قرآن مجید میں تو اگرچہ یہ تفصیل موجود نہیں ہے لیکن روایات میں آتا ہے کہ حضرت خضر ؑنے(اگرچہ ان کا نام قرآن میں نہیں ہے) حضرت موسٰی ؑسے فرمایا کہ اے موسیٰ! یہ جو کشتی کے کنارے پر آ کر چڑیا بیٹھ گئی ہے اور اس نے سمندر میں چونچ ڈال کر پانی پیا ہے تو اس پانی کو اس سمندر کے پانی سے جونسبت ہے جان لو کہ کُل مخلوقات کے علم کو اللہ کے علم کے مقابلے میں یہ نسبت بھی حاصل نہیں.