اب ذرا نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ کی بحث کی طرف آیئے کہ صرف اللہ کا وجود مطلق ہے‘ قدیم ہے اور دائم ہے ‘جبکہ ماسویٰ کا وجود عطائی ہے‘ محدود ہے‘ حادث اور فانی ہے. گویا وجود تو صرف اسی کا ہے‘ کسی اور کا کوئی وجود ہے ہی نہیں. یہ ماسویٰ سے وجود کی نفی 
ہے . یہ’’ وحدت الوجود‘‘ ہے اور درحقیقت یہ توحید فی الصفات کی بلند ترین منزل ہے. جو یہاں نہیں پہنچا وہ فکری سطح کے اعتبار سے توحید کی آخری منزل تک نہیں پہنچا.میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ ہمارے وہ صوفیائے کرام جو اگرچہ ’’وحدت الوجود‘‘ کے قائل ہیں ‘لیکن انہوں نے ’’وحدت الوجود‘‘ کو ’’ہمہ اوست‘‘ (Pantheism)کے ساتھ خلط مبحث (confuse) کر دیا ہے‘ مثلاً ابن عربی‘ مولانا روم اور دیگر نامور صوفیاء‘ اِن کے بارے میں لوگ سوءِ ظن میں مبتلا ہیں

.کچھ لوگ تو انہیں بلاتأمل مشرک کہہ دیتے ہیں اور باقی لوگوں کی رائے بھی یہ ہے کہ وہ گمراہی کی طرف چلے گئے .دیکھئے نظریہ ’’ہمہ اوست‘‘ کو تو میں بھی کفر اور شرک سمجھتا ہوں. لیکن ہمہ اوست اور وحدت الوجود کے فرق کو جان لیجیے! ’’ہمہ اوست‘‘ کو یوں سمجھئے کہ برف پگھل کر پانی بن گیا تو برف معدوم ہو گئی اور اب پانی ہی برف ہے. اِس اعتبار سے تو یہ کائنات حقیقت قرار پاتی ہے اور‘ نعوذ باللہ‘ خدا اس میں گم ہو جاتا ہے. جبکہ وحدت الوجود یہ ہے کہ حقیقتِ وجود صرف خدا کے لیے ہے اور ماسوی کا وجود ہی نہیں ہے. تو ان دونوں نظریات میں زمین و آسمان کا فرق واقع ہو گیا اور یہ ایک دوسرے کی ضد ہوگئے. اس لیے کہ ’’ہمہ اوست‘‘ میں مخلوق حقیقت ہے اور خالق اس میں گم ہے اور ’’وحدت الوجود‘‘ میں خالق حقیقت ہے اور مخلوق کا وجود گم ہے. لہذا جب ان دونوں نظریات کو خلط مبحث کیا گیا تو بہت سے لوگوں کو مغالطہ ہو گیا . جب یہ confusion زیادہ ہوا تو اس میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ نے اصلاح کی اور انہوں نے ’’وحدت الوجود‘‘ کے بجائے ’’وحدت الشہود‘‘ کا نظریہ پیش کیا.

وحدت الشہود یہ ہے کہ حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے اور کائنات کا وجود اعتباری ہے اور اُس کا محض عکس ہے. جیسے اصل وجود درخت کا ہوتا ہے ‘لیکن اس کا سایہ جو زمین پر پڑ رہا ہوتا ہے وہ نظر تو آ رہا ہوتا ہے لیکن اس کا وجود کوئی نہیں ہوتا. ایسے ہی یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے اظلال اور سائے ہیں اور ان کی کوئی ذاتی حقیقت نہیں ہے . جیسے کسی شاعر نے کہا : ؎

کلُّ ما فی الکون وھمٌ او خیال
او عکوسٌ فی المرایا او ظلال 

کہ جو کچھ اس کائنا ت میں ہے وہ محض وہم ہے یا خیال ہے ‘یا جیسے شیشے میں کوئی عکس ہوتا ہے یا سایہ. آپ شیشے میں نظر تو آ رہے ہوتے ہیں لیکن وہاں ہوتے نہیں ہیں.اسے ایک مثال سے یوں واضح کیا گیا کہ ایک لکڑی لے کر اس کے ایک سرے پر کپڑا باندھیں اور اس کے اوپر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا دیں اور اسے ایک دائرے میں تیزی کے ساتھ حرکت دیں تو دیکھنے والوں کو یہ ایک آتشیں دائرہ نظر آتا ہے‘لیکن درحقیقت وہ آگ کا دائرہ نہیں ہوتا ‘ بلکہ شعلے کی حرکت آتشیں دائرے کا روپ دھار لیتی ہے. اب دیکھئے اس نظریے میں کائنات اور ماسویٰ کی نفی ہو گئی اور اثبات صرف اللہ کا ہوا. ’’وحدت الوجود‘‘ اور ’’وحدت الشہود‘‘ میں صرف تعبیر کا فرق ہے‘ اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے یہ فرق کیا ہے. یہ محض سمجھانے کا ایک لطیف سا انداز ہے. 

اس کی ایک اور بہترین تمثیل اِس دَور میں مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے یہ بیان کی کہ تم ذرا تصور کر کے اپنے ذہن میں تاج محل یا مینارِ پاکستان کا نقشہ لے آؤ. یہ گویا تمہاری محض ایک خیالی تخلیق ہے جو تمہارے ذہن میں ہے اور تمہارے ذہن سے باہر اِس کا کوئی وجود نہیں .اس کے اوپر بھی تم ہو ‘اس کے نیچے بھی تم ہو‘اس کے باہر بھی تم ہو اور اس کے اندر بھی تم ہو. تو یہی نسبت خالق و مخلوق کے مابین ہے. قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرماتا ہے : 
ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ (الحدید:۳’’وہی اوّل ہے ‘وہی آخر ہے ‘وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے‘‘. اور یہ کائنات محض اس کے خیال کے مانند ہے. ہمارا خیال تو بڑا کمزور سا خیال ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا خیال بڑا ٹھوس اور پختہ خیال ہے. البتہ یہ جان لیجیے کہ جس طرح ہماری ذہنی تصویر کا انحصار اور قیام ہماری توجہ پر ہوتا ہے‘ جیسے ہی توجہ ہٹتی ہے تصویر بھی ذہن سے محو ہو جاتی ہے‘ اسی طرح اس کائنات کا قیام بھی اللہ تعالیٰ کی توجہ سے ہے. اُس کی توجہ ہٹے تو یہ معدوم ہے. اسی لیے کہا گیا کہ وہ الحی ّ القیّوم ہے ‘ از خود ہے اور اس کائنات کو تھامے ہوئے ہے. جیسے تم اپنی توجہ کو مرتکز رکھو گے تو وہ ہیولیٰ تمہارے ذہن میں رہے گا‘ تم اُس کے قیوم ہو ‘ ایسے ہی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا القیوم ہے‘ اسے تھامے ہوئے ہے.