اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق کو شمار کرنے لگ جائیں تو وہ بے شمار ہو جائیں گے‘ لیکن ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ کے مصداق اللہ تعالیٰ کا ایک حق ایسا ہے کہ جس میں اُس کے سارے حقوق آ جاتے ہیں ‘اور وہ حق ہے ’’عبادت‘‘ . چنانچہ ’’شرک فی الحقوق‘‘ مساوی ہو جائے گا ’’شرک فی العبادت‘‘ کے. قرآن مجید میں یہ مضمون بے شمار مرتبہ آیا ہے کہ تمام رسولوں کی دعوت اسی حوالے سے ہے کہ ’’اللہ کی عبادت کرو‘ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو‘‘ . سورۂ ھود کی ابتدائی آیات میں بتایاگیا کہ قرآن مجید کا مقصدِ نزول اور محمدٌ رسول اللہ کی بعثت کی غرض و غایت کیا ہے. فرمایا: 

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾ 
’’ا ‘ ل ‘ ر . یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات پختہ کی گئیں‘ پھر وہ کھولی گئیں (ان کی تفسیر کی گئی) اُس ہستی کی طرف سے جو کمالِ حکمت والی ہے‘ تمام چیزوں سے باخبر ہے. (اور یہ اس لیے نازل ہوئی) کہ عبادت نہ کرو مگر اللہ کی. یقینا میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں‘‘.

یعنی جو اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور ’’توحید فی العبادت‘‘ کے معیار پر پورے اتر جائیں اُن کے لیے میں بشارت دینے والا ہوں کہ ان کے لیے نعمتوں والی جنتیں ہیں. اور جو اِس معیار پر پورے نہ اتریں ان کے لیے میں خبردا رکرنے والا ہوں کہ ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس بڑا دردناک عذاب ہے. 

سورۃ الکہف کی آخری آیت میں نبی اکرم سے کہلوایا گیا: 

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪ ’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا‘ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے. پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا امیدوار ہو اُسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے‘‘.