’’شرک فی الحقوق‘‘ یا بالفاظِ دیگر ’’شرک فی العبادت‘‘ کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے لفظ ’’عبادت‘‘ کو سمجھنا ہو گا. عربی میں ’’عبد‘‘ غلام اور بندے کو اور ’’عبادت‘‘غلامی اور بندگی کو کہتے ہیں. قرآن مجید کی مشہور آیۂ مبارکہ ہے : وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت) اس کی صحیح ترین ترجمانی کی ہے شیخ سعدیؒ نے کہ : ؎ 

زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی!

یہ تو ہوا لفظ ’’عبادت‘‘ کامعنی و مفہوم. اصطلاح میں’’ عبادت‘‘ اصل میں کیا ہے‘ امام ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ نے اِس کی صحیح ترین اور جامع ترین تعبیر کی ہے‘ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے‘ کہ : ’’اَلْعِبَادَۃُ تَجْمَعُ اَصْلَیْنِ‘‘ کہ عبادت دو بنیادوں یا دو جڑوں کو اپنے اندر جمع کرتی ہے‘ یعنی اِس کے دو بنیادی اجزاء ہیں جن کے ملنے سے یہ عبادت وجود میں آتی ہے. اور وہ ہیں : ’’غَایَۃَ الْحُبِّ مَعَ غَایَۃِ الذُّلِّ وَالْخُضُوْعِ‘‘ کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ انتہا درجے کی محبت ہو اور اُس کے ساتھ جمع ہو جائے انتہائی درجے کی عاجزی و انکساری کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بچھ جائے‘ اپنے آپ کو اُس کے سامنے پست کر دے. اللہ کی مرضی اور پسند کے مقابلے میں اس کی اپنی کوئی مرضی اور پسند باقی نہ رہے. جو اللہ کو پسند ہو وہی اس بندے کو پسند ہو اور جو اللہ کی مرضی ہو اسی پر وہ راضی ہو. جو اللہ کا حکم ہو وہ اسے بسروچشم بجا لائے اوراپنی زندگی کی غایت ہی یہ سمجھے کہ بس اپنے آقا ‘ اپنے مالک‘ اپنے ربّ کو راضی کرنا ہے. اس کی رضاجوئی ہی اس کی زندگی کا مقصود ہو. 

ویسے تو لفظ 
’’عبد‘‘ غلام کے معنی میں آتا ہے اور غلامی کے اندر ایک جبر کا مفہوم ہے. دنیا میں جب بھی کوئی کسی کا غلام ہوتا تھا یا اب بھی جو قومیں دوسری قوموں کی غلام ہوتی ہیں تو اِس غلامی میں جبر کا پہلو ہوتا ہے. یہ مجبوری اور مارے باندھے کی غلامی ہوتی ہے. کوئی اپنی مرضی سے کسی کا غلام نہیں بنتا ‘بلکہ دوسرا اُس پر مسلط ہو جاتا ہے. لفظ ’’عبد‘‘ کے مفہوم میں چونکہ جبر کا پہلو شامل ہے اس لیے جب دین کے اندر اللہ کی عبادت کا تصور زیربحث آئے گا تو یہ صراحت ضروری ہو گی کہ اس میں غلامی کا وہ عنصر تو بتمام و کمال موجود ہونا چاہیے کہ جیسے ایک غلام‘ ایک بندہ اپنے آقا کا مطیع فرمان ہوتا ہے‘ لیکن اس میں کوئی پہلو جبر کا نہ ہو‘ بلکہ اپنے آقا اور معبود کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے آپ کو اس کے سامنے بچھا دیا جائے‘ اور اس کی بندگی اپنی آزاد مرضی سے اختیار کی جائے‘ جبر سے نہیں. گویا عبادت کے دو اجزاء ہیں‘ ایک ہے کُلی اطاعت اور ایک ہے محبت کہ جو اِس اطاعت کی اصل روحِ باطنی ہے. ان دونوں کے مابین باہمی نسبت و تناسب وہی ہے جو ہمارے اِس مادی وجود اور روحانی وجود کے مابین ہے. جیسے ہمارا جو جسمِ ظاہری ہے ‘نظر تو یہی آتا ہے‘ سارا وزن اسی کا ہے‘ لیکن اس میں جو اصل حقیقت ہے وہ جان ہے‘ روح ہے‘ اسی کی وجہ سے یہ قائم ہے‘ ورنہ تو یہ متعفن ڈھیر بن جائے گا‘ قریب ترین اعزہ و اقارب بھی دُور بھاگیں گے. میں یہاں لفظ ’’روح‘‘ کو ’’جان‘‘ کے ہم معنی کے طور پر استعمال کر رہا ہوں‘ جو غلط العام تصور ہے.اِس وقت ’’روح‘‘ اور ’’جان‘‘ کا فرق زیر بحث نہیں ہے. تو جیسے نگاہ میں آنے والا ہمارا یہ ظاہری وجود ہے‘ وزن اسی کا ہے ‘لیکن اس میں اصل قدر و قیمت اُس روحِ باطنی کی ہے جو اِس کے اندر سرایت کیے ہوئے ہے‘ بالکل اسی طرح عبادت کااصل جسد تو اطاعت ہے‘ نظر تو یہی آئے گا کہ فلاں آدمی نے اللہ تعالیٰ کا حکم مانا‘ اس نے اللہ کے حکم کے مطابق نماز پڑھی‘ اس نے اللہ کے حکم کے مطابق روزہ رکھا‘ اس نے اللہ کے حکم کے مطابق فلاں چیز کو حلال جانا اور فلاں چیز کو حرام جانا‘ لیکن اگر اس میں محبت کا پہلو نہیں ہے تو پھر یہ عبادت ایک بے جان جسد ہے ‘ جس میں کوئی روح نہیں ہے.علامہ اقبال نے اس دَور میں اسے خوب واضح کیاہے کہ ؎

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب! میرا سجود بھی حجاب!

اور : ؎ 

عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدۂ تصورات 

اگر عبادت کے اندر محبت ِخداوندی کی روح جار ی و ساری نہ ہو تو یہ اعمال محض رسم بن کر رہ جاتے ہیں. تو عبادت کے یہ دو اجزاء بہت اہم ہیں‘ ایک اطاعتِ کُلی اور دوسرا محبتِ خداوندی . (۱

عبادت کے ذیل میں تیسری چیز کچھ مراسمِ عبودیت ہیں جو اپنی بندگی کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتے ہیں. انسان کا ہمیشہ سے یہ قاعدہ رہا ہے کہ کسی کی تعظیم اور نیازمندی کے اظہار کے لیے وہ کچھ صورتیں اختیار کرتا ہے ‘مثلاً جس کی تعظیم مقصود ہو انسان دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے. بادشاہوں کے سامنے سینہ تان کر نہیں بلکہ جھک کر کھڑا ہوا جاتا ہے. پھر جس کی مزید تعظیم مقصود ہو اُس کے سامنے رکوع کیا جاتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر سجدہ کیا جاتا ہے. سورج کی تعظیم مقصود ہو تو لوگ سورج کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں‘ سربسجود ہو جاتے ہیں. تو یہ ظاہری اعمال کہ جن میں اس عبادت کے جذبے کا اظہار ہوتا ہے‘ مراسمِ عبودیت کہلاتے ہیں.
عبادت کے ذیل میں چوتھی بحث ’’دعا‘‘ ہے جو عبادت کا لبِّ لباب اور اصل خلاصہ ہے. کسی ہستی کو پکارا جاتا ہے اُسے مشکل کشا ‘ حاجت روا‘ تکلیفوں کا دُور کرنے 
(۱) اس ضمن میں ماہر القادری مرحوم کا بڑا پیارا شعر ہے: ؎

جو سجدے میں دل بھی جھکے گا نہ ماہرؔ
وہ کچھ اور شے ہے ‘ عبادت نہ ہو گی!

(مرتب) 
والا سمجھ کر. اسے قادر ِمطلق سمجھتے ہیں تب ہی تو اسے پکارتے ہیں! اسے سمیع و بصیر سمجھتے ہیں تب ہی تواسے پکارتے ہیں! اسے سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری تکلیفیں رفع کر سکتا ہے تو اس سے استغاثہ کرتے ہیں‘ استدعا کرتے ہیں. نبی اکرم ے فرمایا: اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (۱’’دعا ہی اصل عبادت ہے‘‘. ایک اور جگہ ارشادِ نبویؐ ہے : اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (۲’’عبادت کا جوہر دعا ہے‘‘. 
عبادت کے ذیل میں پانچویں اور آخری بحث ہے خلوص و اخلاص.کوئی عبادت اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے جب تک کہ اُس میں خلوص اور اخلاص نہ ہو. خلوص اور اخلاص کی ضد ہے ریاکاری‘ یعنی محض لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی عمل کرنا. اسی کے ساتھ ایک لفظ آتا ہے 
’’سُمعَہ‘‘. یعنی محض لوگوں کو سنانے کے لیے کوئی عمل انجام دینا. ’’ریا‘‘ ہے دکھانا اور ’’سُمعَہ‘‘ ہے سنانا.تو عبادت میں جب ریا اور سُمعہ آجائیں گے تو وہ عبادت قبول نہیں ہو گی‘ اس لیے کہ خلوص و اخلاص جو قبولیت کی اصل شرط ہے‘ وہ مفقود ہے. چنانچہ قرآن مجید میں اس کو بھی واضح کیا گیا: وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ… (البیّنۃ:۵’’اورا نہیں تو حکم بس یہی ہوا تھا کہ وہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین (غلامی اور اطاعت) کو اُس کے لیے خالص کرتے ہوئے ‘ یک سو ہو کر.‘‘اگر عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو بھی کچھ دکھانے اور سنانے کا عنصر شامل ہو گیا‘ لوگوں سے اپنی تعریف کرانا یا کوئی اور دُنیوی منفعت حاصل کرنا مقصد کے طور پر پیشِ نظر ہوا تو گویا خلوص اور اخلاص ختم ہوا اور عبادت میں ریا اور سُمعہ شامل ہو گئے اور اللہ کے ہاں ایسی عبادت مردود شمار ہو گی. تو عبادت کے یہ پانچ پہلو یاپانچ اجزاء ذہن میں متعین کر لیجیے. یعنی : (۱) اطاعت (۲) محبت (۳) مراسمِ عبودیت (۴) دعا‘ جو عبادت کا جوہر ہے ‘اور (۵)خلوص و اخلاص‘ جو قبولیتِ عبادت کی شرط ہے ‘اور اس کی ضد ہے ریا اور سُمعہ. (۱) سنن الترمذی‘کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ومن سورۃ البقرۃ.

(۲) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات عن رسول اللہ ‘ باب منہ. 
اب ہم اِن پانچ عنوانات کے تحت یہ سمجھیں گے کہ ’’شرک فی العبادت‘‘ ہے کیا! اس میں کچھ اشکالات آپ کے ذہنوں میں لامحالہ آئیں گے. چونکہ یہ مضامین عام طور پر سامنے نہیں آتے‘ ہم نے محض چند چیزوں کو متعین کر رکھا ہے کہ بس شرک یہی ہے اور اس شرک کی ہمہ گیری اور اس کی وسعت اکثر و بیشتر ہمارے سامنے نہیں ہے‘ لہذا جب یہ باتیں سامنے آتی ہیں تو بہرحال انسان چونکتاہے. اور اس حوالے سے ایک سوال جو قدم قدم پر سامنے آئے گا وہ یہ ہے کہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہر گناہ شرک ہے! لیکن ابھی ذرا اس اشکال‘ یا اس سوال یا اس اشتباہ کو ایک طرف رکھیے! میں اِن شاء اللہ آخر میں پوری وضاحت کے ساتھ اس کا جواب دوں گا. ابھی میں جو باتیں کہہ رہا ہوں پہلے ذرا اِن کے دلائل پر توجہ کرتے ہوئے اور ان کے face value پر ان کو سمجھئے کہ وہ صحیح ہیں یا نہیں ‘ دل کو لگتی ہیں یا نہیں.میں اِن شاء اللہ الجبرا کے فارمولوں کے طریقے پر یہ باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا.