سب سے پہلی چیز اطاعت ہے. اب دیکھئے کہ 
’’شرک فی الاطاعت‘‘ کیا ہے؟ اطاعت کا مفہوم وسیع ہے. اطاعت اللہ کی بھی ہے‘ اطاعت ا س کے رسول کی بھی ہے اور اطاعت اولوالامر کی بھی ہے. اولوالامر کوئی ایک ہی شخص نہیں ہوتا ‘بلکہ مسجد میں جو امام یا خطیب ہے وہ وہاں کا والی ٔ امر ہے. کسی بستی کے اندر جو ذمہ دار فرد ہے وہ وہاں کا والی ٔ امر ہے. کسی صوبے کا جو گورنر ہے وہ والی ٔ امر ہے. آپ کا جو سربراہِ ریاست ہے وہ والی ٔ امر ہے. اورنہ معلوم کتنے والیانِ امر موجود ہیں. جیسا کہ نبی اکرم نے فرمایا: کُلُّـکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّـکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (۱’’تم میں سے ہر ایک کی حیثیت ایک چرواہے کی ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی‘‘. چنانچہ نبی اکرم نے فرمایا کہ ایک عورت کو اپنے شوہر کے گھر پر اس کے مال (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجمعۃ‘ باب الجمعۃ فی القری والمدن. وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب فضیلۃ الامام العادل… اور اولاد پر اختیار حاصل ہوتا ہے‘ لہذا اُس سے اس کے بارے میں پُرسش ہو گی. اولاد اپنی والدہ کی اطاعت کرتی ہے‘ اس کا کہنا مانتی ہے. اب وہ اپنی اولاد کو اللہ کی اطاعت کی طرف لے گئی ہے یا اللہ کی معصیت کی طرف‘ اس سے اس بارے میں باز پرس ہو گی. اسی طرح ایک شخص جو خاندان کا سربراہ ہے ‘وہ اپنے گھر میں والی ٔ امر ہے. اُس سے بیوی بچوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ وہ انہیں اللہ کی بندگی کی طرف لے گیا ہے یا اللہ کی معصیت اور بغاوت کی طرف. تو ہر ایک شخص اپنی اپنی سطح پر والی ٔ امر ہے‘ ہرشخص کی حیثیت ایک چرواہے کی ہے .تو اب اس اطاعت میں اصول کیا ہو گا؟ یعنی بڑوں کی اطاعت‘ والدین کی اطاعت‘ اساتذہ کی اطاعت‘علماء کی اطاعت‘ مرشدین کی اطاعت‘ حکمرانوں کی اطاعت وغیرہ میں ’’توحید فی الاطاعت‘‘ کیا ہے اور ’’شرک فی الاطاعت‘‘ کیا ہے؟ اسے نبی اکرم کی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں سمجھئے. اس ضمن میں ہمیں یہ اصول دے دیا گیا ہے کہ :

لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (۱
’’کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی اس معاملے میں جس میں خالق کی معصیت لازم آ رہی ہو.‘‘

مخلوق کی اطاعت کا انکار نہیں ہے‘ والدین کی اطاعت کرو‘ بڑوں کی اطاعت کرو‘ سینئرزکی اطاعت کرو‘حکام کی اطاعت کرو‘ اساتذہ کی اطاعت کرو‘ اگر دینی اعتبار سے کسی کے ساتھ اپنے آپ کو منسلک کیا ہے تو اس کی اطاعت کرو‘ لیکن کسی کی اطاعت اللہ کی معصیت میں نہیں ہو گی‘ کوئی بھی اگر تمہیں اللہ کے حکم کے خلاف حکم دے گا تو اب اُس کی اطاعت نہیں ہو گی. وہاں ان کی اطاعت کا دائرہ ختم ہو جائے گا. اب ان کی معصیت لازماًکی جائے گی اور اللہ کی معصیت ہرگز نہیں کی جائے گی. چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت سپریم ہے‘ باقی تمام اطاعتیں اُس کی اطاعت کے دائرے کے اندر اندر ہیں تو یہ ’’توحید فی الاطاعت‘‘ ہے. اگر کسی ایک اطاعت کو بھی اس دائرے سے باہر (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الجھاد‘ باب ما جاء لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق. نکال کر اللہ کی اطاعت کے ہم پلہ کر لیا گیاتو یہ شرک ہے اور اگر اللہ کی اطاعت سے اوپر لے گئے تو یہ شرک سے بھی زیادہ گھناؤنی بات ہے .یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص کا دل اس کی گواہی دے گا اور عقلِ عام اسے تسلیم کرے گی.

اب ذرا اِس فارمولے کو 
apply کیجیے اور یہ انتہائی کٹھن مرحلہ ہے. اس کے لیے میں ایک مثال خالص انفرادی سطح پر دوں گا اور ایک مثال اجتماعیت کی بلند ترین چوٹی کی دوں گا. اور ان دو کے مابین جو مدارج و مراتب ہیں‘ جو خلا ہے اس کو خود پُرکر لیجیے!خالص انفرادی سطح پر دیکھئے کہ میرا ایک نفس ہے جو مجھے اللہ کے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے. جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا : 

وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓء… (یوسف:۵۳
’’اور میں اپنے نفس کو بری نہیں ٹھہراتا ‘ یقینا نفس تو برائی پر اکساتا ہی ہے‘‘.

اب اصل مسئلہ میرے لیے ہے ‘اور وہ یہ کہ ایک طرف اللہ کا حکم ہے اور ایک طرف میرے نفس کا حکم ہے. ایک مرضی میرے مولیٰ کی ہے اور ایک خواہش میرے نفس کی ہے. میں چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آ گیا ہوں. جیسے کسی شاعر نے کہاہے : ؎ 

درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش!

کہ تو نے مجھے ایک تختے پر باندھ کر سمندر کے اندر پھینک دیا ہے‘ اور توچاہتا مجھ سے یہ ہے کہ میرا دامن تر نہ ہونے پائے. تو انسان چکی کے دو پاٹوں کے درمیان ہے. ایک طرف اس کے ساتھ وہ نفس لگا ہواہے جس کے بارے میں خود قرآن یہ کہہ رہا ہے : وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓء اور ساتھ ہی یہ کہا جاتا ہے کہ ؏ ’’ہشدار کہ راہ بر دمِ تیغ است قدم را‘‘ کہ ہوشیار رہو ‘کہیں تمہارا قدم معصیت کی کسی دلدل کے اندر پھنس نہ جائے! نفس کے ساتھ یہ کشمکش ہر روز‘ ہر ساعت اور ہر آن ہے. فرض کیجیے آپ نے اذان سن لی ہے اور آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ نماز کا بلاوا آ چکاہے‘ میرے ربّ کا حکم یہ ہے کہ میں اُس کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤں ‘جبکہ دوسری طرف میرے نفس کا بھرپور تقاضا ہے کہ ابھی سوئے رہو‘ آرام کرو‘ یہ چھوڑو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا مطالبہ ہے‘ پہلا میرا تقاضائے استراحت پورا کرو. اب آپ سوچیے کہ آپ نے دو اطاعتوں میں سے کس کو مؤخر کیا اور کس کو مقدم کیا! کس کو اوپر کر دیا اور کس کو نیچے کر دیا! انسان نے کس چیز کو مقدم کرنا ہے اور کس چیز کو مؤخر کرنا ہے (مَّا قَدَّمَتۡ وَ اَخَّرَت) یہ فیصلہ خوداسے کرنا ہے. اور یہی ہے وہ کٹھن مرحلہ جو انسان کو ہر لحظہ طے کرنا پڑتا ہے . 
علامہ اقبال نے کہا تھا : ؎ 

بُتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟ 

شرک اور کس بلا کا نام ہے؟ شرک فی الاطاعت اگر کسی شے کا نام ہے تو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ یہاں نفس کو اللہ کے برابر کر دیا‘ بلکہ اُس سے بھی اوپر لے گئے. اللہ کا حکم تابع ہو گیا ہے نفس کی خواہش کے ‘اور یہی شرک ہے. اس کے لیے اگر کوئی سند چاہے تو قرآن مجید میں دو جگہ یہ مضمون آیا ہے . سورۃ الفرقان میں ارشادہے : اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ (آیت ۴۳’’(اے نبیؐ !) کیا آپ نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا؟‘‘اورسورۃ الجاثیۃ میں ہے : اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہ (آیت۲۳). قرآن مجید اپنے مطالب ومفاہیم میں بہت واضح ہے‘یہ کتابِ مبین ہے .اسلام میں داخلے کا نقطۂ آغاز یا بالفاظِ دیگر ’’شاہدرہ‘‘ کلمۂ طیبہ ہے: ’’لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ اور مذکورہ بالا آیات میں بھی یہی لفظ ’’اِلٰــہَ‘‘ آیا ہے کہ : اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہ ’’تو(اے نبیؐ !) کیا آپ نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا الٰہ بنا یا ہوا ہے؟‘‘زبان سے تو کہہ رہا ہے ’’ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ جبکہ اس کا اپنا نفس اور اپنی خواہش الٰہ بنی ہوئی ہے.

ہم ایک بہت بڑے مغالطے میں مبتلا ہیں. ہم سمجھتے ہیں کہ الٰہ اور معبود بس وہی ہے جس کے آگے ہاتھ جوڑ کر آدمی کھڑا ہو‘ جس کے سامنے سجدہ کیا جا رہا ہو‘ جس کی ڈنڈوَت کی جائے‘ کوئی چڑھاوا چڑھایا جائے. قبروں پر چڑھاوے چڑھائے جائیں تو 
ہماری رگِ توحیدی پھڑک اٹھتی ہے کہ یہ تو شرک اور کفر ہو رہا ہے! لیکن ہم اپنے نفس کے گلے میں جو ہار ڈالتے رہتے ہیں اور اپنے وجود کے اندر ہی اندر اپنے نفس کے آگے جو دست بستہ کھڑے رہتے ہیں یہ ہمیں نظر نہیں آتا ‘ صرف اس لیے کہ یہ ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے. لیکن ا س سے دھوکہ نہ کھایئے ‘جیسے وہ بُت الٰہ اور معبود ہے جس کو سجدہ کیا جا رہا ہے ویسے ہی یہ نفس بھی الٰہ اور معبود ہے جس کی خواہش کو اللہ کی مرضی پر مقدم کیا جارہا ہے. یہ نفس بھی مطالبہ کرتا ہے کہ مرضی میری چلے گی‘ میں نہیں جانتا اللہ کا حکم کیا ہے. بالکل وہی انداز ہے جیسے فرعون نے کہا تھا کہ اے موسیٰ! میں نہیں جانتا اپنے سوا تمہارے لیے کوئی الٰہ . یہ تم کس کا نام لے رہے ہو؟ میں مالک ہوں مصر کا ‘یہاں پر میرا حکم چلے گا. 

مولانا روم جو ترجمانِ حقیقت ہیں 
(۱‘‘ان کا بڑا پیارا شعر ہے : ؎ 

نفسِ ما ہم کم تر از فرعون نیست
لیک اُو را عون ایں را عون نیست

یعنی میرا نفس بھی فرعون سے کم نہیں ہے. جو اُس نے کہا تھا وہی یہ نفس کہتا رہتا ہے کہ میں نہیں جانتا کسی اللہ کو‘ میں نہیں مانتا اس کے حلال اور حرام کو‘ میں نہیں تسلیم کرتا اس کے کسی حکم کو‘ بلکہ مرضی میری چلے گی اور تمہیں ماننی پڑے گی‘ تمہیں میرے حکم کے سامنے سرجھکانا ہوگا. بس زبان سے میں یہ بات اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس فوج نہیں‘ لاؤ لشکر نہیں‘ جبکہ فرعون کے پاس لاؤ لشکر تھا‘ اس کے پاس بہت بڑا تختِ حکومت تھا‘ لہذا اُس نے زبان سے بھی کہہ دیا تھا : اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی (النّٰزعٰت) ’’میں ہی تمہارا ربِّ اعلیٰ ہوں‘‘.

تمام نقلی اور عقلی دلائل سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آ رہی ہے کہ تمام اطاعتیں اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے تابع ہو جائیں‘ کوئی اطاعت اللہ کی اطاعت کے ہم پلہ نہ ہو‘ 
(۱) مولانا روم کی مثنوی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :
’’مثنویٔ مولویٔ معنوی ہست قرآں در زبانِ پہلوی‘‘

اگرچہ اس میں بہت مبالغہ ہے‘ اس لیے کہ قرآن مجید کے ہم پلہ تو کوئی چیز نہیں ہو سکتی‘ لیکن یہ اس معنی میں کہا گیا ہے کہ قرآنی مضامین کو مولانا روم نے بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے. 
اس سے بالاتر نہ ہو تو یہ ’’توحید فی الاطاعت‘‘ ہے. اور اس کے برعکس جہاں بھی کوئی اطاعت اللہ کی اطاعت کے مساوی ہو گئی‘ یا اس سے بھی بالا ہو گئی‘ تو یہ ’’شرک فی الاطاعت‘‘ ہے.