عبادت میں دوسری لازمی چیز ’’محبت‘‘ ہے. اب دیکھئے ’’شرک فی المحبت‘‘ کیا ہے اور ’’توحید فی المحبت‘‘ کیا ہے. قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ کا بیسواں رکوع اس 
(۱) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ومن سورۃ التوبۃ. موضوع پر کلائمکس ہے. ارشادِ الٰہی ہے : 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵)
’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا کچھ ہستیوں کو (اس کے) مدّمقابل بنا لیتے ہیں‘ وہ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے محبت ہونی چاہیے‘‘.

یہاں ’’شرک فی المحبت‘‘ کا ذکر بھی آ گیا ہے اور ’’توحید فی المحبت‘‘ کا بیان بھی ہو گیا ہے.یعنی اگر کوئی ہستی یا کوئی ادارہ اتنا محبوب ہو جائے جتنا اللہ محبوب ہے‘ تو یہ ’’شرک فی المحبت‘‘ ہے. اسی طرح محبت کے اندر توحید کیا ہے؟ فرمایا گیا: 
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ’’اور جو لوگ واقعتا ایمان والے ہیں وہ سب سے زیادہ سخت ہیں اللہ کی محبت میں‘‘. یعنی ان کی ساری محبتوں پر غالب محبت اللہ کی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اصل امتحان ہی محبت کا امتحان تھا اور آپؑ سارے امتحانات میں پاس ہو گئے تھے. والدین کی محبت کو انہوں نے اللہ کی محبت پر قربان کر دیااور توحید کی خاطر والدین کے گھر کو چھوڑ دیا. اپنی قوم کی محبت کو اللہ کی محبت پر قربان کر دیا. وطن کو چھوڑ کر وطن کی محبت کو اللہ کی محبت پر قربان کر دیا. جیسے انہوں نے فرمایا تھا: 

اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾ (الصّٰفّٰت) 
’’یقینا میں تو اب اپنے ربّ کی طرف جا رہا ہوں‘ عنقریب وہ مجھے راہ یاب کر دے گا‘‘.

اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری آزمائش بیٹے کی محبت کی تھی .اور بیٹا بھی اکلوتا ‘جو ستاسی برس کی عمر میں دعائیں مانگ مانگ کر ملا ‘اور انتہائی حلیم الطبع بیٹا ‘ جس کے رُوئیں رُوئیں سے سعادت مندی اور نیکی پھوٹ رہی تھی.ذرا اندازہ کیجیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں اُس کے لیے کتنی محبت ہو گی! اب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آخری امتحان لیا کہ بیٹے کی محبت کہیں ہماری محبت سے بالاتر تو نہیں ہو گئی؟ ابراہیم! اسے بھی اگر تم ہمارے لیے ‘ ہمارے حکم کے تحت ذبح کر سکتے ہو تب تو واقعتا تم موحّد فی المحبت ہو گئے‘ 
اللہ کی محبت میں توحید کا مقام تم نے حاصل کر لیا ‘اور اگر یہاں ناکام ہو گئے تو جان لو کہ توحید کے امتحان میں ناکام ہو گئے. پھر تو معلوم ہوا کہ ایک محبت ابھی ایسی ہے جو دل کے سنگھاسن پر اللہ کی محبت کے برابر بیٹھی ہے یا اس سے بھی بالاتر ہو گئی ہے. یہ آخری امتحان تھا محبت کا ‘جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سرخرو ہو گئے اور یہ ہے ’’توحیدفی المحبت.‘‘
’’شرک فی المحبت‘‘ کی دلیل کے لیے بھی دو آیات پیش کی جا رہی ہیں. ایک تو وہ آیت جس کا ہم نے ابھی مطالعہ کیا:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵)

’’اور لوگوں میں کچھ وہ بھی ہیں جو اللہ کے سوا کچھ ہستیوں کو (اس کے) مدّمقابل بنا کراُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے محبت کرنی چاہیے‘‘. 

دوسری جگہ فرمایا گیا:

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ (التوبۃ)

’’(اے نبیؐ ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں اپنے باپ‘ اپنے بیٹے‘ اپنے بھائی‘ اپنی بیویاں‘ اپنے رشتہ داراور اپنے وہ مال جو تم نے بڑی محنت سے جمع کیے ہیں اور اپنے وہ کاروبار جن کی کساد بازاری کا تمہیں خوف رہتا ہے اور اپنے وہ مکانات جو تمہیں پسند ہیں (جنہیں تم نے بہت شوق اور ارمانوں سے بنایا ہے)زیادہ محبوب ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو جاؤ انتظار کرو (دفع ہو جاؤ) یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سامنے لے آئے. اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

اس لیے کہ یہ مشرک ہیں ‘یہ ’’شرک فی المحبت‘‘ کے اندر مبتلا ہیں. انہیں یہ آٹھ چیزیں اللہ 
سے اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں.

اب ذرا اس اصول کو الجبرا کے فارمولے کی طرح عملی زندگی میں 
apply کیجیے! قرآن مجید میں فرمایا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ (النساء:۱۳۵
’’اے اہل ایمان!انصاف کے علمبردار اور خداواسطے کے گواہ بنو اگرچہ وہ (انصاف کی بات اور گواہی) تمہارے اپنے خلاف یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف جاتی ہو‘‘.

آپ اپنے گروہی اور فرقہ وارانہ تصورات لیے بیٹھے ہیں‘ ان پر ذرا سی آنچ آتی ہے تو آپ تلملااٹھتے ہیں .اگر آپ کے بارے میں یہ کہا جائے کہ شرک سے بچے ہوئے آپ بھی نہیں ہیں تو بہرحال غصہ تو آئے گا. لیکن ذرا غور توکیجیے اور حقیقت کو سمجھئے‘ دوسروں پر شرک کے فتوے جڑ دینا آسان ہے‘ دوسرے کی آنکھ کے اندر تنکا بھی نظر آ جاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا. قرآن مجید سے سمجھئے کہ ’’شرک فی المحبت‘‘ کیا ہے.

مال سے انسان کو بہت محبت ہے.نبی اکرم کی ایک حدیث مبارکہ ہے.اسے آپؐ کی بددعا بھی کہا جا سکتا ہے اور خبریہ کلام بھی قرار دیا جا سکتا ہے. آپؐ نے فرمایا: 

تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ (۱
’’ہلاک ہو جائے (یا ہلاک ہوا) درہم و دینار کا بندہ.‘‘

دیکھئے نبی اکرم نے یہاں 
’’عبد‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے‘ جیسے سورۃ الفرقان کی آیت ۴۳ اور الجاثیہ کی آیت ۲۳ میں ’’الٰہ‘‘ کا لفظ لایا گیا ہے ‘ تاکہ کوئی اشکال اور اشتباہ باقی نہ رہے‘ اِدھر اُدھر سے بچ نکلنے کا کوئی موقع نہ رہے. جسے مال بہت محبوب ہے اسے آپؐ نے عبدالدرہم اور عبدالدینار کہا ہے. اس لیے کہ وہ چاہتا ہے کہ بس مال آنا چاہیے‘ چاہے حلال سے آئے یا حرام سے آئے. اب اگر آپ کے دل میں مال کی محبت اِس قدر ہے تو آپ کا محبوب اور معبود مال ہوا. اس لیے کہ جوچیز محبوب ہے وہی معبود (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللہ. ہے. اب آپ کے معبود دو ہو گئے. آپ اللہ کے لیے بھی سجدے کرتے ہیں اور مال بھی آپ کا معبود ہے ‘اگرچہ آپ لکشمی دیوی کو نہیں پوجتے ‘ خود اس کے پجاری بھی اس لکشمی کو نہیں پوجتے ‘ بلکہ دولت کو پوجتے ہیں‘ لکشمی تو درحقیقت اُن کے ہاں ایک علامت ہے ‘ پجاری تو اصل میں وہ دولت کے ہیں. اسی طرح ہم نے بھی اگرچہ لکشمی کودیوی قرار دے کر اس کی مورتی نہیں بنائی لیکن اس کی پوجا کا جو اصل مقصود ہے وہ تو ہم کر رہے ہیں. لہذا نبی اکرم نے فرمایا: ’’ہلاک ہو گیا (یا ہلاک ہو جائے) درہم و دینار کا بندہ‘‘. اب چاہے اس نے اپنا نام عبداللہ یا عبدالرحمن رکھا ہو لیکن اس کی اصل اور معنوی شخصیت عبدالدینار اور عبدالدرہم کی ہے. یہ خالص انفرادی سطح کی بات ہے اور محمدٌرسول اللہ یہ بات فرما رہے ہیں.