اب آیئے ’’محبت ‘‘کے معاملے میں جو عملی پہلو ہیں اُن پر غور کر لیا جائے. جان لیجیے کہ ’’محبت‘‘ اور چیز ہے اور ’’پرستش‘‘ اور چیز ہے. 
(۱چنانچہ وطن کی محبت اور چیز ہے اور وطن پرستی اور چیز ہے. وطن سے محبت اپنی جگہ ایک مطلوب اور قابلِ قدر جذبہ ہے. جسے وطن سے محبت نہ ہو وہ شخص بڑا بے غیرت ہے. جسے والدین سے محبت نہ ہو تو وہ شخص بڑا بے حمیت ہے. اپنے قبیلے اور قوم سے محبت نہ ہو توایسا شخص بے غیرت اور بے حمیت ہے. اب اگر یہ تمام محبتیں اللہ کی محبت کے تابع رہیں اور اللہ کی محبت ان سب کے اوپر ہو (۱) ماسوی اللہ کے لیے لفظ ’’عبادت‘‘ کے بجائے لفظ ’’پرستش‘‘ استعمال ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک طرح کی دیانت ہے. ہو تو یہ ’’توحید فی المحبت‘‘ ہے. اس کے برعکس اگر ایک محبت بھی اللہ کی محبت سے بالاتر ہو جائے یا برابر بھی ہو جائے تو وہ ’’شرک فی المحبت‘‘ ہے. 

اسی طرح سے ایک اور پرستش ہے ’’شخصیت پرستی‘‘. یہ بھی کوئی کم درجے کا شرک نہیں ہے. اگر کسی شخص کی محبت اورعقیدت آپ کو اندھا اور بہرا کر دے اور اس کی ہر بات آپ کے لیے سند ہو ‘ اس کی رضا جوئی ہی آپ کے پیشِ نظر رہے تو یہ شخصیت پرستی ہے اور یہ یقینا شرک ہے. یہی بات نبی اکرم  نے فرمائی ہے کہ : 
حُبُّکَ الشَّیْئَ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ (۱’’تیرا کسی شے سے محبت کرنا تجھے اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے‘‘.یہی محبت آج شخصیت پرستی کی شکل میں دنیا میں رائج ہے. اور قابل غور بات ہے کہ اس کو باقاعدہ ایک سیاسی تصور (political concept) کی حیثیت سے دنیا میں developکیا گیا ہے. گاندھی جی کے اسّی اسّی گز اونچے مجسمے کوئی مشغلے (hobby) کے طور پر نہیں تراشے گئے تھے‘ بلکہ اس وجہ سے تراشے گئے تھے کہ اس شخص کی عظمت لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہو جائے اور اُس سے محبت اور عقیدت رکھنے والے سب ایک دوسرے سے جڑے رہیں‘ جس طرح کہ وطن کی محبت اہل وطن کو مستحکم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے والی شے (unifying force) ہے. یہ شخصیت پرستی دنیا میں پہلے بھی ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہوتی ہے.

اس کو hero worship کا خوبصورت نام دیا گیا ہے. ہمارے ہاں مسلم لیگ کے زعماء میں سے ایک صاحب کا حال یہ تھا کہ وہ کبھی نماز کے قریب توپھٹکے نہیں تھے‘ لیکن اُن کا اپنا کہنا یہ تھا کہ ’’میں تو صبح ہی صبح قائد اعظم کی تصویر کو سلام کرتا ہوں اور بس یہی میری نماز ہے‘‘. اب یہ شخصیت پرستی (hero worship) نہیں تو اور کیا ہے؟اگر کوئی غیر یہ بات کرے تو ہم کہتے ہیں وہ بُت پرست ہے اور ہم ایسی بات کر کے بھی سمجھتے ہیں کہ ہم تو موحّدِکامل ہیں اور اس سے ہماری توحید میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا. ایسے ہی سٹالن کے مجسمے نصب کیے گئے اور اس کی تصویریں بچوں کے ذہنوں کے اندر اتاری گئیں‘تاکہ اس کی محبت اور عقیدت ذہنوں پر چھا جائے. اسی طرح ماؤ زے تنگ کے بُت تراشے (۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الادب‘ باب فی الھوی. گئے. تو یہ سب انسان پرستی اور شخصیت پرستی ہے .اور یہ ختم نہیں ہوئی‘ آج بھی اس کا وجود باقی ہے.

آج کے زمانے میں ایک اور محبت ’’ نظریے کی محبت‘‘ ہے. اگر کسی تصور یا نظریے کی محبت‘ چاہے وہ اشتراکیت کا نظریہ ہو یا کوئی اور انقلابی نظریہ ہو‘ انسان کے ذہن پر اس طرح غالب اور مستولی ہو جائے کہ اُس کا جینا اور مرنا اللہ تعالیٰ کے بجائے اُس نظریے کے لیے ہو جائے تو ‘معاذ اللہ‘ یہ اُس نظریے کی پرستش ہے. گویا ایک نظریے اور ایک نظام کو پوجا جا رہا ہے. کسی نے بڑا پیارا شعر کہا ہے : ؎ 

اِک تصور کے حسنِ مبہم پر ساری ہستی لٹائی جاتی ہے
زندگی ترکِ آرزو کے بعد کیسے سانسوں میں ڈھالی جاتی ہے!

انسان کے اندر جب تک کوئی آرزو نہ ہو ‘ کوئی آدرش نہ ہو‘ کوئی نصب العین نہ ہو تو جینے کا مزا ہی کیا ہے! پھر تو وہ انسان نہیں بلکہ حیوان ہے‘ اُس کی زندگی محض سانسوں میں ڈھالی ہوئی زندگی ہے ‘ وہ محض human vegetable ہے. لیکن نصب العین صرف ایک ہی صحیح ہے‘ اور وہ ’’اللہ کی محبت‘‘کا نصب العین ہے. جب کوئی اورنصب العین اس جگہ پر آ کر منطبق ہو گیا تو یہی تو شرک ہے. جیسے ارشادِ الٰہی ہے : 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵

’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا کچھ ہستیوں کو (اُس کے) مدّمقابل بنا لیتے ہیں‘ وہ اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے محبت ہونی چاہیے .او رجو لوگ واقعتا ایمان والے ہیں وہ سب سے زیادہ سخت ہیں اللہ کی محبت میں‘‘. 
مَیں یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ ’’وطنیت کا نظریہ‘‘ اس دَور کے بہت بڑے شرک کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آیا ہے ‘لیکن ہمارا کوئی بھی عالمِ دین اس کو نہیں سمجھ سکا . اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے علماء نے بدقسمتی سے مغرب کے فلسفے کا مطالعہ نہیں کیا. یہ اپنے 
تصورات کے پیشِ نظر ‘یہ سمجھتے رہے کہ وطنیت (nationalism) شاید حبّ الوطنی ہے! لیکن اس دَور میں علامہ اقبال نے اس کو خوب سمجھا ہے. ان کا بڑا پیاراشعرہے : ؎ 

مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں اِس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل! 

یعنی میں جدید تہذیب و تمدن اور جدید عمرانی نظریات کی آگ میں ڈالا گیا ہوں‘ جیسے ابراہیم علیہ السلام کوآگ میں ڈالا گیا تھا. میں جانتا ہوں کہ مغرب کے اِن نظریات اور فلسفے کے پس پردہ کیا کچھ ہے جو اِس اجتماعی زندگی کی بنیاد بنے ہیں ‘اور مسلمان اُمت کو اِس سے آگاہ کرنا اور ان کا ردّ کرنا میرا امتحان ہے. علامہ اقبال کو اس چیز کا براہِ راست مشاہدہ تھا‘ جبکہ ہمارے علماء اس کو نہیں سمجھ سکے .یہ کتاب و سنت کے علم سے خوب واقف ہیں. میں کہا کرتا ہوں کہ علم دین کے اعتبار سے ہمارے علماء کی شخصیتیں منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم جیسی ہیں‘ لیکن جب تک یہ علم اِس دَور کی زمین تک نہ پہنچے تو وہ ڈیم میں کھڑے اُس پانی کی مانند ہے جو تب ہی فائدہ مند ہوتا ہے جب وہ زمین تک پہنچے. اس اہم کام کے لیے تقسیم کے ذرائع (distribution channels) درکار ہیں جو اِس علم کو آگے پہنچائیں.لیکن بدقسمتی سے وہ چینلز آج نہیں رہے. رابطے کا ایک خلاء (gap of communication) بیچ میں حائل ہے کہ بات آگے پہنچ نہیں پا رہی. لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اِس دَور کے نظریات کو سمجھا جائے. اس لیے کہ اِس دَور کا شرک تب ہی سمجھ میں آئے گا جب گہرائی میں اُتر کراس دَور کے نظریات کو سمجھا جائے. یہ بات اگرچہ چھوٹی اور غیر اہم محسوس ہوتی ہے لیکن بعض بظاہر چھوٹی باتیں تِل کے اوٹ میں پہاڑ کی مانند ہوتی ہیں. 

ایک صاحب نے جھنڈے کی عظمت اور اس کے وقار کو بچانے کی بات کی ہے. یہ بات اپنی حد تک درست بلکہ ضروری ہے‘ لیکن جھنڈے کو دیکھ کر کھڑے ہو جانا‘ اسے سلامی دینا‘ یہ ثابت کیجیے محمدٌ رسول اللہ سے! یہ تو 
قنوت للعَلَم ہے کہ آپ جھنڈے کے آگے ہاتھ باندھ کر باادب کھڑے ہو جائیں. یہ میرے نزدیک شرک ہے‘ ورنہ جھنڈے کی عظمت اور وقار کو بچانا اپنی جگہ مسلّم ہے. جیسے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے غزوۂ اُحد میں اپنی جان کی قربانی دے دی لیکن جھنڈے کو نہیں گرنے دیا. ایسے ہی حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہمانے کیا. لیکن جھنڈے کو سلامی دینا اور اس کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے ہو جانا قطعاً جائز نہیں ہے.حضرت محمدٌ رسول اللہ نے تو اپنے لیے کھڑا ہونے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منع فرما دیا تھا.حضرت ابواُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم کے تشریف لانے پر آپؐ کے لیے احتراماً کھڑے ہوگئے تو آپؐ نے فرمایا:

لَا تَقُوْمُوْا کَمَا تَقُوْمُ الْاَعَاجِمُ یُعَظِّمُ بَعْضُھَا بَعْضًا (۱
’’تم لوگ (میرے تشریف لانے پر) کھڑے نہ ہو جایا کرو جیسے کہ عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں.‘‘

تو ’’حبّ الوطنی‘‘ اور چیز ہے اور ’’وطن پرستی‘‘ اور چیز ہے. اِن دونوں چیزوں میں جب تک فرق نہیں کریں گے اور ان کو علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے مقام پر نہیں رکھیں گے تو ذہنوں میں لازماً اشکا ل پیدا ہو جائیں گے.