’’مراسمِ عبودیت‘‘ صرف اللہ کے لیے ہیں


عبادت کا تیسرا جزو ہے ’’مراسمِ عبودیت‘‘. رکوع کرنا‘ سجدہ کرنا‘ کسی کے لیے مؤدب ہو کر کھڑے ہونا‘ نذر پیش کرنا اور نذر ماننا یہ سب مراسمِ عبودیت ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے روا ہیں. اگر کوئی غیر اللہ کے لیے یہ مراسمِ عبودیت انجام دیتا ہے تو یقینا غلطی پر ہے اور اس کا یہ عمل شرک ہے ‘چاہے اُس کی نیت شرک کی نہ ہو. اس لیے کہ اُس کے اِس عمل سے نہ معلوم کتنے لوگ گمراہ ہو جائیں. محمدٌ رسول اللہ پر جب دین کی تکمیل ہوئی تو سجدۂ تعظیمی بھی حرام قرار دے دیا گیا ‘ حالانکہ اس سے پہلے سجدۂ تعظیمی جائز تھا. کسی کے ادب اور تعظیم کے لیے اُس سے جھک کر ملناانسان کی فطرت اور جبلت 
(۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الادب‘ باب فی قیام الرجل للرجل. میں ہے.

کوئی کسی بزرگ سے جب ملتا ہے تو ذرا جھک جاتا ہے. پچھلے زمانے میں یہ جھکنا رکوع کی حد تک اور اُس سے بھی آگے بڑھ کر سجدے کی حد تک چلا جاتا تھا‘ اور کسی کے سامنے تعظیماً رکوع اور سجدہ کرنا‘بغیر اس عقیدے اور تصور کے کہ اُس میں کوئی الوہیت یا خدائی اختیارات ہیں‘ ممنوع اور حرام نہیں تھا. لیکن جب محمدٌ رسول اللہ پر ہدایتِ ربّانی کی تکمیل ہوئی تو وہ تمام دروازے بند کر دیے گئے جہاں سے یہ گمراہی اوربیماری نقب لگا کر اِس اُمت میں دَر آ سکتی تھی. لہذا اس سجدۂ تعظیمی کو مستقلاً حرام قراردے دیا گیاکہ اب کسی نیت سے بھی غیر اللہ کو سجدہ نہیں ہو گا‘ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے.

اس معاملے میں حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت عظمت کا ایک روشن مینار ہے. آپؒ حالانکہ صوفیاء کے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں‘تصوف کے میدان کے مجدّد ہیں‘ آپؒ کا اصل تجدیدی کارنامہ تصوف کے میدان ہی میں ہے‘ لیکن یہ شخص سجدۂ تعظیمی کے باب میں حکومتِ وقت سے ٹکرا گیا. بقول اقبال : ؎ 

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمی ٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

واقعہ یوں ہے کہ سجدۂ تعظیمی مغل دربار کے اندر رائج تھا. مجدد الف ثانی ؒ نے فتویٰ دیا کہ یہ ناجائز ہے اور شرک ہے. اب علماءِ سوء یعنی سرکاری درباری علماء جو حاسدین تھے بہت خوش ہوئے کہ اب یہ شخص صحیح گرفت میں آیا ہے‘ اس کی بادشاہ کے سامنے پیشی کرائی جائے. یہ سجدہ نہیں کرے گا تو بادشاہ کو خود بخود پتا چل جائے گا کہ اس کے دل میں باغیانہ خیالات ہیں. چنانچہ بادشاہ کو حضرت مجدّد ؒ کے خلاف بھڑکایا گیا اور اُن کی بادشاہ کے سامنے پیشی طے ہو گئی.

اب اہتمام یہ کیا گیا کہ بادشاہ کے سامنے پیش ہونے کے لیے انہوں نے جہاں سے آنا تھا وہاں ایک دیوار بنا کر اس میں ایک چھوٹی کھڑکی رکھی گئی کہ بادشاہ کے سامنے پیش ہونے کے لیے اس میں سے گزریں گے تب تو سر کوجھکائیں گے . لیکن حضرت مجدّد الفِ ثانی ؒ نے اس میں سے نکلتے ہوئے ٹانگیں پہلے نکالیں اور سر بعد میں نکالا کہ یہ شائبہ بھی پیدا نہ ہو کہ اُن کی گردن جہانگیر کے آگے جھکی تھی. اس لیے کہ یہ گردن صرف اللہ کے سامنے جھکنے کے لائق ہے. یہ قلم تو ہو سکتی ہے لیکن اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھک نہیں سکتی. لہذا جہاں جہاں بھی مراسمِ عبودیت اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ادا ہو رہے ہیں‘ چاہے قبر کو سجدہ ہو رہا ہے یا کسی اور چیز کو ‘وہ شرک ہے.