نذر بھی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے.چنانچہ نذر اگر ماننی ہے تو صرف اللہ کے لیے مانی جائے ‘ کسی اور کے لیے قطعاً نہیں. اوّل تو اسلام کا مزاج یہ ہے کہ نذر کو پسند ہی نہیں کرتا. یہ تو گویا بنیاپن کی ذہنیت اور گھٹیا سا انداز ہے کہ اے اللہ! اگر میرا یہ کام ہوجائے تو میں یہ کروں گا اور یہ کام ہو جائے تو میں دو نفل پڑھوں گا. تم نے گویا اپنے دو نفلوں کی بڑی قیمت سمجھی ہے. اللہ سے یہ سودے بازی نہ کرو ‘ بلکہ جو کر سکتے ہو کرو اور اس سے جو بھی مانگنا ہے مانگو. اس کے ہاں مانگنے پر کوئی قدغن نہیں ہے.نبی اکرم سے کسی صحابی ؓ نے نذر کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا :

اَلـنَّذْرُ لَا یُقَدِّمُ شَیْئًا وَلَا یُؤَخِّرُہٗ ‘ وَاِنَّمَا یُسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیْلِ (۱
’’نذر کسی شے کو نہ آگے کرتی ہے نہ پیچھے کرتی ہے‘ اس سے تو بس بخیل سے کچھ نکلوا لیا جاتا ہے.‘‘

یعنی جو لوگ بخل سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ نذر کے ذریعے ان سے کچھ نکلوا لیتا ہے.

لیکن بہرحال اگر نذر مانی ہو تو اس کو پورا کرنا لازم ہے. نیک لوگوں کی صفات میں ارشادِالٰہی ہے : 

یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا ﴿۷﴾ (الدھر/الانسان)
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب النذر‘باب النھی عن النذروانہ لا یرد شیئا. ’’یہ لوگ (دنیا میں) نذر پوری کرتے ہیں اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی‘‘.

ایسا نہ ہو کہ کام ہو گیا ہے تو اب جو تھوڑا بہت مانا تھا آدمی اس کو بھی کرنے کو تیار نہ ہو. بہرحال نذر بھی صرف اللہ کے لیے ہے‘ کسی اور کے لیے نہیں ہے. اگر کسی اور کے لیے نذر مانی گئی تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس کو قادرِ مطلق سمجھا گیا ہے‘ حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا گیا ہے.نذر جس کے لیے بھی ہو گی اس کے لیے یہی تصور ذہن میں ہو گا اور یہی تو شرک ہے.