عبادت کے اجزاء میں سے چوتھی چیز دعاہے . ارشادِ نبویؐ ہے: 
اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (۱’’دعا عبادت کا جوہر ہے‘‘. اور: اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (۲’’دعا ہی عبادت ہے‘‘. ارشادِ الٰہی ہے : 

وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ ﴿٪۶۰﴾ (المؤمن) 

’’اور تمہارے ربّ نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو ‘میں تمہاری پکار (دعا) کو قبول کروں گا. یقینا جو لوگ میری عبادت سے استکبار کرتے ہیں (گھمنڈ کرتے ہیں) وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ذلیل و رسوا ہو کر‘‘.

یہ آیت بڑی اہم ہے. اس کے پہلے ٹکڑے میں لفظ ’’دعا‘‘ اور دوسرے ٹکڑے میں لفظ ’’عبادت‘‘ آیا ہے. یعنی دعا سے اِباء کرنا دراصل عبادت سے اِباء کرنا ہے. اگر اللہ کو پکارتے نہیں ہوتو تمہارے اندر استغناء اور تکبرہے ‘ تم اپنے آپ کو کچھ سمجھے ہوئے ہو.مقامِ بندگی یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو محتاجِ محض شمار کرے .اس پر قرآن مجید میں جو نقطہ ٔ عروج ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے: 

رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ (القصص) (۱)سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات عن رسول اللہ ‘ باب منہ.
(۲) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ومن سورۃ البقرۃ. 
’’اے میرے پروردگار! میں تو فقیر ہوں ہر اُس شے کا جو تو میری جھولی میں ڈال دے‘‘.

ایک فقیر ہوتا ہے پھنے خاں قسم کا کہ دس روپے کا نوٹ ملے تو لے لیتا ہے اور اگر ایک دو روپے کے سکّے ملیں تو پھینک دیتا ہے‘ جبکہ ایک فقیر وہ ہوتا ہے کہ ایک پائی بھی اسے مل جائے تو وہ اس کا بھی محتاج ہے. لہذا بندگی کا تقاضا ہے کہ اللہ کے سامنے محتاجی ہی محتاجی ہو. اس لیے کہ عبد تو ہے ہی محتاج اور مقامِ عبدیت تو ہے ہی مقامِ احتیاج. جامۂ استغناء تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتا ہے. جیسے فرمایا گیا ہے: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَ اللّٰہُ ہُوَ الۡغَنِیُّ الۡحَمِیۡدُ ﴿۱۵﴾ (فاطر) 

’’اے لوگو! تم سب کے سب فقیرہو (محتاج ہو) اللہ کی جناب میں‘ اور اللہ تو بے نیاز‘ ستودہ صفات ہے‘‘.
رسول اللہ نے اس کی بڑی پیاری مثال بیان فرمائی ہے کہ ’’بندوں کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اُن سے تم سوال کرتے ہو تو انہیں ناگوار گزرتا ہے‘ جبکہ (اس کے برعکس) اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے سوال نہیں کرتے تو اسے ناگواری ہوتی ہے‘‘. اللہ کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے کہ میرے بندے مجھ سے مانگتے نہیں. ؎ 

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہ روِ منزل ہی نہیں! 

مذکورہ بالا آیت وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ فعل امر پر مشتمل ہے کہ ’’تمہارے ربّ نے کہا ہے کہ مجھے پکارو (مجھ سے دعا کرو ) میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘.
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ ﴿٪۶۰﴾ (المؤمن) 
’’یقینا جو لوگ میری عبادت سے استکبار کرتے ہیں (گھمنڈ میں مبتلا ہیں) وہ عنقریب داخل ہوں گے جہنم میں ذلیل و رسوا ہو کر‘‘.

دعا کرنے اور پکارنے میں توحید یہ ہے کہ ایک اللہ کو پکارنا دیگر تمام پکاروں سے مستغنی کر دے. اگر ایک اللہ کے پکارنے نے تمہیں مستغنی نہیں کیا اور اللہ کا پکارنا 
کافی نہیں ہے تو پھر اللہ کو تمہارے پکارنے کی قطعاً ضرورت نہیں‘ پھر انہی کو پکارو‘ اللہ تو بڑا غیور ہے. اگر اللہ کو پکارنے کے بعد بھی کسی اور کو پکارنے اور اس سے مانگنے کی کچھ بھی احتیاج اور امکان باقی ہے تو یہ ’’شرک فی الدعاء‘‘ ہے. اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے : 

وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾ (الجنّ)
’’اور یہ کہ مسجدیں (یا وہ اعضاءِ انسانی جن کے اوپر سجدہ ہوتا ہے) سب اللہ کے لیے ہیں‘ پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو‘‘.

دیکھئے یہاں 
’’مَعَ اللّٰہِ‘‘ کا لفظ ہے کہ اللہ کے ساتھ ساتھ کسی اور کو بھی پکارا جا رہا ہے تو یہ شرک ہے. اور اگر کسی کو اطاعت و محبت اور دعا کے معاملے میں اللہ سے بھی اوپر کر دیاتو یہ شرک سے بھی بڑھ کر گمراہی ہے. اور اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارنے کے بجائے کسی اور کو ہی پکارا جا رہا ہو تو یہ تو ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا والی بات ہے. اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک! لہذا اللہ تعالیٰ کے علاوہ یا اُس کے ساتھ کسی اور کو مت پکارا جائے. یہ ہے ’’توحید فی الدعاء‘‘ . ہم نماز کی ہر رکعت میں اللہ تعالیٰ سے اسی کا وعدہ کرتے ہیں کہ: اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ عبادت کا لبِّ لباب اور جوہر چونکہ دعا ہے اور دعا ہی اصل عبادت ہے لہذا ہمیں یہ الفاظ سکھائے گئے ہیں: اِیَّاکَ نَعۡبُدُ ’’(اے اللہ!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے‘‘ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ’’اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے‘‘.
دُعا کے ضمن میں ایک اور باریک بحث بھی سمجھ لیجیے! استمداد‘ استدعا‘ استنصار اور استغاثہ یہ سب ایک ہی قبیل کے عربی الفاظ ہیں. استمداد کا مطلب ہے کسی سے مدد طلب کرنا‘ استدعا یہ ہے کہ کسی کے سامنے کوئی درخواست پیش کرنا‘ استنصار سے مراد ہے کسی سے نصرت چاہنا اور استغاثہ یہ ہے کہ کسی کی دہائی دینا. اس کی دو شکلیں ہیں. ایک شکل ہے باسبابِ ظاہری کسی سے کوئی مدد طلب کرنا. مثلاً میں کسی سے کہتا ہوں کہ مجھے ذرا پانی لا کر پلا دیں تو میں نے ایک طرح سے اُس سے مدد طلب کی. ظاہری اسباب اور 
قوانین طبیعی کے اندر اندر کسی سے کچھ مانگنے اور مدد طلب کرنے کے بارے میں تین باتیں جان لینا ضروری ہیں. پہلی بات یہ کہ اس ضمن میں محمدٌ رسول اللہ نے یہ تلقین کی ہے کہ حتی الامکان کسی سے مدد نہ مانگو‘ بلکہ اپنے کام خود کرو. نبی اکرم کا اپنا مزاجِ گرامی تو یہ تھا کہ اگر آپؐ اونٹنی پر سوار ہوتے اور کوڑا زمین پر گر جاتا تو کسی اور سے کہنے کے بجائے اونٹنی کو بٹھاتے اور اتر کر خود ہی کوڑا اٹھا لیتے‘ تاکہ اسبابِ ظاہری کے اندر بھی کوئی مشابہت پیدا نہ ہو جائے.

لیکن بہرحال اسبابِ ظاہری کے تحت کسی سے کوئی تعاون طلب کرنا‘ کسی سے مدد چاہنا اگرچہ یہ بھی ایک طرح کی دعا اور پکار ہے مگر اس میں شرک کا پہلو نہیں ہے‘ بلکہ یہ اپنے اپنے مزاج سے متعلق ہے. البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ بات دل میں بیٹھ جائے کہ یہ شخص میرا کام کر سکتا ہے اور اس وجہ سے اُس کے سامنے گریہ و زاری بھی ہو رہی ہواور تضرّع بھی ہو رہا ہو تو یہ ایک درجے میں شرکِ خفی بن جاتا ہے. اُس وقت دراصل آدمی حجاب اور مغالطے میں آ چکا ہوتا ہے اور’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ کی نفی کر دیتا ہے. اس ضمن میں صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ کسی شخص سے کچھ مانگنا ہے تو اس عقیدے اور یقین کے ساتھ مانگو کہ وہ شخص تمہارے لیے صرف وہی کچھ کر سکے گا جو اللہ چاہے گا. یعنی اللہ ہی اس کے دل میں بات ڈالے گا کہ وہ تمہارے لیے وہ کام کرے. بہرحال اسبابِ ظاہری کے ساتھ جتنا شغل اور شغف روا ہے اس سے زائدجب ہو جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ظاہری اسباب و وسائل پر ہی تکیہ‘ بھروسہ اور یقین و ایمان پیدا ہو گیا ہے. 

آپ اپنی بڑی بوڑھیوں کو دیکھتے ہوں گے کہ جب وہ بچے کو دوا پلا رہی ہوتی ہیں تو شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ ’’اللہ شافی‘ اللہ کافی‘‘. مریض کو دوا پلانا تو رسول اللہ کی سنت اور ہدایت ہے‘ لیکن توحید یہ ہے کہ توکل اور بھروسہ دوا پر نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پر ہوکہ دوا میں تأثیر تب ہو گی اگر اللہ چاہے گا‘ شافی اصل میں دوا نہیں ہے بلکہ اللہ ہے. اللہ چاہے تو بغیر دوا کے بھی شفا دے دیتا ہے. وہ شافی بھی ہے اور کافی بھی ہے. لیکن اس کے برعکس کیفیت وہ ہوتی ہے کہ گھلے جا رہے ہیں اس صدمے سے کہ ہم 
اپنے بچے کے لیے فلاں ڈاکٹر کا علاج نہیں کرا پا رہے ‘ یا علاج کے لیے امریکہ یا انگلستان نہیں بھیج پا رہے. اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اصل تکیہ اور توکّل خدا کی ذات کے بجائے دوا پر ہو گیا ہے. نادانوں کو یہ معلوم نہیں کہ امریکہ اور انگلستان میں بھی لوگ مرتے ہیں. سارے آپریشنز اور جدید ترین علاج کے باوجود موت کا علاج تو وہاں بھی نہیں ہے اور بہترین معالجوں کے ہاتھوں بھی غلطیاں ہوتی ہیں. امریکہ میں تو اس سپیشلائزیشن کے دَور میں بھی بڑے بڑے بلنڈرز اور حماقتیں ہو رہی ہیں. ایسا ہرگز نہیں ہے کہ شفا اُن کے ہاتھ میں ہے. صحیح طرزِ عمل یہی ہے کہ جتنے کچھ اسباب و وسائل ہماری استطاعت میں ہیں اُن سے استفادہ کریں اور عقیدہ یہ رکھیں کہ شفا صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے. اللہ تعالیٰ ‘معاذ اللہ‘ ان وسائل کا محتاج نہیں ہے‘ وہ جو کرنا چاہے بغیر کسی سبب کے خود کرنے پر قادر ہے. اور اسباب میں بھی کوئی تأثیر نہیں ہے جب تک اللہ نہ چاہے. شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنے بچے کو نصیحت کرتے ہوئے صد فی صد درست کہا تھا کہ : لَا فَاعِلَ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَلَا مُؤَثِّرَ اِلَّا اللّٰہُ ’’فاعلِ حقیقی اور مؤثرِ حقیقی اللہ کے سوا کوئی نہیں‘‘.تو ظاہری اسباب میں بھی جب آدمی کسی کے سامنے گڑگڑائے‘ اپنے آپ کو اس کے سامنے ذلیل کرے اور اپنی عزتِ نفس کا دھیلہ کرے یہ سمجھ کر کہ بس یہی میرا کام کر سکتا ہے اور اسی کے ہاتھ میں میرا خیر یاشر ہے تو وہاں شرکِ خفی کی آمیزش پیدا ہو جاتی ہے. البتہ ظاہری اسباب سے بالاترہو کر اللہ کے سوا کسی کو ہرگز نہیں پکارا جا سکتا‘ نہ کسی ولی کی روح کو ‘ نہ کسی نبی کی روح کو اور نہ کسی فرشتے کو.کسی غیر اللہ کے لیے استمداد‘ استدعا‘ استنصار اور استغاثہ کُل کا کُل شرک ہے.

اس ضمن میں ایک لطیف سی بحث اور بھی ہے جس کی میں وضاحت کر دینا چاہتا ہوں. صوفیاء کے ہاں یہ رائے بڑی عام اور پھیلی ہوئی ہے کہ اولیاء اللہ کی روحیں انتقال کے بعد ملائکہ کے طبقۂ اسفل کے ساتھ شامل کر دی جاتی ہیں. ملائکہ اللہ تعالیٰ کی اس عالمی حکومت کے کارندے ہیں. یہ اس کی سول سروس ہے کہ فلاں حکم کی تنفیذ کے لیےاسے فلاں فرشتے کے حوالے کر دیا جائے. واضح رہے کہ حکم اللہ تعالیٰ ہی کاہوتا ہے. 
فرشتوں کے بارے میں قرآن حکیم میں آیا ہے : 

لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶﴾ (التحریم) 

’’وہ (فرشتے) اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘.
ملائکہ کے مختلف طبقات ہیں. یعنی ملأ اعلیٰ‘ ملائکہ مقربین‘ ساتوں آسمانوں کے ملائکہ اور پھر 
ملائکۃ الارض. ملائکۃ الارض جو ہیں وہ طبقۂ اسفل ہے‘ یعنی سب سے نچلا طبقہ جو یہاں اللہ کے احکام کی تنفیذ میں لگا ہوا ہے. تو ایک رائے یہ ہے کہ اولیاء اللہ کی ارواح کو بھی اُن کے انتقال کے بعد ملائکہ کے طبقۂ اسفل میں شامل کر دیا جاتاہے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی سول سروس میں شریک ہو جاتے ہیں. مجھے اگرچہ کتاب و سنت سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملی کہ میں حتمی طور پر یہ کہہ سکوں کہ یہ رائے درست ہے ‘ لیکن یہ خارج از امکان بھی نہیں ہے اور میرے نزدیک اِس کو مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے. شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے ساتھ مجھے ایک گہری محبت ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپؒ قرآن و سنت کا بہت گہرا فہم رکھتے تھے. انہوں نے بھی یہ رائے ظاہر کی ہے اور احادیثِ مبارکہ سے دلائل بھی دیے ہیں. ایک دلیل آپؒ یہ لائے ہیں کہ جب غزوۂ موتہ میں حضرت جعفر بن ابی طالب(جعفر طیار) رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور اُن کے دونوں بازو کٹ گئے تو رسول اللہ نے فرمایا: 

رَاَیْتُ جَعْفَرًا یَطِیْرُ فِی الْجَنَّۃِ مَعَ الْمَلَائِکَۃِ (۱
’’میں نے دیکھا کہ جعفر ؓ ملائکہ کے ساتھ جنت میں اڑتے پھر رہے ہیں.‘‘

اگرچہ اس حدیث مبارکہ کی رو سے یہ معاملہ شہداء سے متعلق ہے‘ لیکن اگر اس دلیل کو مان بھی لیا جائے کہ ملائکہ کے طبقۂ اسفل میں اولیاء اللہ کی ارواح بھی شامل ہو جاتی ہیں اور احکامِ خداوندی کی تنفیذ میں ملائکہ کے ساتھ وہ بھی شامل ہو جاتے ہیں‘ پھر بھی اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکلتا کہ ان کو پکارا جائے. یہ تو خیر طبقۂ اسفل سے متعلق ہیں‘ ملأ اعلیٰ کو پکارنا بھی شرک ہے. اگر کوئی کہے کہ 
یَا جِبْرَاءِ یْلُ اَغِثْنِیْ ’’اے جبرائیل! میری مدد (۱) رواہ الطبرانی عن ابن عباس رضی اللہ عنہما. کو پہنچو‘‘ تو یہ شرک ہو جائے گا.پکارا جائے گا صرف اللہ کو. وہ مدد کے لیے چاہے جبرائیل کو بھیجے‘ میکائیل کو بھیجے یا کسی ولی اللہ کی روح کو بھیج دے‘ یہ اُسی کا کام ہے. ہمیں اجازت نہیں ہے کسی اور کو پکارنے کی. ہمیں بس یہی حکم ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو پکارو.ازروئے الفاظِ قرآنی : فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾ (الجن) ’’پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو!‘‘اور: وَ لَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۘ (القصص:۸۸)’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکار‘‘. اگر کوئی شخص علمی اعتبار سے اولیاء اللہ کے بارے میں مذکورہ بالا رائے رکھتا ہے تو اس میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے‘لیکن اگر ان کو پکارا جائے گا تو یہ شرک ہو جائے گا. مافوق العادت یعنی قانونِ طبیعی و ظاہری سے اوپر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو پکارا جائے تو اس کے شرک ہونے میں قطعاً کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں.