عبادت کا پانچواں اور آخری جز و ’’اخلاص‘‘ ہے جو عبادت کی قبولیت کی شرطِ لازم ہے . اس کی ضد ہے ریا اور سُمعہ ‘یعنی لوگوں کو دکھانے اور سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرنا کہ لوگ میری مدح و ستائش کریں. ان کے شرک ہونے میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے‘ اور ان کا شرک ہونا رسول اللہ نے خوب واضح کیا ہے. ایک حدیث نبویؐ ملاحظہ ہو :

مَنْ صَلّٰی یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ (۱
’’جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی وہ شرک کر چکا‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا وہ شرک کر چکا اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا وہ شرک کر چکا.‘‘

عربی زبان میں فعل ماضی پر جب 
’’قَدْ‘‘ لگتا ہے تو یہ ماضی قریب یا Present Perfect Tense کا مفہوم پیدا کرتا ہے کہ فلاں کام قطعی اور یقینی طو رپر ہو چکا‘ اس میں (۱) مسند احمد. کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. رسول اللہ نے ہماری ہدایت اور رہنمائی کے لیے اسے اس قدر باریک بینی کے ساتھ واضح کیا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو اور وہ یہ دیکھتے ہوئے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے ‘نماز ذرا رُک رُک کر اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا شروع کر دے‘ سجدہ ذرا طویل کر دے تو یہ ’’شرکِ خفی‘‘ ہے. میں مثال کے طور پر بیان کیا کرتا ہوں کہ اگر آپ نماز پڑھ رہے ہوں اور آپ کو کوئی دیکھ نہ رہا ہو تو آپ معمول کے مطابق تین سیکنڈ کا سجدہ کریں‘ لیکن جب آپ دیکھیں کہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے تو اب آپ کا سجدہ پانچ سیکنڈ کا ہو جائے ‘تو آپ سوچیں کہ مزید دو سیکنڈ کا سجدہ کس کے حساب میں ہے؟ جان لیجیے کہ آپ کا تین سیکنڈ کامعمول کا سجدہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہے ‘جبکہ دو اضافی سیکنڈ کے سجدے کا مسجود اللہ نہیں ہے بلکہ وہ ہے جسے آپ دکھا رہے ہیں. گویا ایک سجدے کے دو مسجود ہو گئے اور یہی شرک ہے. رسول اللہ نے اسے ’’شرکِ خفی‘‘ کہا ہے‘ اعاذنا اللہ من ذٰلک. ’’شرکِ خفی‘‘ کے بارے میں رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ اس کا دیکھنا اور پہچاننا اتنا ہی مشکل ہے جتنا انتہائی تاریک رات میں سیاہ پتھر پر رینگتی ہوئی ایک سیاہ چیونٹی کو دیکھنا مشکل ہے. اب سوچیے کہ کون بچے گا اس شرک سے؟ 

شرک کی معین کردہ تین اقسام سامنے آ جانے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے بارے میں یہ کہہ دے کہ میرا یہ بندہ مشرک نہیں ہے. اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: 
وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾ (البقرۃ) ’’اوروہ (یعنی میرا بندہ ابراہیم) مشرکین میں سے نہیں تھا‘‘.معلوم ہوا کہ جو کچھ کہا جا سکتا تھا ا س ایک جملے میں کہہ دیا گیا. اس سے بڑی مدح و ستائش اور شاباش اور کیا ہو گی اور اس سے بڑی سند‘ اس سے بڑا سر ٹیفکیٹ اور شہادت نامہ ‘ (testimonial) اور کیا ہو گا کہ ’’میرا فلاں بندہ مشرکین میں سے نہیں تھا‘‘.یہی بات ہے جو بڑے پیارے انداز میں اقبال نے کہی ہے : ؎
 
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں

اپنے سینوں کے اندر جو بُت کدے آباد ہیں اِن کی طرف انسان کی نظر نہیں جاتی‘ جبکہ باہر کے بُت کدے نظر آ جاتے ہیں. آپ نے گنیش جی کا بُت پوجتے ہوئے کسی کو دیکھا تو کہا یہ شرک ہے. آپ نے کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے کسی کو دیکھا تو کہا یہ شرک ہے. آپ نے کسی کو کسی غیر اللہ کو پکارتے ہوئے سنا تو کہا یہ شرک ہے. یہ بات درست ہے. اس چیز کے شرک ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے. لیکن اپنی نگاہ کو ذرا اور وسیع کیجیے اور دیکھئے کہ آپ کے عقیدے اورعمل میں کہاں کہاں شرک کی آمیزش ہے. خاص طو رپر اس دَور کے جو شرک ہیں ان کو سمجھئے! یہ مادہ پرستی کا شرک‘ وطن پرستی کا شرک‘ شخصیت پرستی کا شرک‘ اپنی ہوا و ہوس کو پوجنے کا شرک اور خود پرستی کا شرک کہ خود اپنے آپ کو پوج رہے ہیں ؏ ’’اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں‘‘ اپنی ہی ذات اور نفس کے گرد انسان طواف کیے چلا جا رہا ہے ‘ یہ اصل میں اس دَور کے شرک ہیں جن کو سمجھنا ہو گا. بہرحال ہر خیر اور بھلائی خواہ وہ نظریے اور فکر کی ہو‘ عقیدے کی ہو‘ علم کی ہو‘ عمل کی ہو‘ اخلاق کی ہو‘ وہ توحید ہی کا کوئی گوشہ اور توحید ہی کی کوئی شاخ (corollary) ہے. ؏ ’’یہ سب کیاہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں!‘‘ اس کے برعکس ہر زیغ ‘ کجی اور گمراہی چاہے وہ نظریے اور فکر کی ہو ‘ عقیدے کی ہو‘ علم کی ہو‘ عمل کی ہو ‘ اخلاق کی ہو ‘ شرک ہی کی کوئی نہ کوئی صورت ہے.