اب بعض حضرات کے ذہنوں میں شدت سے یہ سوال پیدا ہو رہا ہو گا کہ شرک کی جو مذکورہ بالا تشریح سامنے آئی ہے اس کی رو سے تو اللہ کی ہر معصیت شرک ہے؟ مثال کے طور پر اللہ کا حکم تھا نماز پڑھو‘ مگر ہم نے اللہ کا حکم چھوڑ کر نفس کا حکم مانتے ہوئے نماز ترک کر دی تو یہ شرک ہو گیا. ایسے ہی مال کمانے میں ہم نے شریعت کا حکم ترک کر دیا اور اللہ کی محبت سے مال کی محبت بڑھ گئی تو یہ شرک ہو گیا. اس طرح سے تو ہر گناہ شرک ہے. جبکہ قرآن مجید دو جگہ فرماتا ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ (النساء:۴۸ و۱۱۶)
’’یقینااللہ تعالیٰ اِس کو توہرگز معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ‘البتہ اس سے کم تر گناہ جس کو چاہے گا بخش دے گا‘‘. تو اب وہ کمتر کا دائرہ جس میں مغفرت کی امید ہے‘ وہ کیا ہے؟ یہ سوال بہت اہم اور اس پوری بحث سے متعلق ہے. یہ سوال ذہنوں میں لازماً پیدا ہونا چاہیے. اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہو رہا تو گویا اُس نے ’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ کی اس پوری بحث پر توجہ ہی نہیں کی. 

گناہوں کے باب میں ایک بات تو یہ جان لیجیے کہ قرآن مجید نے ایک طرف توصغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی تقسیم کی ہے اور صغائر کے بارے میں بہت امید دلائی ہے کہ وہ معاف ہو جاتے ہیں . ان کے بارے میں ایک قاعدہ کلیہ تو یہ سامنے آتا ہے کہ ان پر گرفت شدید نہیں ہے. چنانچہ سورۃ النجم میں ارشادِ الٰہی ہے:

اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ؕ (آیت ۳۲)
’’جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور کھلے کھلے قبیح افعال سے پرہیز کرتے ہیں اِلاّ یہ کہ کچھ قصور (چھوٹے گناہ) اُن سے سرزد ہو جائیں‘‘. 
چھوٹے چھوٹے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی گرفت نہیں ہے. اللہ تعالیٰ ‘معاذ اللہ‘ خوردہ گیر نہیں ہے کہ 
ہر چھوٹی چھوٹی بات کی گرفت فرمائے. یہی بات سورۃ الشوریٰ میں یوں فرمائی گئی :

وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ… (آیت ۳۷)
’’وہ لوگ کہ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں…‘‘ تو معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’صغائر‘‘ کا معاملہ کئی اعتبارات سے ’’کبائر‘‘ سے الگ رکھا ہے.

گناہوں کے بارے میں قرآن و حدیث سے ایک تصور یہ بھی سامنے آتا ہے کہ صغیرہ گناہ خود بخود بھی دھلتے رہتے ہیں. ارشادِ الٰہی ہے : 
اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ؕ (ھود:۱۱۴’’یقینا اچھائیاں سیّئات (چھوٹی چھوٹی برائیوں) کو ختم کر دیتی ہیں.‘‘ جب آپ کوئی نیکی کرتے ہیں تو صغائر دھلتے رہتے ہیں‘ لیکن کبائر نہیں. کوئی شخص نماز کی غرض سے مسجد کی طرف چلے تو ہر قدم پر اُس کے صغیرہ گناہ معاف ہو رہے ہو تے ہیں . ایک حدیث نبویؐ میں آتا ہے کہ وضو کرتے ہوئے جب کوئی شخص ہاتھوں کو دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے صغیرہ گناہ دھل جاتے ہیں. اسی طرح باقی اعضاءِ وضو کے متعلق فرمایا کہ ان کو دھوتے ہوئے ان سے سرزد ہونے والے گناہ دھل جاتے ہیں. یہ دین کے حقائق ہیں اور ان سے قطعاً کسی درجے میں بھی اختلاف نہیں کیاجا سکتا.

گناہ کے بارے میں قرآن مجید دوسرا فرق یہ کرتا ہے کہ ایک ہے ’’کسب‘‘ کہ جان بوجھ کر اور ارادے سے کوئی غلط کام کرنا‘جبکہ ایک ہے ’’خطا اور نسیان‘‘ کہ ذہول ہو گیا ‘ بھول گئے‘ غفلت کا پردہ پڑ گیا ‘لہذا کوئی غلطی صادر ہو گئی . اس میں ارادے اور کسب کو دخل نہیں. بالفاظِ دیگر غلط کام کرنے کی نیت نہیں تھی مگر خطا اور نسیان سے غلط کام ہو گیا.خطا کا مطلب ہے نشانے کا چوک جانا. یعنی نشانہ لگا ناچاہ رہے تھے کہیں اور لیکن لگ گیا کہیں اور .تو نسیان اور خطا سے گناہ کا صادر ہوجانا اور شے ہے‘جبکہ کسب سے گناہ کا صادر ہوجانا اور شے ہے. سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ عرش کے نیچے کے خزانوں میں سے دو اہم خزانے ہیں اور یہ تحفہ شبِ معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی وساطت سے اُمت ِ مسلمہ کو عطاکیا ہے.

ان میں سے دوسری آیت کا ایک ٹکڑا ہماری اس بحث سے متعلق ہے. الفاظ ملاحظہ ہوں: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ (آیت ۲۸۶’’اے ربّ ہمارے! اگر ہم سے بھول اور خطا (سے کوئی غلطی سرزد) ہو جائے تو ہماری گرفت نہ کیجیو!‘‘لیکن اگر کسب ہو رہا ہو اور جان بوجھ کر کوئی گناہ کمایا جا رہا ہو اور اُس پر پھر ڈیرہ جما لیا جائے تو اس صورت میں یقینا ایک بڑا گناہ بھی شرک کے درجے کو پہنچ جاتا ہے .ایک شخص سود کو اپنے کاروبار میں مستقلاً شامل کیے ہوئے ہے تو اس میں کسی نسیان اور خطا کا معاملہ نہیں‘ بلکہ اس نے ارادی طور پر اور علیٰ وجہ البصیرت ایک حرام چیز کو اختیار کر رکھاہے اور وہ اُس کے کاروبار کا جزوِ لاینفک ہے تویہ چیز درحقیقت شرک ہے. جان لیجیے کہ اگر منطقی طور پر تجزیہ کریں گے تو ہر گناہ شرک بن جائے گا ‘اس لیے کہ معصیت کادانستہ ارتکاب کرکے ایک شخص نے گویا اپنی خواہشات و جذبات اور دُنیوی مفادات کو اللہ کے احکام پر فوقیت دے دی یا انہیں اللہ کی پسند وناپسند کے برابر لے آیا. لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم اور مہربانی ہے کہ جب تک گناہ ذہول ‘خطا اور نسیان کے درجے میں ہو تو اُس کو شرک قرار نہیں دیا گیا. لیکن میں یہ بات بتکرار و اعادہ عرض کر رہاہوں کہ اگر کوئی غلط کام ’’کسب‘‘ کے درجے میں ہو اور فیصلے‘ شعور اور ارادے کے ساتھ کیا جا رہا ہو اور اس پر انسان مستقلاً ڈیرا جما کر بیٹھ جائے تو وہ شرک کے درجے کو پہنچ جائے گا . البتہ اگر اضطراری حالت درپیش ہو‘ انسان کی جان پر بنی ہو اور وہ بھوک سے مرا جا رہا ہو تو اس حالت میں انسان سؤر بھی کھا لے تو گناہ نہیں ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی :

فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ (البقرۃ:۱۷۳
’’پس جو مجبور ہو (بشرطیکہ) سرکشی اور حد سے تجاوز نہ ہو تو (مذکورہ بالا حرام اشیاء کھا لینے میں) اُس پر کوئی گناہ نہیں ہے.‘‘

ایسے ہی اگر جان پر بنی ہو اور سود کے علاوہ جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہو تو یہ بھی معاف ہے. 

اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۱ ملاحظہ کیجیے. ارشاد ہوا : 
بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً … ’’کیوں نہیں! جس نے ایک برائی بھی کمائی (کسب کیا) … ‘‘خطا‘ نسیان اور اضطرار اس میں شامل نہیں ہے ‘ بلکہ یہ وہ برائی ہے جو جان بوجھ کر کمائی گئی ہو اور چاہے وہ ایک ہی کیوں نہ ہو. ’’سَیِّئَۃً‘‘ اسم نکرہ ہے. نکرہ میں تفخیم بھی ہوتی ہے کہ کوئی بڑی چیز. یعنی اس میں ’’صغائر‘‘ شامل نہیں ہیں‘ بلکہ صرف ’’کبائر‘‘ ہیں. آگے فرمایا : وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ … ’’اوراس کا گھیرا کر لیا اس کے گناہ نے…‘‘ اس ایک گناہ پر وہ اس طرح ڈیرا جما کر بیٹھا ہوا ہے کہ گناہ نے اُس کواپنے گھیرے میں ایسے لے لیا ہے کہ کوئی جانب ایسی نہیں جہاں گناہ کا غلبہ نہ ہو. فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۸۱﴾ (البقرۃ) ’’تویہی لوگ جہنمی ہیں. وہ اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے‘‘. یعنی یہ وہ جہنمی نہیں ہیں جو آگ سے بالآخر نکل آئیں گے. یہ خلود فی النار کی سزا ہے جو کفار اور مشرکین کے لیے ہے. معلوم ہوا کہ ایک بڑا گناہ بھی اگر یہ شرطیں پوری کر رہا ہو کہ وہ فیصلے اور ارادے سے کیا گیا ہو اور اُس پر دوام ہو اور اُس نے عاصی کا اس طرح احاطہ کر لیا ہو کہ کوئی جانب ایسی نہ رہی ہو جہاں گناہ کا غلبہ نہ ہو تو وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرک ہے. البتہ اگر کسی سے خطا ہو جائے اور اُس پر اُس کو پشیمانی ہو اور احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے اور وہ اللہ سے بخشش طلب کرے‘ اس پر ڈیرا نہ جما لے اور اسے اپنی زندگی کا مستقل جزو بنانے کا ارادہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب و کتاب صاف کر دیتا ہے.