تقدیم طبع ثانی


بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدکی یہ تقریر جو ۲۱ جولائی ۱۹۷۴ء کو بعد نماز مغرب مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور میں منعقدہ اکیس روزہ قرآنی تربیت گاہ کے اختتام پر کی گئی تھی‘ اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں محترم ڈاکٹر صاحب نے تنظیمِ اسلامی کے قیام کے فیصلے کا اعلان کیا تھا.

رفقاء و احباب جانتے ہیں کہ ’تنظیم اسلامی‘ کا نام اولاً تو اس ہیئت ِاجتماعیہ کے ضمن میں سامنے آیا تھا جس کے قیام کا فیصلہ جماعتِ اسلامی پاکستان سے پالیسی کے اختلاف کی بنا پر ۵۸.۱۹۵۷ء میں علیحدہ ہونے والے بعض حضرات نے علیحدگی کے تقریباً دس سال بعد یعنی ۱۹۶۷ء میں کیا تھا. اس ہیئت ِ اجتماعیہ کے قیام کی کوشش میں بعض اکابر کے ساتھ ساتھ محترم ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے‘ جن کی عمر اُس وقت ۳۵ برس سے زائد نہ تھی. لیکن افسوس کہ یہ کوشش بھی سابقہ متعدد کوششوں کی مانند فوری ناکامی سے دوچار ہو گئی. تاہم ڈاکٹر صاحب نے اُسی وقت یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو‘ خود ان کی مساعی اس امر پر مرکوز رہیں گی کہ جلد از جلد اس تنظیم کا قیام یا صحیح تر الفاظ میں ’اِحیاء‘ عمل میں آئے. (تفصیل کے لیے دیکھئے سلسلۂ اشاعت ِتنظیم اسلامی نمبر ۳ ’’تعارف تنظیم اسلامی‘‘ نامی کتابچے کا مقدمہ). چنانچہ اوائل ۱۹۶۷ء ہی سے محترم ڈاکٹر صاحب نے درس و تدریس کے اس سلسلے اور تعلیم و تعلّمِ قرآن کی اس جدوجہد کا آغاز کر دیا ‘جس کی کچھ تفصیل پیش نظر کتابچے میں مل جائے گی ‘اور جس کا اصل حاصل یہ ہے کہ کچھ ایسے رفقاء کار میسر آ گئے جنہیں قرآن مجید کے ذریعے اپنے دینی فرائض کا ایک واضح شعور حاصل ہو گیا. نتیجتاً جولائی ۱۹۷۴ء میں مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور کے ہال میں منعقدہ ایک اکیس روزہ قرآنی تربیت گاہ کے اختتام پر محترم ڈاکٹر صاحب نے ایک مفصل تقریر کی‘ جس میں انہوں نے تنظیمِ اسلامی کے قیام کے فیصلے کا اعلان کر دیا.

بعدازاں یہ تقریر اوّلاً ماہنامہ ’میثاق‘ لاہور کی ستمبر اور اکتوبر و نومبر ۱۹۷۴ء کی اشاعتوں میں شائع ہوئی اور اس کے بعد اسے ۱۹۷۹ء میں کتابی صورت میں ’’سرا فگندیم‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا‘ جو اس شعر سے مستعار لیا گیا تھا : ؎

دریں دریائے بے پایاں‘ دریں طوفانِ موج افزا
سر افگندیم … بسم اللّٰہ مجرٖھا و مرسٰھا 

اب طبع ثانی کے موقع پر اس کا نام عام فہم کر دیا گیا ہے.
ناظم نشرو اشاعت 
۱۲ /جون ۱۹۹۱ء تنظیم اسلامی پاکستان