دعوتِ اسلامی کا نقش ِاوّلین
اور
تحریک ِاسلامی سے شعوری تعلق
کا آغاز
دَورِ رُکنیتِ اسلامی جمعیت ِ طلبہ 
۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۴ء


۱۹۴۷ ء تا ۱۹۴۹ء راقم الحروف گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہا. اس دور میں رہائش چونکہ محلہ کرشن نگر میں ایک عزیز کے مکان پر تھی لہذا عملی وابستگی جماعت ِاسلامی کے ’’حلقۂ ہمدردان‘‘ سے رہی نہ کہ جمعیت ِطلبہ سے! اور اس زمانے میں اگرچہ راقم نے اس حلقے میں ایک مستعد اور فعال کارکن کی حیثیت سے کام کیا تاہم جیسا کہ اس حصے میں درج شدہ اقتباسِ اوّل سے واضح ہو گا‘ راقم کے نزدیک تحریک کے ساتھ یہ تعلق ’’غیر شعوری‘‘ تھا. ۱۹۴۹ء کے اواخر میں جب راقم میڈیکل کالج لاہور میں داخل ہوا اور رہائش بھی ہاسٹل میں منتقل ہو گئی تو اسلامی جمعیت طلبہ سے قریبی تعلق ہوا اور ۱۹۵۰ء میں راقم جمعیت کا رکن بن گیا اور یہی تحریکِ اسلامی سے راقم کے شعوری تعلق کا آغاز ہے… اس حصے میں درج شدہ اقتباسات سے ظاہر ہو گا کہ راقم کے ذہن پر ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کا اوّلین نقش کیا تھا اور اس کے ذہن میں ایک مسلمان کے دینی فرائض کا اولین تصور کیا قائم ہوا تھا! جس کے بارے میں‘ بحمداللہ‘ اسے تاحال کوئی اشتباہ لاحق نہیں ہوا. 

……(۱)……

ذیل کا اقتباس ایک تقریر سے ماخوذ ہے جو راقم نے ۱۹۵۰ء کے دوران کسی موقع پر اسلامی جمعیت طلبہ حلقہ میڈیکل کالج کے ایک اجتماع میں کی تھی اور جو جمعیت کے ترجمان ہفت روزہ ’’عزم‘‘ لاہور کی اشاعت بابت ۱۵ نومبر ۱۹۵۰ء میں شائع ہوئی تھی.
’’خود اپنے حالات کے مشاہدے اور چند قریبی دوستوں کے مطالعے سے جو کچھ میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری بنیادی کمزوری یہ رہی ہے کہ ہم نے تحریک ِاسلامی کی بنیادی دعوت کو کبھی سمجھا ہی نہیں. یہ بات بادی النظر میں آپ کو کافی غلط سی معلوم ہو گی‘ لیکن حقیقت میں معاملہ کچھ ایسا ہی ہے… 

…حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دو چار کتب کے مطالعے سے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم اپنے مسلمان ہونے کا مفہوم جان گئے ہیں. تحریک ِاسلامی کے چند اجتماعات میں حاضر رہ کر ہم نے یہ سمجھا کہ ہم تحریک کی دعوت کو سمجھ گئے ہیں اور پھر اس محدود تصور کے ساتھ اپنے ’’فرض‘‘ کا جو نظریہ ہم نے قائم کیا وہ یہ تھا کہ دوچار پمفلٹ اِدھر اُدھر بانٹ کر اور محض ذہنی تعیش کے لیے دو چار بحث نما گفتگوئیں کر کے ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ اس تحریک میں اپنا حصہ بھی ہم نے ادا کر دیا.

طلبہ کی اس تحریک کی سرگرمیوں میں بھی میں نے حصہ لیا ہے جس کی دعوت پر آج ہم جمع ہوئے ہیں اور کالجوں کی فضا سے باہر کے اسلام پسند عناصر کے ساتھ بھی میں نے کام کیا ہے‘ لیکن اس لیے نہیں کہ میرے ذہن میں خدا کی بندگی کا تصور راسخ تھا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا جذبہ تھا جو مجھے لیے لیے پھر رہا تھا‘ بلکہ اس لیے کہ خدا کے ان بندوں میں سے جو تحریکِ اسلامی کا عَلم اٹھائے ہوئے تھے کچھ لوگوں کی تحریریں مجھے پُرزور معلوم ہوئی تھیں اور میں ان سے مرعوب سا ہو گیا تھا کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں صحیح ہے‘ یا پھر کچھ لوگوں کی تقریروں کا مجھے چسکا پڑ گیا تھا کہ جہاں میں نے سنا کہ فلاں صاحب کی تقریر ہے میں فوراً پہنچ گیا‘ یا پھر اس تحریک کے کارکنوں کو کتب اور پمفلٹ تقسیم کرتے دیکھ کر میں بھی دو چار پمفلٹ اِدھر سے اُدھر کر دیا کرتا تھا اور اس تحریک کی حمایت میں اس کے مخالفین سے پر زور مباحثے کر لیا کرتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ بھئی ہم نے بھی اپنا فرض ادا کر دیاہے…‘‘ 

اپنے اور اپنے چند ساتھیوں کے تعلق تحریک کے اس تجزیئے کے بعد آئندہ کے لیے جو مشورے دیے گئے وہ یہ تھے: 

’’…اصل چیز تحریک کی بنیادی دعوت ہے اور یہ وہی دعوت ہے جو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام دیتے رہے ہیں. اللہ تعالیٰ کو اپنے مالک اور معبود کی حیثیت سے پہچانیے اور تسلیم کیجیے. اس کی ہدایت کو ہدایت مانیے اور پھر پوری زندگی کو اس کی عبادت میں دے دیجیے!… اپنے اور خدا کے درمیان تعلق کو استوار کیجیے اور یہی وہ کمپاس ہے جو آپ کی زندگی کے لیے صراطِ مستقیم متعین کرے گی‘ اور خدا کی رضاکے حصول کو اپنا مقصد زندگی بنایئے. یہی وہ طاقت ہے جو گمراہی کے اس تاریک ماحول میں بڑی سے بڑی تکالیف کے باوجود آپ کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے گی!…‘‘ 

……(۲)……

دوسرا اقتباس راقم کی اس تقریر سے ماخوذ ہے جو ۲ نومبر ۱۹۵۱ء کی شام کو اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے چوتھے سالانہ اجتماع کے موقع پر وائی ایم سی اے ہال لاہور میں مولانا امین احسن اصلاحی کی زیر صدارت کی گئی اور جو بعد میں ’’ہماری دعوت اور ہمارا طریقِ کار‘‘ کے عنوان سے جمعیت کے دعوتی لٹریچر کا جزو لاینفک بن گئی:

’’…جو عبارت میں نے آپ کو پڑھ کر سنائی ہے اس سے دوسری بات جو آپ نے سمجھ لی ہو گی وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے زندگی کا جو رویہ اور طریقہ ہم نے اختیار کیا ہے وہ تین نکات پر مشتمل ہے: 
اوّل عبادتِ الٰہی‘ دوم شہادتِ حق اور سوم اقامت ِدین . اب میں ذرا مختصر الفاظ میں آپ کو یہ بتاؤں گا کہ ان تینوں چیزوں سے ہماری مراد کیا ہے.

عبادتِ الٰہی سے ہماری مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا مالک‘ حاکم اور آقا تسلیم کر کے اپنی پوری زندگی کو اس کی اطاعت میں دے دیا جائے اور اس کی اطاعت کے سامنے 
اپنی خود مختاری سے دستبردار ہو جایا جائے. ہماری اپنی مرضی‘ برادری اور خاندان کے رواج‘ ہماری سوسائٹی یا ریاست یہاں تک کہ پورا معاشرہ بھی ہم سے اللہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کراسکے. ہمارے لیے صرف اُسی کا حکم ہو. جو کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہو وہ ہم کریں اور جو کچھ اس کی مرضی کے خلاف ہو اس سے ہم کٹ جائیں. غرض ہماری زندگی صرف اللہ کی اطاعت میں آ جائے. پھر یہ کہ یہ اطاعت و فرمانبرداری زندگی کے کسی ایک حصے یا چند شعبوں میں ہی نہ ہو بلکہ تمام حصوں اور تمام شعبوں میں ہو… یہ چیز ہماری زندگی کے طور طریق کا ایک خاص ڈھنگ متعین کر دیتی ہے اور ہماری زندگی کو اسی راہ پر گامزن کر دیتی ہے جو سیدھی اور صاف ہے‘ جس میں کجی اور ٹیٹرھ نہیں ہے‘ جس میں افراط و تفریط کے دھکے نہیں ہیں اور جو نہ صرف دُنیوی فلاح بلکہ ابدی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنے والی ہے. 

شہادتِ حق سے ہماری مراد یہ ہے کہ اپنی پوری زندگی میں عبادتِ الٰہی کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد ہم انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں دین ِحق کی پوری نمائندگی کریں تاکہ ہم اللہ کی مخلوق کے سامنے اس کے دین کے گواہ بن کر کھڑے ہوسکیں. نبی  کے ذریعے سے اللہ کی جو ہدایت ہم تک پہنچی ہے ہم پر یہ فرض عائدہوتاہے کہ اس ہدایت کو دوسرے لوگوں تک پہنچائیں. ہمیں اپنے فرض کو اس طرح اداکرنا ہے کہ ایک طرف تو ہم قولاً خلق اللہ کو اللہ کی بندگی اختیار کرنے اور اسی کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دیں اور دوسری طرف عملاً اس طرزِ زندگی کا مظاہرہ کریں جو اللہ کا دین اختیار کرنے کے بعد وجود میں آتی ہے.

اقامت ِدین سے ہماری مراد یہ ہے کہ اللہ کے جس دین کو ہم نے اپنی زندگیوں کے لیے اختیار کیا ہے‘ اُسے پوری زندگی میں قائم کرنے کی کوشش کریں‘ اللہ کی ہدایت کو پوری دنیا میں پھیلا دیں‘ اللہ کے کلمے کو دوسرے تمام کلموں سے بلند کردیں‘اور اس کے دین کو تمام دنیا کا دین بنا کر چھوڑیں. یہاں تک کہ پورے جہان کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہو جائے‘ اس زمین پر اللہ کے سوا کسی اور کا حکم نہ چلے اور اللہ کے طریقے کے سوا کسی دوسرے طریقے کی پیروی نہ کی جائے… یہ چیز ہماری جدوجہد کا ایک مرکز اور ہماری مساعی کی ایک سمت متعین کر دیتی ہے. اس میں ہمیں اپنی زندگی کا ایک نصب العین مل جاتا ہے اور یہ چیز ہمارے لیے وہ منزلِ مقصود متعین کر دیتی ہے کہ جس کی طرف ہم اپنے قافلہ کو بڑھائے چلے جائیں.‘‘ 

……(۳)……

تیسرا اقتباس ایک طویل تحریر سے ماخوذ ہے جو راقم نے جنوری ۱۹۵۴ء میں تحریک اسلامی کے ضمن میں طلبہ کے فرائض کی وضاحت کے سلسلے میں لکھی تھی. اس تحریر کی بتمام و کمال طباعت کی نوبت تو کبھی نہیں آئی‘ البتہ اس کے بعض اقتباسات ’’تحریک جماعت اسلامی‘‘ کے دیباچے میں بھی شامل کیے گئے تھے اور اس کا اصل مسودہ بھی راقم کے پاس تاحال محفوظ ہے. 

’’اس سلسلے میں جو کچھ میں نے سمجھا ہے اور جس پر میں خود عمل پیرا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اصولاً دین کے مطالبات طلبہ سے بھی وہی ہیں کہ جو عام لوگوں سے ہیں. دینی فرائض کے اعتبار سے طلبہ اور عام لوگوں میں کوئی امتیازی فرق موجود نہیں ہے… دین میں صرف ایک تقسیم معتبر ہے اور وہ ہے شعور اور غیر شعور کی تقسیم. سنِ شعور کو پہنچنے سے قبل غیر شعوری حالت میں انسان کسی بھی چیز پر مکلف نہیں ہے ‘لیکن سنِ شعور کو پہنچ جانے کے بعد جب کہ انسان میں سوچنے کی قوت پیدا ہو جائے وہ ان تمام فرائض پر مکلف ہو جاتا ہے جو اسلام انسان پر عائد کرتا ہے اور یہ فرائض تمام انسانوں کے لیے یکساں ہیں. ان میں انسانوں کے پیشوں یا مشغلوں میں اختلاف کی بنا پر فرق واقع نہیں ہوتا. ہر شخص خواہ وہ معاش کے حصول کے لیے کوئی پیشہ اختیار کر چکا ہو خواہ ابھی کسی فن کے سیکھنے میں مشغول ہو اس پرمکلف ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مقدور بھر اور اپنی وسعت کے مطابق اِن فرائض کی انجام دہی میں لگ جائے.
یہ فرائض کیا ہیں! مختصر طور پر اگر بیان کیا جائے تو یہ فرائض دو ہیں:

(i) اوّلاً… یہ کہ انسان اپنے مالکِ حقیقی کو پہچان کر اپنی پوری زندگی کو اس کے مطابق قربان کر دے اور اپنی خود مختاری سے اس کی اطاعت کے حق میں دستبردار ہو جائے. یہ وہ عبادتِ الٰہی ہے جس کی دعوت تمام انبیاء علیہم السلام دیتے آئے ہیں اور جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کے لیے واحد لائحہ عمل ٹھہرایا ہے. 

اگر اسلامی ریاست قائم ہو اور شہادتِ حق اور نمائندگی ٔ اسلام کا فرض یہ ادارہ سرانجام دے رہا ہو تو افراد اپنی انفرادی حیثیت میں اللہ کی اطاعت کے طریقے کو اپنا کر‘ تمام فرائض کو بجالاکر‘ برائیوں سے بچ کر اور نیکیوں کا اتباع کر کے اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں اور اقامت ِدین اور شہادتِ حق کی ذمہ داری فرداً فرداً افراد پر عائد نہیں ہوتی.

(ii) لیکن اگر اللہ کا دین بالفعل قائم نہ ہو بلکہ طاغوت غالب ہو تو پھر ہر اُس فرد پر جو ایمان کا دعویٰ کرے‘ اپنی انفرادی زندگی میں ’’عبادت‘‘ کے طریقے کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ شہادتِ حق اور اقامت ِدین کی ذمہ داری بھی عائد ہو جاتی ہے ‘اور یہ وہ دوسرا بڑا فرض ہے جس پر ہر فرد مکلف ہو جاتا ہے اور جس کی ادائیگی وہ تمام شرائط کے ساتھ اور صحیح صحیح طریقے پر نہ کرے تو اس کی انفرادی اطاعت گزاری اور نیکوکاری بھی اس کے لیے بے کار ہو جاتی ہے. اس حالت میں شہادتِ حق اور اقامت ِدین کوئی اضافی نیکی نہیں ہوتی بلکہ عین بنیادی فرض ہے جس کی ادائیگی پر ایمان کے معتبر ہونے کا انحصار ہے! یہ ایسا فرض ہے جو کماحقہ ادا ہو تبھی ایمان معتبر ہے ورنہ نہیں. اس کی عدمِ ادائیگی کی صورت میں دوسری تمام اطاعت گزاریاں اور نیکوکاریاں اور باقی تمام تقویٰ و احسان و سلوک بے کار ہے. 
اس ’’اقامت ِدین‘‘ اور شہادتِ حق‘‘ کے آداب میں سب سے اہم چیز اور ان کی شرائط میں شرطِ اوّل جماعت کا اہتمام ہے. ہر فرد اس بات پر مکلف ہے کہ وہ یہ فرائض ایک اجتماعی جدوجہد کی صورت میں ادا کرے. اگر پہلے سے کوئی جماعت یہ کام کر رہی ہو تو اس میں شریک ہو جائے‘ اور اگر وہ کوئی ایسی جماعت نہ پائے تو تن تنہا کھڑا ہو جائے اور لوگوں کو اپنے گرد جمع کر کے ایک ایسی جماعت کا قیام عمل میں لائے جو اقامت ِدین اور شہادتِ حق کے فرائض سے کماحقہ عہدہ بر آہو. 

ظاہر بات ہے کہ جس دَور میں ہم جی رہے ہیں وہ طاغوت کا دَور ہے. اللہ کا دین قائم نہیں ہے اور اسلامی ریاست کا کہیں وجود نہیں ہے. ان حالات میں مسلمانوں میں سے جو بھی شعور کو پہنچتا ہے اور غیر مسلموں میں سے اللہ جسے بھی قبولِ حق کی توفیق‘دیتا ہے اس کے لیے ایک ہی راہ ہے جس پر وہ اللہ اور اس کے دین کی طرف سے مکلف ہے اور وہ یہ کہ اپنی انفرادی زندگی کو اللہ کی عبادت میں دے دے اور اپنے وقت اور اپنی محنت اور اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کا بس تھوڑا سا حصہ اپنی معاش کے لیے رکھ کر باقی سارے کا ساراشہادتِ حق اور اقامت ِدین کے لیے اجتماعی جدوجہد میں کھپا دے. 

دین کا یہ مطالبہ ہر اس شخص سے ہے جو شعور رکھتا ہو اور وہ ان فرائض پر اسی دم مکلف ہو جاتا ہے جس دم کہ یہ فرائض اس پر واضح ہو جائیں اور یہ حقیقت اس پر منکشف ہو جائے کہ اس کا دین اور ایمان اس سے یہ تقاضا کرتا ہے!… اب خواہ وہ ایک طالب علم ہو یا زندگی کے اس دور سے گزر چکا ہو اس کے لیے ایک ہی راہ ہے کہ وہ ان فرائض کی انجام دہی میں لگ جائے. کسی کا طالب علم ہونا اسے ان فرائض میں سے کسی ایک سے بھی مستثنیٰ نہیں کر دیتا اور دین میں اس طرح کی کسی تفریق کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے‘‘. (تحریر جنوری ۱۹۵۴ء)

اس کے بعد اپنی اس تحریر میں راقم نے جماعت ِاسلامی کے دو چوٹی کے رہنماؤں کی تحریروں سے اقتباسات دیے تھے جو درج ذیل کیے جا رہے ہیں. ان میں سے پہلا اقتباس ’’شہادتِ حق‘‘ سے ہے جو مولانا مودودی کی تالیف ہے اور دوسرا ’’دعوتِ دین اور اس کا طریق کار‘‘ سے ہے‘ جو مولانا اصلاحی کی تصنیف ہے.

(۱)’’سب سے پہلے ہم مسلمانوں کو ان کا فرض یاد دلاتے ہیں اور انہیں صاف صاف بتاتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں‘ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور مسلمان ہونے کے ساتھ کیا ذمّہ داریاں آدمی پر عائد ہوتی ہیں. اس چیز کو جو لوگ سمجھ 
لیتے ہیں ان کو پھر ہم بتاتے ہیں کہ اسلام کے سب تقاضے انفرادی طور پر پورے نہیں کیے جا سکتے‘ اس کے لیے اجتماعی سعی ضروری ہے… پورے دین کو قائم کرنے اور اس کی صحیح شہادت ادا کرنے کے لیے قطعاً ناگزیر ہے کہ تمام ایسے لوگ جو مسلمان ہونے کی ذمہ داریوں کا شعور اور انہیں ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں متحد ہو جائیں اور منظم طریق سے دین کو عملاً قائم کرنے اوردنیا کو اس کی طرف دعوت دینے کی کوشش کریں اور ان مزاحمتوں کو راستے سے ہٹائیں جو اقامت ِدین اور دعوتِ دین کی راہ میں حائل ہوں. یہی وجہ ہے کہ دین میں جماعت کو لازم قرار دیا گیا ہے اور اقامت ِدین اور دعوتِ دین کے لیے ترتیب یہ رکھی گئی ہے کہ پہلے ایک منظم جماعت ہو ‘پھر خدا کی راہ میں سعی وجہد کی جائے ‘اور یہی وجہ ہے کہ جماعت کے بغیر زندگی کو جاہلیت کی زندگی اور جماعت سے علیحدہ ہو کر رہنے کواسلام سے علیحدگی کا ہم معنی قرار دیا گیا ہے.

اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس میں نبی نے فرمایا ہے:
اَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ اَللّٰہُ اَمَرَنِی بِھِنَّ: بالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْـھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَۃِ قِیْدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ اِلَّا اَنْ یُرَاجِعَ‘ وَمَنْ دَعَا بِدَعْوَی الْجَاھِلِیَّۃِ فَھُوَ مِنْ جُثا جَھَنَّمَ قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَ اِنْ صَامَ وَصَلّٰی؟ قَالَ: وَاِنْ صَلّٰی وَصَامَ وَزَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ (احمد و حاکم)

’’میں تم کو پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے. جماعت‘ سمع‘ طاعت‘ ہجرت اور خدا کی راہ میں جہاد. جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی جُداہوا اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اتار پھینکا الّا یہ کہ وہ پھر جماعت کی طرف پلٹ آئے. اور جس نے جاہلیت (یعنی افتراق و انتشار) کی دعوت دی وہ جہنمی ہے. صحابہؓ نے دریافت کیا: یا رسول اللہ اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے؟ فرمایا: ہاں ‘اگرچہ وہ نماز پڑھے‘ روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے.‘‘ 
اس حدیث سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں:

(i) کارِ دین کی صحیح تربیت یہ ہے کہ پہلے جماعت ہو اور اس کی تنظیم ایسی ہو کہ سب لوگ کسی ایک کی بات کو سنیں اور اس کی اطاعت کریں ‘اور پھر جیسا بھی موقع ہو اس کے لحاظ سے ہجرت اور جہاد کیا جائے.

(ii) جماعت سے علیحدہ ہونا گویا اسلام سے علیحدہ ہونا ہے‘ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس زندگی کی طرف واپس جا رہا ہے جو اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں عربوں کی تھی کہ ان میں کوئی کسی کی سننے والا نہ تھا.

(iii) اسلام کے بیشتر تقاضے اور اصل مقاصد جماعت اور اجتماعی سعی ہی سے پورے ہو سکتے ہیں‘ اس لیے حضور نے جماعت سے الگ ہونے والے کو اس کی نماز اور روزے اور مسلمانی کے دعوے کے باوجود اسلام سے نکلنے والا قرار دیا. اسی مضمون کی شرح ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس ارشاد میں فرمائی ہے کہ ’’لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِجَمَاعَۃٍ ‘‘ (ماخوذاز: ’’شہادتِ حق‘‘ صفحہ ۲۴.۲۶

(۲)اس سے معلوم ہوا کہ تبلیغ کے لیے اصل محرک درحقیقت اس فرضِ عظیم کا احساس ہے جو مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے ڈالا گیا ہے اور اس میں جو چیز بطور مطمح ِنظر رکھنی ہے وہ یہ ہے کہ وہ نظام ِدعوتِ خیر پھر وجود میں آ جائے جو خلق اللہ کو دین کی راہ بتا سکے اور دنیا پر اتمام ِحجت کر سکے. جب تک یہ چیز دنیا میں موجود نہیں ہے ہر مسلمان کا سب سے مقدم‘ سب سے بڑا اور سب سے اعلیٰ مقصد یہی ہے کہ اس کو وجود میں لانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے کرے. اسی کے لیے ہر مسلمان کو سونا اور جاگنا چاہیے‘ اسی کے لیے کھانا اور پینا چاہیے اور اسی کے لیے مرنا اور جینا چاہیے. اس کے بغیر مسلمانوں کی زندگی خدا کے منشاء کے بالکل خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ اپنی اس کوتاہی کے لیے کوئی عذر نہ کر سکیں گے‘‘. (ماخوذاز: ’’دعوتِ دین اور اس کا طریق کار‘‘ صفحہ ۳۲

’’… پھر اگر ہم نے اس جدوجہد میں بازی پالی فھوالمراد‘ اور اگر دوسری بات ہوئی تب بھی تمام راستوں میں ایک حق ہی کا راستہ ایسا ہے جس میں ناکامی کا کوئی سوال نہیں. اس میں اوّل قدم بھی منزل ہے اور آخر بھی‘ ناکامی کا اس کوچہ میں گزر ہی نہیں ہے. اس کو مان لینے اور اس پر چلنے کا عزم راسخ کر لینے کی ضرورت ہے. پھر اگر تیز سواری مل گئی تو فبہا. یہ نہ سہی تو چھکڑے ملیں گے انہیں سے سفر کرنا ہو گا. یہ بھی نہیں تو دو پاؤں موجود ہیں ان سے چلیں گے.پاؤ ں بھی نہ رہیں تو آنکھیں تو ہیں ان سے نشانِ منزل دیکھیں گے. آنکھیں بھی اگر بے نورہو جائیں تو دل کی آنکھ تو ہے جس کی بصارت کو کوئی سلب نہیں کر سکتا بشرطیکہ ایمان موجود ہو…‘‘ (مولانا امین احسن اصلاحی: ’’دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات‘‘ )