چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو قرآن کی قدر و قیمت کا شعور حاصل کریں. قرآن کی عظمت کی شان تو یہ ہے کہ اس قرآن سے جو شخص بھی وابستہ ہو گا وہ حضورؐ کے ایک فرمان کے مطابق تمام انسانوں میں بہترین قرار پائے گا اور جو قوم قرآن کو مضبوطی سے تھامتی ہے اُسے اِس دنیا میں ہی عروج عطا کر دیا جاتا ہے. گویا قرآن تو وہ نسخہ کیمیا ہے جو قوموں کی تقدیر بدل دینے کی قوت رکھتا ہے. بقول مولانا حالیؔ ؎
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
لیکن یہ جان لیجیے کہ اگر اللہ نے ہم پر اتنا بڑا احسان فرمایا ہے کہ قرآن جیسی عظیم دولت ہمیں عطا فرمائی ہے تو ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس احسان پر اللہ کا بھرپور انداز میں شکر ادا کریں.
اللہ کا شکر ہم کس انداز میں ادا کریں؟ اسے ایک مثال سے سمجھئے! دیکھیے اگر کسی سعادت مند لڑکے کو اُس کے والد کوئی اچھی سی کتاب تحفے کے طور پر دیں تو سوچئے کہ اس کا طرز عمل کیا ہو گا! وہ بچہ سب سے پہلے تو زبان سے اپنے والد کا شکریہ ادا کرے گا‘ پھر شکر و احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اُس کتاب کا مطالعہ کرے گا اور پھر اس کتاب کے مطالعے سے جو اچھی باتیں اسے سمجھ میں آئیں گی اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا. دراصل اسی طرح کا طرز عمل ہمارا قرآن کے ساتھ بھی ہونا چاہیے . یعنی یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم: (۱) قرآن پر ایمان لائیں. (۲) اس کی تلاوت کریں. (۳) اس کو سمجھیں اور اس پر غور و فکر کریں. (۴) اس پر عمل کریں. (۵) اور اسے دوسروں تک پہنچائیں.
اگر ہم قرآنِ مجید کے اِن حقوق کو ادا کریں گے تو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہمارے حصے میں آئیں گی لیکن اگر ہم نے ان ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا تو یہی قرآن اللہ کی عدالت میں ہمارے خلاف بطور دلیل پیش ہو گا. تو آئیے ان حقوق کو تفصیل میں سمجھنے کی کوشش کریں.