قرآن :عظیم ترین دولت

عزیزانِ گرامی! آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے گھروں میں ایک ایسی کتاب ہے جس کا بہت احترام کیا جاتا ہے. اُس کتاب کو ہم عمدہ غلاف میں لپیٹ کر گھر میں کسی اونچی جگہ پر رکھتے ہیں کہ اس کی بے ادبی نہ ہو. کبھی کبھی گھر کا کوئی بزرگ اسے کھول کر بہت اہتمام سے باوضو ہو کر پڑھ بھی لیتا ہے. خاص طور پر بعض دینی گھرانوں میں گھر کے سب افراد باقاعدگی سے اُسے پڑھتے ہیں اور بچوں کو بھی اس کی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے. لیکن آج کل اکثر گھروں میں اس کتاب کو پڑھنے کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا اور اسے محض ایک مقدس کتاب کے طور پر گھر میں کسی اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے.

آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جس کتاب کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ قرآن مجید ہے. یہ قرآن اُس اللہ کا کلام ہے جو زمین و آسمان کا خالق و مالک اور ہمارا ربّ ہے اور یون تو ہم پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اِس قدر ہیں کہ ہم زندگی بھر اُس کا شکر ادا کرتے رہیں تب بھی وہ اُن احسانات کا بدل نہیں ہو سکتا‘ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان کون سا ہے! ہمارے نبیؐ نے بتایا ہے کہ اس کائنات میں انسانوں پر اللہ کا سب سے بڑا انعام اور سب سے عظیم احسان یہ ہے کہ اس نے انسان کو اپنا کلام یعنی قرآن مجید عطا فرمایا ہے. اس لیے کہ قرآن مجید وہ نعمت ہے کہ اگر ہم اس سے وابستہ رہتے ہیں تو ہماری دنیا بھی سدھر جاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے. غور کیجیے اگر کسی شخص کے ہاتھ کوئی ایسا نسخہ آ جائے کہ جس کی بدولت اُسے دنیا میں بھی عزت و کامرانی حاصل ہو اور آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت مل جائے تو کیا ایسے شخص کے لیے وہ نسخہ ہی عظیم ترین دولت نہ ہو گا. اب ہم مسلمانوں کی بد قسمتی دیکھیے کہ ہمارے پاس وہ نسخہ ٔ ہدایت موجود ہے جو ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے لیکن ہم اس کی عظمت سے ناواقف ہیں. 
ہماری مثال اُس فقیر کی سی ہے جس کے کشکول میں ہیرا موجود ہو لیکن وہ اپنی نادانی میں اُسے کانچ کا ٹکڑا سمجھ کر دوسروں سے بھیک مانگتا پھرتا ہو. 

چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو قرآن کی قدر و قیمت کا شعور حاصل کریں. قرآن کی عظمت کی شان تو یہ ہے کہ اس قرآن سے جو شخص بھی وابستہ ہو گا وہ حضورؐ کے ایک فرمان کے مطابق تمام انسانوں میں بہترین قرار پائے گا اور جو قوم قرآن کو مضبوطی سے تھامتی ہے اُسے اِس دنیا میں ہی عروج عطا کر دیا جاتا ہے. گویا قرآن تو وہ نسخہ کیمیا ہے جو قوموں کی تقدیر بدل دینے کی قوت رکھتا ہے. بقول مولانا حالیؔ ؎ 

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا 

لیکن یہ جان لیجیے کہ اگر اللہ نے ہم پر اتنا بڑا احسان فرمایا ہے کہ قرآن جیسی عظیم دولت ہمیں عطا فرمائی ہے تو ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس احسان پر اللہ کا بھرپور انداز میں شکر ادا کریں. 

اللہ کا شکر ہم کس انداز میں ادا کریں؟ اسے ایک مثال سے سمجھئے! دیکھیے اگر کسی سعادت مند لڑکے کو اُس کے والد کوئی اچھی سی کتاب تحفے کے طور پر دیں تو سوچئے کہ اس کا طرز عمل کیا ہو گا! وہ بچہ سب سے پہلے تو زبان سے اپنے والد کا شکریہ ادا کرے گا‘ پھر شکر و احسان مندی کے جذبات کے ساتھ اُس کتاب کا مطالعہ کرے گا اور پھر اس کتاب کے مطالعے سے جو اچھی باتیں اسے سمجھ میں آئیں گی اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا. دراصل اسی طرح کا طرز عمل ہمارا قرآن کے ساتھ بھی ہونا چاہیے . یعنی یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم: (۱) قرآن پر ایمان لائیں. (۲) اس کی تلاوت کریں. (۳) اس کو سمجھیں اور اس پر غور و فکر کریں. (۴) اس پر عمل کریں. (۵) اور اسے دوسروں تک پہنچائیں.

اگر ہم قرآنِ مجید کے اِن حقوق کو ادا کریں گے تو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہمارے حصے میں آئیں گی لیکن اگر ہم نے ان ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا تو یہی قرآن اللہ کی عدالت میں ہمارے خلاف بطور دلیل پیش ہو گا. تو آئیے ان حقوق کو تفصیل میں سمجھنے کی کوشش کریں.