قرآن پر ایمان لایا جائے
یہ بات بظاہر عجیب سی معلوم ہو گی کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لایا جائے حالانکہ قرآن مجید پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا. لیکن یہ بات آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے اگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ایمان کے دو حصے ہوتے ہیں. ایک زبان سے اقرار کرنا اور دوسرا ہے دل سے تصدیق کرنا. اور ایمان مکمل تبھی ہوتا ہے جب زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہو جائے. (۱) اس لیے کہ جس چیز پر ہمارا یقین ہو ہمارا عمل اس کے خلاف نہیں جا سکتا. آگ جلاتی ہے اس لیے کوئی شخص آگ میں انگلی نہیں ڈالتا‘ بلکہ ہمارا تو یہ طرز عمل ہے کہ جس چیز پر ہمیں شک ہو ہم اس کے بارے میں بھی محتاط نہیں ہو جاتے ہیں.
ہمیں معلوم ہے کہ اکثر سانپ زہریلے نہیں ہوتے لیکن ہم پھر بھی کبھی سانپ کو پکڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے . ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیںقرآن مجید پر کامل یقین ہے لیکن ہمارا طرز عمل اس کے خلاف ہے اس لیے کہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اس کی تلاوت باقاعدگی سے کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ا ور نہ ہی اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں. اس لیے ثابت ہوا کہ دراصل ہمارا ایمان کمزور ہے. ہم زبان سے تو اقرار کرتے ہیں کہ یہ اللہ ربّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی دولت سے ہم محروم ہیں. ورنہ جسے یقین حاصل ہو جائے اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے. صحابہ کرامؓ کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ انہیں قرآن سے کس درجہ محبت تھی!(۱): صفت ایمان مجمل کے الفاظ: اٰمنت باللّٰہ کما ھو بآسمائہ و صفاتہ و قبلت جمیع احکامہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کے الفاظ اس کی تشریح کر رہے ہیں. جیسے ہی قرآن کی آیات نازل ہوئیں ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ انہیں جلد از جلد یاد کر لیں. پوچھا جا سکتا ہے کہ اس کمی کو کیسے پورا کیا جائے. اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا بس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خود قرآن مجید ہے. بقول مولانا ظفر علی مرحوم ؎
وہ جنس نہیں ’’ایمان‘‘ جسے لے آئیں دکان فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی قاری کو یہ قرآں کے سیپاروں میں
جب ہمیں یقین ہو جائے گا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے تو پھر اس کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آ جائے گا. پھر ہمیں محسوس ہو گا کہ اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے قرآن سے بڑھ کر کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت نہیں ہے. (۱)