قرآن کی تلاوت کی جائے

ہم مسلمانوں پر قرآن حکیم کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں‘ اس لیے کہ کسی اچھی کتاب کو نہ پڑھنا بڑی ناقدری کی بات ہے. یہی وجہ ہے کہ اس کتاب الٰہی کے اصل قدر دانوں کی یہ کیفیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے: ﴿اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ﴾ (البقرۃ:۱۲۱یعنی’’ جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے.‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم قرآن مجید کا حق تلاوت ادا کر سکیں (آمین). اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ جاننا ہے کہ قرآن حکیم کی بار بار تلاوت (۱) ایک حدیث میں آنحضور نے فرمایا کہ جس شخص کو قرآن ایسی دولت عطا ہوئی اور پھر بھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی کو اس سے بڑھ کر نعمت ملی اس نے قرآن کی قدر و منزلت کو نہیں پہچانا. کیوں ضروری ہے!

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے یہاں تک کہ فرشتوں نے بھی اسے سجدہ کیا تھا اور اس کی برتری تسلیم کیا تھا. 

لیکن اس کے اشرف المخلوقات ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ اس کی تخلیق میں جہاں مٹی اور گارا شامل ہے وہیں روح ِربانی بھی اس میں پھونکی گئی تھی. 
(۱گویا انسان کی تخلیق کے دو حصے ہیں. ایک اس کا گوشت پوست کا جسد ہے جو مٹی سے بنا ہے اور دوسرا حصہ اس ’’روح‘‘ پر مشتمل ہے جس کی نسبت خود اللہ نے اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے. اس گوشت پوست والے حصے کی تمام تر ضروریات زمینی وسائل ہی سے پوری ہوتی ہیں. ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہ اسی زمین سے حاصل ہوتا ہے‘ ہمارا لباس جن چیزوں سے تیار ہوتا ہے وہ بھی اسی زمین سے حاصل ہوتی ہیں. اور ہمارے مکانات تو مٹی گارے ہی سے تیار ہوتے ہیں. 

لیکن روح کا تعلق چونکہ اس زمین سے نہیں بلکہ علم ملکوت سے ہے‘ لہذا اس کی غذا بھی زمین سے حاصل نہیں ہوتی‘ وحی الٰہی کی شکل میں آسمانوں سے آتی ہے. اس اعتبار سے قرآن حکیم دراصل ہماری روح کے لیے غذا کا کام دیتا ہے اور اس کی تلاوت روح کی نشوونما اور اسے تر و تازہ رکھنے کا اہم ذریعہ ہے. اب یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح ہم اپنے جسم کو صحت مند اور توانا رکھنے کے لیے مسلسل محنت کرتے ہیں اور اچھی سے اچھی غذا کا اہتمام کرتے ہیں اسی طرح اپنی روح کو تر و تازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بار بار قرآن حکیم کی تلاوت کیا کریں اور اسے اچھے سے اچھے انداز میں پڑھنے کی کوشش کریں. تلاوتِ قرآن کا حق ادا کرنے کے لیے درج ذیل باتوں کا اہتمام ضروری ہے. (۱): جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: ﴿ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۱﴾فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۷۲﴾﴾. (صٓ) ’’ میں مٹی سے ایک انسان بنانے والا ہوں .تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم اس کےآگے سجدے میں گر جانا.‘‘


تجوید 

قرآن مجید کی درست تلاوت کے لیے تجوید کا سیکھنا بہت ضروری ہے. تجوید سے مراد ہے عربی حروف کی پہچان‘ ان کی صحیح ادائیگی اور قراء ت کے بنیادی اصولوں سے واقفیت حاصل کرنا. تجوید کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر قرآن کی صحیح تلاوت ممکن نہیں بلکہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں قرآن کے معنوں میں ردوبدل نہ ہو جائے. مثلا ً ’’قُل‘‘ کا مطلب ہے ’’کہو‘‘ لیکن اگر اسے ’’کُل‘‘پڑھ دیا جائے‘ تو اس کا مطلب ہو جائے گا ’’کھاؤ‘‘. اِسی طرح ’’اَنْعَمْتَ‘‘ کا مطلب ہے‘ تو نے انعام کیا‘ لیکن اگر اسے ’’اَنْعَمْتُ‘‘ پڑھ دیا جائے تو اس کا مطلب ہو جائے گا‘ میں نے انعام کیا. آپ نے دیکھا کہ زبر اور پیش کی معمولی سی غلطی سے مفہوم میں کتنا فرق واقع ہو گیا. ثابت ہوا کہ تجوید کا سیکھنا تلاوت کی بنیادی شرط ہے. 

باطنی و ظاہری آداب

قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے چند آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے. جن میں سے بعض ظاہری نوعیت کے آداب ہیں اور بعض کا تعلق انسان کے باطن سے ہے. ظاہری آداب میں باوضو ہونا‘ لباس کا پاک ہونا اور قبلہ رُو ہو کر با ادب بیٹھنا شامل ہیں. اسی طرح آدابِ تلاوت میں سے یہ بھی ہے کہ تلاوت کی ابتداء ’’اَعوُذ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم‘‘ اور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سے کی جائے. باطنی نوعیت کے آداب یہ ہیں کہ دل میں اللہ اور اس کے کلام کی عظمت کا احساس ہو اور اللہ تعالیٰ کے محاسبے کا خوف اور اس کی محبت کا جذبہ دل میں پیدا کرنے کی نیت ہو. اسی طرح تلاوت ہمیشہ ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے کرنی چاہیے اور دل میں یہ ارادہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ سمجھ میں آیا اس پر عمل کروں گا. قرآن کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کے رُخ کو موڑ دوں گا. 

روزانہ کا معمول

قرآن حکیم کی تلاوت کا حق ادا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی تلاوت کو باقاعدہ اپنے روزانہ کے معمولات میں شامل کیا جائے. روزانہ کتنی تلاوت کی جائے‘ اس میں کمی و بیشی کی کافی گنجائش موجود ہے. مختلف لوگوں کے لیے اس کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے. لیکن تین دن سے کم کی مدت میں قرآن مجید کی تلاوت کی تکمیل درست نہیں ہے. یعنی روزانہ دس سیپاروں سے زیادہ تلاوت کرنا حضور  کے فرمان کے مطابق مناسب نہیں ہے. تاہم روزانہ کم سے کم ایک پارہ ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ ایک ماہ میں قرآن حکیم کی تلاوت مکمل ہو جائے. صحابہ کرامؓ کا معمول یہ تھا کہ روزانہ ایک حزب کی تلاوت کر کے سات دن میں قرآن مکمل کر لیا کرتے تھے. اور یہ بات تو آپ کو معلوم ہو گی کہ قرآن مجید کے کُل سات احزاب ہیں اور ہر حزب تقریباً ساڑھے چار پاروں پر مشتمل ہوتا ہے جس کی تلاوت انتہائی سکون اور آرام سے دو گھنٹوں میں کی جا سکتی ہے. 

خوش الحانی

اللہ کے رسول  نے تاکیداً فرمایا ہے کہ ’’زَیِّنُو الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ‘‘ یعنی قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو اور اس معاملہ میں کوتاہی پر بڑے سخت الفاظ میں تنبیہہ فرمائی ہے: ’’مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْاٰنِ فَلَیْسَ مِنَّا‘‘ یعنی جو شخص قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے. اس لیے ہمیں اپنی کوشش کی حد تک قرآن کو بہتر سے بہتر انداز میں اور اچھی سے اچھی آواز سے پڑھنا چاہیے. 

ترتیل

قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اسے ترتیل کے انداز میں پڑھیں. ترتیل کا مطلب ہے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا. یعنی قرآن کی ہر آیت پر رُکتے ہوئے اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھنتے ہوئے‘ اور اس کے اثرات کو دل میں سموتے ہوئے پڑھا جائے. خود نبی کریم  کو شروع ہی میں یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ: ﴿یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ ...... وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾﴾ یعنی ’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (محمدؐ ) رات کو (اپنے ربّ کے سامنے) کھڑے ہوا کرو … اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو‘‘. علامہ اقبالؔ نے اس رات کے قیام کی کتنے خوبصورت انداز میں ترغیب دلائی ہے کہ ؏ ’’کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی‘‘.

حفظ

قرآن کی تلاوت ہی کا ایک گوشہ حفظ قرآن بھی ہے. عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حفظ القرآن پورے کے پورے قرآن کو زبانی یاد کر لینے کا نام ہے اور یہ کام کسی خاص طبقے کے لوگوں کے کرنے کا ہے. ظاہر ہے کہ یہ خیال درست نہیں. بلکہ حفظ قرآن سے مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان زیادہ سے زیادہ قرآن کو یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے تاکہ وہ اِس قابل ہو سکے کہ نفل نمازوں میں اور خاص طور پر تہجد کی نماز میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھ سکے. اس لیے کہ نبی اکرم  کا معمول یہی تھا کہ آپ تہجد کی نماز میں طویل قراء ت کیا کرتے تھے. بعض اوقات ایک ایک رکعت میں کئی کئی پاروں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے. لہٰذا ہم میںسے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ قرآن کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور یاد کرے … اور قرآن مجید کے آخری تین چار پارے تو ہم میں سے ہر شخص کو یاد ہونے چاہئیں اس لیے کہ آخری پاروں میں سورتیں زیادہ طویل نہیں ہیں اور عام طور پر نمازوں میں انہی کو پڑھا جاتا ہے. لیکن اگر کوئی شخص پورے قرآن کو حفظ کرنے کا اہتمام کرتا ہے تو یقینا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے جس کا تذکرہ حضور  کی احادیث میں موجود ہے.