قرآن کو سمجھا جائے

قرآن مجید کا تیسرا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے. قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے‘ـ لیکن یہی وہ سب سے زیادہ مظلوم کتاب بھی ہے جو سب سے زیادہ بغیر سمجھے پڑھی جاتی ہے. ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ خدانخواستہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کا کوئی ثواب نہیں ہے. آنحضور  کا وہ فرمان مبارک ہمارے سامنے ہے جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں. پھر آپؐ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ّ‘‘ تین حروف ہیں، ان کی تلاوت پر تیس نیکیاں ملتی ہیں. آپ کے اس قول مبارک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر سمجھے تلاوت کرنا بھی ثواب سے خالی نہیں. لیکن ہمارے لیے قابل غور بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کرنے میں تمام زندگیاں کھپا دیں لیکن اللہ کے دین کو سمجھنے کے لیے بنیادی عربی تک نہ سیکھ سکے‘ وہ اللہ کے ہاں کیا جواب دیں گے؟ ہم اگر دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیس سال لگا دیتے ہیں اور دولت کمانے کی خاطر ہر قسم کی اجنبی زبان سیکھنے کے لیے ہر دَم تیار رہتے ہیں لیکن اللہ کے پاک کلام کو سمجھنے کی خاطر عربی زبان سیکھنے کی کوشش تک نہیں کرتے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ہماری نگاہوں میں اللہ کے کلام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے. اپنے اس طرز عمل سے جو گویا قرآن کی تحقیر کے مرکتب ہو رہے ہیں جو بہت بڑا جرم ہے. لہٰذا وہ تمام لوگ جنہوں نے دنیاوی تعلیم حاصل کی ہے یعنی ایف اے‘ بی اے یا ایم اے وغیرہ کیا ہے ان کے لیے عربی زبان سیکھنا از بس ضروری ہے. 
قرآن مجید کے سمجھنے اور اس سے نصیحت اخذ کرنے کے دو درجے ہیں. 

پہلا درجہ ’’تذکُرّ‘‘ کا ہے. تذکُرّ کا لفظ ’’ذکر‘‘ سے بنا ہے جس کا مطلب ہے یاددہانی. یہ بات آپ کے علم میں ہو گی کہ قرآن اپنے آپ کو ’’ذکریٰ‘‘ بھی کہتا ہے یعنی مجسم یاددہانی اور نصیحت. یاددہانی ہمیشہ کسی بھولی بسری بات کی کرائی جاتی ہے اور یاددہانی کے لیے کوئی نشانی بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے. مثال کے طور پر آپ کے کسی عزیز دوست نے چند سال قبل آپ کو تحفے میں کوئی عمدہ قلم دیا. وہ قلم آپ اپنی الماری کے کسی گوشے میں رکھ کر بھول گئے. اُس دوست سے بھی کئی سال سے ملاقات نہ ہو سکی. اب اچانک کسی دن آپ کو الماری میں دوست کا دیا ہوا وہ قلم نظر آ جاتا ہے. اس نشانی کو دیکھتے ہی اس دوست کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے. بالکل اسی طرح قرآن کی آیات بھی نشانی کا کام کرتی ہیں. ہم اپنی غفلت کی وجہ سے اللہ کو بھول جاتے ہیں، لیکن جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اُس کی ایک ایک جملہ نشانی کا کام کرتا ہے. اور اس پر غور کرنے سے اللہ کی یاد دل میں تازہ ہو جاتی ہے. اس اعتبار سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ’’وعدۂ الست (۱جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اُس وقت لیا تھا جب ابھی صرف ارواح کی تخلیق ہوئی تھی‘ اس کو یاد دلانے کے لیے قرآن مجید کو نازل کیا گیا ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے ہر جملے کو آیت کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے نشانی. یعنی قرآن کی آیات کو اگر ہم سمجھ کر پڑھیں تو اللہ پر ایمان اور اس کی بندگی کے عہد کی یاددہانی ہو جاتی ہے. اور چونکہ اِس یاددہانی کی ضرورت ہر شخص کو ہے‘ لہذا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس پہلو سے نہایت آسان بنا دیا ہے. جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: ’’وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ‘‘ (القمر) یعنی ’’ہم نے قرآن کو یاددہانی کے لیے آسان بنا دیا ہے. تو ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھانے والا؟‘ 

قرآن مجید کو سمجھنے اور اس سے نصیحت اخذ کرنے کا دوسرا درجہ ’’تدبر‘‘ کہلاتا ہے. یعنی قرآن میں غور و فکر اور سوچ بچار کرنا‘ اس میں سے علم و حکمت اور معرفت کے موتی چن کر نکالنا. آنحضور ؐ نے فرمایا ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کے مطالعے سے علماء کبھی سیر نہ ہو سکیں گے. اور نہ ہی کثرتِ تلاوت سے اس کے لطف میں کمی واقع ہو گی اور نہ ہی اس کے (علم کے) عجائبات کا خزانہ کبھی ختم ہو گا‘ اس انداز سے قرآن کا مطالعہ کرنے اور قرآنی علم کے عجائبات سے حقیقی طور پر فیض یاب ہونے کے لیے اعلیٰ درجے کی علمی صلاحیت کی ضرورتی ہوتی ہے. اس لیے ہر شخص کے لیے لازم بھی نہیں ہے لیکن ہر دَور میں کچھ افراد ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو اس انداز سے قرآن کا مطالعہ کریں‘ پوری زندگی قرآن پر غور و فکر میں کھپا دیں اور اس کی حکمتوں اور معارف کو عام کریں.(۱)اس عہد کا ذکر سورۃالاعراف(آیت۱۷۲)میں ہے.