جب ہم حضور ﷺ اور ان کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں قرآن رچا بسا ہوا تھا. ان کا ہر ہر عمل اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ انہوں نے قرآن کو واقعتا اپنا راہنما بنایا ہے اور انہوں نے اپنی مرضی کو قرآن کے فیصلے کے آگے جھکا دیا ہے. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک صحابیؓ نے یہ سوال کیا کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت کیسی تھی! انہوں نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’انؐ کی سیرت قرآن ہی تو تھی‘‘. یعنی حضورؐ کی زندگی اس طرح کے احکامات کے مطابق تھی‘ گویا آپؐ کا ایک چلتا پھرتا قرآن تھے. ہمارے لیے اس میں رہنمائی یہ ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زندگی گزاریں تو ہمارے لیے حضور ﷺ کی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے. گویا حضور ؐ کے نقش قدم پر چلنا‘ قرآن پر عمل کرنے کا ذریعہ ہے.
قرآن کے کچھ احکام انفرادی زندگی سے متعلق ہیں اور بعض اجتماعی معاملات سے ہے. ایسے تمام معاملات جن کا تعلق کسی فرد کی ذاتی زندگی سے ہے مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ‘ حلال رزق کمانا‘ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا وغیرہ‘ یہ احکام ہر مسلمان کے لیے ہر دَم لازم ہیں. لیکن وہ احکام جو اجتماعی معاملات سے متعلق ہیں مثلاً چور کا ہاتھ کاٹنا‘ سودی نظام کا خاتمہ وغیرہ ‘ ایسے احکام پر اپس وقت تک عمل نہیں کیا جا سکتا جب تک طاقت اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ ہو. چنانچہ ایسے حالات میں جبکہ مسلمانوں کے پاس اقتدار اور حکومت نہ ہو‘ تمام مسلمانوں پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ غلبہ اسلام کے لیے جدوجہد کریں تاکہ قرآن کے تمام احکام پر عمل کرنا ممکن ہو جائے. اس لیے کہ قرآن کے بعض احکام پر عمل کرنا اور بعض کی خلاف ورزی کرنا اللہ کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے. یہودیوں میں گمراہی پیدا ہو گئی تھی کہ وہ تورات کی بعض ہدایات پر عمل کرتے تھے اور بعض احکام کو توڑ ڈالتے تھے. اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں بڑے سخت الفاظ میں تنبیہہ فرمائی ہے. ارشاد ہوتا ہے: ’’کیا تم کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو. تو تم میں سے جو کوئی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُسے دنیا میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور آخرت میں شدید ترین عذاب میں دھکیل دیا جائے‘‘. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو ترک کر دیا ہے. ہم قرآن حکیم کے بعض احکامات پر تو عمل کرتے ہیں لیکن اکثر احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ قرآن سے ہماری لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ قرآن میں ہمیں کیا ہدایات اور احکامات دیئے گئے ہیں. علامہ اقبال نے آج سے نصف صدی قبل اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر