اس پر عمل کیا جائے

قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے اور اسے اپنی زندگی کے لیے رہنما بنائے. حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا تبھی زیادہ مفید ہو گا جب اس پر عمل بھی کیا جائے. قرآن تو ﴿ھُدًی لِلنَّاس﴾ یعنی تمام لوگوں کے لیے راہنمائی ہے. اس میں ہمارے لیے ہر ہر معاملے کے لیے ہدایات موجود ہیں. قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر عمل کرنا چاہیے اور کن کاموں سے بچنا چاہیے. اس میں انفرادی احکام بھی ہیں اور اجتماعی قوانین بھی. اور اللہ تعالیٰ نے یہ تفصیلی ہدایات اسی لیے ہمیں عطا کی ہیں کہ ہم ان کے مطابق زندگی گزاریں. اگر ہم اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کی شریعت کو نافذ نہیں کرتے تو یہ بڑی نا شکری کی بات ہے. قرآن مجید میں سورۃ المائدہ میں ارشاد ہوا ہے: ﴿وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۴۴﴾﴾ یعنی ’’جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے (قرآن) کے مطابق فیصلے نہیں کرتے‘ وہی تو کافر ہیں‘‘. اسی بات کو نبی اکرم  نے ایک اور انداز سے واضح فرمایا ہے. آپؐ کا ارشاد ہے: مَا اٰمَنَ بِالْقُرْاٰنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہٗ ’’جس شخص نے کسی ایسی چیز کو اپنے لیے جائز ٹھہرایا جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہو تو ایسا شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا‘‘. یہ ہمارے لیے بڑی چونکا دینے والی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہو تو ایسے شخص کے بارے میں حضورؐ یہ فرما رہے ہیں کہ وہ مومن نہیں ہے. اس سے ثابت ہوا کہ یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو اس ارادے سے پڑھیں اور سمجھیں کہ ہمیں ہر صورت قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے، چاہے ہمیں کتنی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں اور کیسی ہی قربانیاں دینی پڑیں. اس کے بغیر قرآن پر عمل کا حق ادا نہیں ہو سکتا. 

حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کی صرف تلاوت کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ان کے لیے قرآن کی تلاوت کچھ زیادہ مفید نہیں ہو گی بلکہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ اس طرح کی تلاوت ان کے حق میں مُضر ثابت ہو. امام غزالیؒ اپنی کتاب 
’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قرآن کے بعض پڑھنے والے ہیں کہ جنہیں سوائے لعنت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ اس لیے کہ جب وہ قرآن میں یہ پڑھتے ہیں کہ: ’’لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین‘‘ یعنی جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو‘ اور اگر وہ خود جھوٹ بولتے ہیں تو یہ لعنت خود انہی پر ہوئی. اسی طرح کم تولنے‘ تھوڑا ناپنے‘ پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے اور طعنہ دینے والے قرآن حکیم کو پڑھتے ہوئے خود قرآن مجید کی دردناک سزاؤں کے مستحق ٹھہرتے ہیں. 

جب ہم حضور  اور ان کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیوں میں قرآن رچا بسا ہوا تھا. ان کا ہر ہر عمل اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ انہوں نے قرآن کو واقعتا اپنا راہنما بنایا ہے اور انہوں نے اپنی مرضی کو قرآن کے فیصلے کے آگے جھکا دیا ہے. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک صحابیؓ نے یہ سوال کیا کہ نبی اکرم  کی سیرت کیسی تھی! انہوں نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ’’انؐ کی سیرت قرآن ہی تو تھی‘‘. یعنی حضورؐ کی زندگی اس طرح کے احکامات کے مطابق تھی‘ گویا آپؐ کا ایک چلتا پھرتا قرآن تھے. ہمارے لیے اس میں رہنمائی یہ ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زندگی گزاریں تو ہمارے لیے حضور  کی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے. گویا حضور ؐ کے نقش قدم پر چلنا‘ قرآن پر عمل کرنے کا ذریعہ ہے. 

قرآن کے کچھ احکام انفرادی زندگی سے متعلق ہیں اور بعض اجتماعی معاملات سے ہے. ایسے تمام معاملات جن کا تعلق کسی فرد کی ذاتی زندگی سے ہے مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ‘ حلال رزق کمانا‘ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا وغیرہ‘ یہ 
احکام ہر مسلمان کے لیے ہر دَم لازم ہیں. لیکن وہ احکام جو اجتماعی معاملات سے متعلق ہیں مثلاً چور کا ہاتھ کاٹنا‘ سودی نظام کا خاتمہ وغیرہ ‘ ایسے احکام پر اپس وقت تک عمل نہیں کیا جا سکتا جب تک طاقت اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہ ہو. چنانچہ ایسے حالات میں جبکہ مسلمانوں کے پاس اقتدار اور حکومت نہ ہو‘ تمام مسلمانوں پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ غلبہ اسلام کے لیے جدوجہد کریں تاکہ قرآن کے تمام احکام پر عمل کرنا ممکن ہو جائے. اس لیے کہ قرآن کے بعض احکام پر عمل کرنا اور بعض کی خلاف ورزی کرنا اللہ کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے. یہودیوں میں گمراہی پیدا ہو گئی تھی کہ وہ تورات کی بعض ہدایات پر عمل کرتے تھے اور بعض احکام کو توڑ ڈالتے تھے. اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں بڑے سخت الفاظ میں تنبیہہ فرمائی ہے. ارشاد ہوتا ہے: ’’کیا تم کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو. تو تم میں سے جو کوئی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُسے دنیا میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور آخرت میں شدید ترین عذاب میں دھکیل دیا جائے‘‘. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم نے قرآن کو ترک کر دیا ہے. ہم قرآن حکیم کے بعض احکامات پر تو عمل کرتے ہیں لیکن اکثر احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ قرآن سے ہماری لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ قرآن میں ہمیں کیا ہدایات اور احکامات دیئے گئے ہیں. علامہ اقبال نے آج سے نصف صدی قبل اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ ؎ 

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر