دیکھیٔے؛ اس سوال کے اندازمیں بھی ایک بہت پیارا نکتہ ہے. یعنی صحابہ کرامؓ عرض کر رہے ہیں کہ قربانی تو ہم دیتے ہی ہیں؛ تو کیو نکہ آپۥﷺ نے اس کا حکم دیا ہے. اس سے معلوم ہوا کہ حکم پر عمل کرنے کا دارومدار حکمت و علّت اور مقصد کے جاننے یا سمجھ لینے پر نہیں ہے؛ حکم پر عمل تو اصلاً اس لیے ہو گا کہ وہ حکم اللہ یا اس کے رسولﷺ کا ہے . البتہ اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ہر حکم پر غور و تدبر کرواور احکام کی علتیں اور حکمتیں سمجھنے اور دریافت کرنے کی کوشش کرو.ہمارے ہاں فقہ میں اجہتاداور قیاس کا جو معاملہ ہے اس کا دارومدار احکام کی علت و حکمت کی دریافت پر ہی ہے. کسی حکم کے بارے میں غور وتدبر کرنا اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنا کہ اس کا کیا سبب و علت ہے؟ اس کی کیا حکمت ہے؟ اس کا کیا مقصد ہے؟ ہمارے دین نے اس کی حوصلہ شکنی کے بجاۓ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے. اسی سے ہمت پا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ !ہم جو آپؐ کے حکم پر عید الاضحی کے موقع پر قربانی دیتے ہیں تو ہمیں یہ بتائیے کہ یہ ہے کیا ؟ یعنی اسکی غرض و غایت کیا ہے؟ اس کا پس منظر کیا ہے؟ یہ کس چیز کے لیے بطور علامت ہے؟ تو نبی اکرمؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ: سُنّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھم (۱) ’’یہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنّت ہے‘‘.گویا کہ یہ عظیم الشان واقعہ کی یادگارہے جس میں ایک سو سالہ بوڑھے باپ نے اللہ تعالیٰٰٰ کے حکم سے اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر ، جونوجوانی کے دور میں قدم رکھ رہا ہے، چھری پھیر دی تھی. جو گویا کہ اللہ کی راہ میں قربانی کی آخری صورت ہو سکتی ہےکہ اپنی محبت ، اپنے جذبات اوراحساسات کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے قربان کر دیا جاۓ.
یہ وہ واقعہ ہے جو اس لحاظ سے نوعِ انسانی کی تاریخ کی ایک عظیم علامت (symbol) بن گیا ہےاور اس طرح یہ قربانی ہمیشہ کے لیے شعائر دین میں شامل ہو گئی ہے.یہ اس قربانی کی روح کو بیدار اور بر قرار رکھنے کا بھی ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ایک بندۂ مؤمن سے مطلوب ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہو.چنانچہ یہ حضرت ابراہیمؑ کی اس قربانی کی یاد ہے جو ہر سال منائی جاتی ہے.
(۱) مسند احمد ۳۶۸/۴. سنن ابن ماجہ (ح ۳۱۲۷) کتاب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ