حیاتِ ابراہیمی ؑ: امتحان و آزمائش کی مثال ِ کامل

اس امتحان کی جو کامل و مکمل مثال قرآن مجید پیش کرتا ہے وہ حضرت ابراہیم (علیٰ نبینا و علیہ السلام) کی زندگی ہے. چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۲۴ کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے: وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ ’’اور یاد کرو کہ جب آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے بڑی بڑی باتو ں میں تو وہ ان سب میں پورا تر گیا‘‘ یہاں لفظ ابتلاء آگیا . اس کے معنی ہیں کسی کو آزمانا ، امتحان و آزائش میں ڈالنا یہاں لفظ ’’ بِکَلِمٰتٍ‘‘ میں تنوین تنکیر کے لیے آئی ہے ، یعنی اس نے اس کو نکرہ بنا دیا ہے،اور تنکیر عربی زبان میں تفخیم کے لیے یعنی کسی چیز کی عظمت و شان کو بیان کرنے کے لیے آتی ہے. چنانچہ’’بِکَلِمٰتٍ‘‘ میں بڑے بڑے اور کٹھن امتحا نات کا مفہوم شامل ہو گیا ہے. حضرت ابراہیم ؑ کے اس رب نے بڑے سخت اور مشکل امتحانات لیے ، لیکن اس اللہ کے بندے نے سب کو پورا کر دیکھایا. فَاَتَمَّہُنَّ اس کی قوّتِ ارادی میں کہیں ضعف و تا ٔمل پیدا نہیں ہوا ، اس کی عزیمت میں کمزوری اور تذبذب کے کہیں آثار ہو یدا نہیں ہوۓ. 

جب حضرت ابراہیم ؑ ان امتحانات کو پاس کر گئے تو ان کو یہ بشارت دی گئی: 

قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ 
’’(اللہ تعالیٰ نے ) کہا (اے ابراہیمؑ)ےیقیناََ میں تجھے پورے نوعِ انسانی کا امام بنانے والا ہو ں.‘‘ حضرت ابراہیمؑ نے بر بناۓ طبعِ بشری فوراَ َ سوال کیا: قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ عرض کیا: اے اللہ! یہ وعدہ صرف مجھ سے ہی ہے یا میری نسل سے بھی ہے؟ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۲۴﴾ ’’ فرمایا : میرا یہ عہد ظالموں ک ساتھ نہیں ہو گا‘‘. تمہاری نسل میں سے جو ظالم ہو گے وہ اس وعدے کے مستحق نہیں ہوں گے ’’ ظلم‘‘ کے متعلق ہمارے اکثر دروس میں ذکر ہو چکا ہے کہ قرآن کریم میں اکثر و بیشتر ’’ظلم‘‘ کے الفاظ سے شرک مراد ہوتا ہے تمہارا اصل کمال یہ ہے کہ تم نے توحید کی ترازو میں پورا اتر کر دکھا یا . اس کی وجہ سے تم ’’امام النّاس ‘‘ کے مقام پر فائز کئے جا رہے ہو. اب تمہاری نسل میں سے جو لوگ مشرک ہو جائیں گے تو وہ میرے اس عہدکے حق دار کیسے ہو سکتے ہیں ؟ اس مفہوم کو بھی علامہ اقبال مرحوم نے بڑے سادہ الفاظ میں ادا کیا ہے ؎

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو 
پھر پسر لائق میراثِ پدر کیونکر ہو؟

معاملہ کسی اصول کے تحت ہو گا . محض نسل کے اعتبار سے ہو تو یہ انصاف اور عدل و قسط کے معنی ہو گا.