اب آیا معاملہ عوام کا وہ عوام جو فی زمانہ خدائی کے مدّعی ہیں. کبھی ایک فرد حاکمیت ـُمطلقہ کا مدعی ہوا کرتا تھا ، اب عوام اس کے مدعی ہیں بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اب آپ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم کے جذبات و احساسات اور ان کے عقاٰئد کا اندازہ کیجئےکسی کو ہندو قوم کا ذرا سا بھی تجربہ ہو تو وہ جانتا ہو گا کہ بُتو ں کے بارے میں اور ان کے جو بُت کدے اور اصنام خانےہیں ان کے بارے میں ان کے جذبات و احساسات کیا ہیں ؟ ایسے شخص کو اندازہ ہوگا کہ کتنی جرأتِ مؤمنانہ تھی حضرت ابراہیمؑ کی اور انہوں نے کس قدر عظیم کام کیا اُن کے سب سے بڑے صنم خانے میں جاکر اُن کے تمام بُتوں کو ، سب سے بڑے بُت کو چھوڑ کر ، توڑ پھوڑ ڈالا اور بایں طور ان کے باطل عقائد پر ضرب کاری لگا دی ،یہ واقعہ سورۃ لانبیاء میں قدرے تفصیل سے آیا . انہوں نے قسم کھائی تھی کہ میں ان کے بُتوں کی خبر لوں گا. چنانچہ ایک موقع پر جبکہ شہر کے تمام لوگ کسی تہوار کے سلسلے میں پوجا پاٹ اور میلہ میں شرکت کے لئے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے، جیسے ہندوؤں میں بھی بعض تہوار شہر باہرسے منائے جاتے ہیں ، حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے سب سے بڑے بُت کدے میں جا کر ان کے بڑے بُت کو چھوڑ کر باقی سب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور ریتشہ بڑے بُت کے گلے میں لٹکا دیا. یہ اس لئے کہ شاید ان کی قوم حقیقتِ نفس الامری کی طرف رجوع کر سکے. قرآن مجید اس واقعہ کا اس طرح ذکر کرتا ہے: 

فَجَعَلَہُمۡ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیۡرًا لَّہُمۡ لَعَلَّہُمۡ اِلَیۡہِ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۵۸﴾قَالُوۡا مَنۡ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَاۤ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۹﴾قَالُوۡا سَمِعۡنَا فَتًی یَّذۡکُرُہُمۡ یُقَالُ لَہٗۤ اِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۰﴾قَالُوۡا فَاۡتُوۡا بِہٖ عَلٰۤی اَعۡیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡہَدُوۡنَ ﴿۶۱﴾قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۲﴾قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۳﴾فَرَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ فَقَالُوۡۤا اِنَّکُمۡ اَنۡتُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿ۙ۶۴﴾ثُمَّ نُکِسُوۡا عَلٰی رُءُوۡسِہِمۡ ۚ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۵﴾قَالَ اَفَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا یَضُرُّکُمۡ ﴿ؕ۶۶﴾اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۷﴾ 
(الانبیاء:۵۸تا۶۷
’’چنانچہ اس نے ان کو ٹکڑےٹکڑے کر دیا اور صرف اُن کے بڑے کو چھوڑ دیا، تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں.(انہوں نے آکر بُتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے: ہمارے خداؤں کایہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی ظالم تھا وہ. (بعض لوگ )بولے : ہم ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا تھا ، جس کا نام ابراہیم ہے. انہوں نے کہا: تو پکڑ لاؤ اسے سب کے سامنے تا کہ لوگ دیکھ لیں(کہ اس کی خبر کیسے لی جاتی ہے)(ابراہیم ؑکے آنے پر ) انہوں نے پوچھا: کیوں ابراہیم ! تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟ اس نے جواب دیا:بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، ان ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے 
ہیں : یہ سن کر وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹےاور(اپنے دلوں میں )کہنے لگے: واقعی تم خود ہی ظالم ہو. مگر پھر ان کی مت پلٹ گئی اور بولے: تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں . ابراہیمؑ نے کہا : پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچانے پر قادر ہیں اور نہ نقصان . تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو. کیاتم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے ؟‘‘

ان آیات میں 
فَرَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ فَقَالُوۡۤا اِنَّکُمۡ اَنۡتُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿ۙ۶۴﴾ والی آیت خاص طور پر قابل غور ہے. حضرت ابراہیمؑ کی اسلوبِ گفتگو ، اندازِ تبلیغ اور استدلال و حجت ان مشرکوں کو نہ صرف مبہورت اور لاجواب کر دیا ، بلکہ اس کا اس حد تک اثر ہوا کہ لوگوں نے اپنے گریبانوں میں جھانکا ار محسوس کر لیا کہ بات ابراہیم کی صیحح ہے، اصل میں ہم ہی غلطی پر ہیں . قرآن حکیم کہتا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے بطورِحجّت اُن سے یہ کہا : 

قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿۶۳﴾ 
اس بڑے بُت نے توڑ پھوڑ کا یہ کام کیا ہو گا، چونکہ یہ موقع واردات پر موجود بھی ہے اور آلۂ بھی اس کے پاس ہی سے برآمد ہوا ہے. گویا عام واقعاتی شہادتیں (Circumstancial Evidences) تو اس بڑے بُت کے خلاف جاری ہیں، پھر یہ تمہارے معبود ان جو ٹوٹے پھوٹے اور بکھرے پڑے ہیں ؛ تو اگر یہ بول سکتے ہوں تو انہی سے پوچھ لو کہ ان کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے؟ اس حجت سے انہوں نے اپنے دلوں میں محسوس تو کر لیا کہ مت تو ہماری ہی ماری گئی ہے،یہ بُت بول کب سکتے ہیں !اور یہ بات ان کی زبان پر بھی آگئی کہ اے ابراہیم! تُو تو جانتا ہی ہےکہ یہ بول نہیں سکتے. لیکن دل میں کسی حقیقت کا منکشف ہو جانا اور بات ہے اور اس حقیقت کو دل و جان سے قبول کر لینا اور اس کا اقرار کر لینا بالکل دوسری بات ہے ؎ 

زعشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است!

دنیا میں ہر دور میں ایسے اشخاص کی کمی نہیں رہی، بلکہ معتدبہ تعداد رہی ہے جن پر حقیقتِ نفس الامری منکشف تو ہو جاتی ہے لیکن ان میں اس کو قبول کرنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں ہوتاـ مقا بلتاً ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں جن کے اندر کی بصیرت اور اندر کا انسان بالکل مر چکا ہوتا ہے اور ان کی عقل پر پتھر پڑ چکے ہوتے ہیں اگر انسان کے باطن میں حیاتِ معنوی کسی درجے میں باقی ہو تو حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے. لیکن اس انکشافِ حقیقت کا اعتراف کر لینا اور اس کو تسلیم و قبول کر لینا آسان کام نہیں ہے مصلحتیں ہیں ، چودھرا ہٹیں ہیں ، مفادات ہیں، جو دامن کو پکڑ لیتے ہیں . اب وہاں جو ،پجاری ، پنڈٹ اور پروہت ہوں گے ان کے مفادات اور ان کے vested interests آخر کیسے پوجا پاٹ اور اصنام پرستی کے نظام کے خاتمے کو گوارا کر لیتے ؟ اصنام پرستی کے نظام میں جو نذرانے بُتوں پر چڑھاۓ جاتے ہیں غور کیجئے کہ وہ نذرانے اور وہ حلوے مانڈے آخر کہاں جاتے ہیں ؟ وہ ان ہی پروہتوں اور پنڈتوں کے یہاں ہی تو جاتے ہیں پھر بادشاہی کا جو نظام چل رہا ہوتا ہے وہ بھی ان نذرانوں اور چڑھاووں سے اپنا حصّہ وصول کرتا ہے. چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کی حجت کی اس عملی تدبیر ان پر حقیقت تو منکشف ہو گئی لیکن وہ ااس کو قبول نہ کر سکےـــــــ اس امتحان میں بھی حضرت ابراہیم (علیٰ نبینا و علیہ الصّلوۃ والسلام) سرخرو ہوتے ہیں. ورنہ خود سوچئے کہ اس situation میں ایک mob کا مواجہہ کرنا کیا آسان کام تھا؟