عوام کے ساتھ اس مقابلے میں کامیاب ہو جانے کے بعد اب حکومت و اقتدارِ وقت سے مقابلہ کی نوبت آتی ہے اور اس سے محابّہ، مباحثہ اور تصادم ہوتا ہےـــــــ عوام کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس کا ذکر سورۃ الصافات میں بھی ہے اور زیادہ تفصیل کے ساتھ سورۃ الانبیاء میں ہےــــــــ البتہ بادشاہِ وقت کے دربار میں جو پیشی ہوئی، اس کا ذکر سورۃ البقرۃ میں ہے. فرمایا : 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۙ قَالَ اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ؕ (البقرۃ : ۲۵۸
’’کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے اور اس بناءپر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی. جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے تو اس نے جواب دیا: زندگی اور موت میرے اخیار میں ہے.‘‘

ایک عظیم شہنشاہ کے دربار میں پیشی ہے جو خدائی کا بھی مدّعی ہے. ذرا چشمِ تصوّر سے دیکھئے کہ اس کے دربار کے کیا ٹھاٹ باٹ ہوں گے! کتنا با رعب ماحول ہو گا! عمائدین سلطنت ہاتھ باندھے صف در صف کھڑے ہوں گے. سب کی گردنیں خم اور نگاہیں نیچی ہوں گی. کسی کی مجال نہیں ہو گی کہ شنشاہِ وقت کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے، لیکن اس بارعب ماحول میں وہ نوجوان پوری طمانیتِ خاطر کے ساتھ پیش ہوتا ہے. اسے کوئی خوف نہیں، کوئی اندیشہ نہیں، کسی قسم کا کوئی ہراس نہیں اور وہ پوری دلیری کے ساتھ اس خدائی کے دعوے دار شہنشاہ سے محاجّہ کرتا ہےاور علی الا علان کہتا ہے کہ 
رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ اس بیوقوف نے بحث میں الجھنے کی خاطر کہا اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ ؕ ’’ میں بھی جِلاتا ہوں اور مارتا ہوں‘‘ یہ اختیار تو میرے ہاتھ میں بھی ہےـــــــــ روایات میں آتا ہے کہ یہ کہنے کے بعد اس نے جیل سے دو قیدیوں کو بلایا، ایک کی گردن اڑا دی اور ایک کو آزاد کر دیا کہ جاؤ مزے کرو اور حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ تم نے دیکھا میرا اختیار! میں نے ایک کو مروا دیااور ایک کو زندہ رکھاـــــــــ اس کی اس کج بحثی کا رویہ دیکھ کر حضرت ابراہیمؑ نے فوراً آخری حجت پیش کر دی: 

قَالَ اِبۡرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ 

’’ ابراہیم نے کہا کہ (میرا) اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے(اگر تجھ میں خدائی کا کچھ اختیار ہے تو) تُو اسے مغرب سے نکال کر دکھا‘‘. 

اس حجت قاطعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ: فَبُہِتَ الَّذِیۡ کَفَرَ ’’(یہ سن کر) وہ منکرِحق ششدر ہو کر رہ گیا‘‘اس امتحان میں بھی حضرت ابراہیمؑ کامیاب ہو گئے.