آگ کے الاؤ سے بچنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے ہجرت کا فیصلہ کیا: وَ قَالَ اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾ (الصافات:۹۹’’اور ابراہیم نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں ، وہی میری رہنمائی کرے گا‘‘. یعنی میں اپنے رب کی خاطر گھر بار اور وطن چھوڑ رہا ہوں. رہا یہ معاملہ کہ میرا آئندہ ٹھکانہ کہاں ہوں گا تو اس کو اس کے حوالے کرتا ہوں، وہ میری رہنمائی کرے گا یہ ہوا پانچواں امتحان ، وطن کو خیر باد کہنا اور صرف اللہ کے بھروسے پر وہاں سے نکل جانا. کوئی منزل پیش نظر نہیں، کوئی منصوبہ بندی نہیں. توکل کا یہ عالم کہ ’’میرا رب جلد ہی رہنمائی فرمائے گا‘‘ یہ آج سے چار یا ساڑھے چار ہزار سال قبل کی بات ہے لہذا اس کو آج کے زمانے اور اپنے دور پر قیاس نہ کر لیجئے گا. اُس زمانے میں اپنے وطن کو خیر باد کہنا کوئی آسان کام نہیں تھا. اُس وقت انسان کو جغرافیہ کا کتنا علم ہو گا اس کی کتنی معلومات ہوں گی کہ میرے ملک کے علاوہ کون کون سے قریبی ممالک ہیں اور ان کے باشندوں کی مذہبی و معاشرتی کیفیات کیا ہیں !! یہ نہیں تھا کہ یہاں بیٹھے آپ کے پاس امریکہ کے بڑے شہروں اور ہوٹلوں کے نام اور فون نمبر تک موجود ہیں اور آپ یہاں سے با قاعدہ پیشگی بکنگ کرا کے جا رہے ہیں. اس معنیٰ میں اُ س وقت انتہائی غیر یقینی صورت حال تھی. تو کّل و اعتماد تھا تو صرف اپنے رب پر وَ قَالَ اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾ یعنی میں اپنے رب کی خاطر اس کی طرف جا رہا ہوں، لہذا وہی میری رہنمائی کرے گا اور مجھے کوئی ٹھکانہ عطا فرماۓ گا.یہ ہجرت خالص الی اللہ تھی. وہ جو حدیث آتی ہےکہ: فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہ اِلَی اللہِ وَ رَسُوْلِہ فَھِجْرِتُہ اِلَی اللہِ وَ رَسُوْلِہ (۱’’پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہوگی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف شمار ہو گی‘‘. اُس وقت بظاہر تو ہجرت ہو رہی تھی مدینہ کی طرف ، لیکن اصل میں تو یہ ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف تھی وہاں منزل کا پتہ تو تھا، لیکن یہاں تو کچھ معلوم نہیں تھا کہ منزل کون سی ہو گی. لہذا میرے خیال میں حضرت ابراہیمؑ (۱) رواہ البخاری فی بد ء الوحی، و فی الایمان، باب ما جاء ان الاعمال بالنیتہ… و مسلم (ح ۱۹۰۷) فی المارۃ، و ابو داؤد (ح ۲۲۰۱) فی الطلاق، والترمذی (ح ۱۶۴۷) فی فضائل الجھاد، والنسائی (۲۰،۵۹(علی ٰنبینا و الصلٰوۃ و السلام ) کی یہ ہجرت ،ہجرت الی اللہ کی کامل ترین نظیر ہے. اس ہجرت میں ان کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ اور ان کے بھتیجے حضرت لوطؑ تھے. یہ دونوں آپؑ پر ایمان لا چکے تھے. حضرت لوطؑ کو بعد میں سدوم کی بستی کی طرف دعوتِ توحید اور رشد و ہدایت کے لئے مامور فرما کر بھیج دیا تھااسی دوران حضرت ابراہیم ؑ نے مصر کا سفر اختیار کیا،جہاں کے باد شاہ نے ایک شہزادی حضرت ہاجرہؓ آپؑ کو ہدیہ میں دی. میں ان تفاصیل کو چھوڑ کر آگےچلتا ہوں.