اس ہجرت کی زندگی میں احساس ہوا کہ کچھ اعوان و انصار ہوں ، کوئی دست و بازوں ہو، تو زبان پر دعا آئی: 

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۰﴾ 
(الصٰفٰت:۱۰۰
’’اے میرے رب !مجھے صالح اولاد عطافرما‘‘.
دعا قبول ہوتی ہے اور اس بوڑھے موحد کو ستاسی سال کی عمر میں حضرت اسماعیل (علی ٰنبینا و الصلٰوۃ و السلام ) جیسا بیٹا حضرت ہاجرہ ؓ کے بطن سے عطا ہوتا ہے.آپ کی پہلی اہلیہ حضرت سارہؓ ، جو آپ ہی کی خاندان سے تھیں اور جنہوں نے ہجرت میں آپ کا ساتھ دیا تھا، بانجھ تھیں . ان کو حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے بعد جب فرشتوں کے ذریعے اسحٰقؑ کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو انہوں نے اپنا آپا پیٹ لیا تھا. اس کا ذکر سورۃٔ ہود میں آیا ہے: 

قَالَتۡ یٰوَیۡلَتٰۤیءَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوۡزٌ وَّ ہٰذَا بَعۡلِیۡ شَیۡخًا ؕ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عَجِیۡبٌ ﴿۷۲﴾ 
(ہود:۷۲
’’وہ کہنے لگی : ہاۓ میری بدبختی ، میں بوڑھی پھونس اور بانجھ،کیا اس عمر میں میرے یہاں اولاد ہو گی؟ جبکہ میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں.یہ تو بڑی انوکھی بات ہے.‘‘ 
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت سارہ ؓ کا اللہ کی قدرت پر ایمان نہیں تھا یا وہ واقعی اولاد کی خوشخبری کو بدبختی سمجھتی تھیں،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اَن ہونی خبر پر بنائے طبع بشری ایک عورت کے جذبات و احساسات ہو سکتے ہیں ، وہ بے اختیار ان کی زبان پر آگئے تھے.

حضرت ابراہیم ؑ کی ہجرت کے بعد کی پوری زندگی مسلسل مسافرت و مہاجرت کی داستاں ہے. آج شام میں ہیں تو کل مصر میں ، پرسوں اردن یا فلسطین میں ،پھر حجاز کا بھی دورہ ہو رہاہے. فکر ہے تو یہی کہ کلمۂ توحید سر بلند ہو اور اس دعوت کے جابجا مراکز قائم ہو جائیں جب کہولت کے آثار کچھ زیادہ طاری ہوتے محسوس ہوۓ تو یہ دعا زبان پر آئی کہ 
رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۰﴾ اس کا جواب ملتا ہے: فَبَشَّرۡنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾ (الصٰفٰت:ا۰ا) ’’پس ہم نے اسے ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی.‘‘ اللہ کی قدرات اور دین ہے،جس کو جو چاہے دے دے. چنانچہ اس بڑھاپے میں حجرت ابراہیم ؑ کو ایک بردبار او ر حلیم بیٹے اسماعیل کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے اور بعد میں حضرت اسحاق ؑ کی ولادت کی ،تو یہ بندۂ حنیف اللہ کے اس فضل و کرم پر بایں الفاظ شکر ادا کرتا ہے کہ: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ 

’’(ابراہیم ؑ نے کہا ) اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق جیسے وارث عطا فرمائے.‘‘

جوانی کا دور ہوتا اور بیٹے ہو گئے ہوتے تو یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی. عام عادی قانون یہی ہے. اس کا بھی شکر ایک مسلمان پر واجب ہے. لیکن یہاں تو معاملہ ہے 
’’عَلَی الۡکِبَرِ‘‘ کا.دعا کی اس مقبولیت پر دل کی گہرائیوں سے تراشۂ شکر ادا ہوا. اسی لئے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ: 

اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۹﴾ 
(ابراہیم:۳۹
’’بلا شبہ میرا رب دعا ضرور سنتا ہے.‘‘