اب آگے بڑھنے سے قبل اس ابتلاء، آزمائش اور امتحانات پر ایک نگاہِ باز گشت ڈال لیجئے جس سے گزرتا ہوا یہ سو سال کا بوڑھا اس آخری اور کڑے امتحان تک پہنچا ہے. والدین اور گھر بار کو چھوڑا اللہ کے لیے،قوم سے اس نے منہ موڑا اللہ کی توحید کے لیے، شہنشاہ اور اقتدارِ وقت سے وہ جا ٹکڑایا اللہ کی توحید کے لئے، اپنی جان دینے پر آمادہ ہو گیا اللہ کی توحید کے لیے، وطن کو اس نے خیر باد کہا اللہ کی توحید کیلئےاپنے اکلوتے تیرہ سالہ نو عمر بیٹے کو وہ ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گیا حکم الٰہی کی تعمیل میں یہ آخری امتحان تھا، سب سے کڑا، سب سے مشکلاس کے نتیجے میں ہوا یہ کہ : وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۷﴾ ’’اور ہم نے اس (اسماعیل)کو چھڑایا ایک عظیم قربانی دے کر‘‘یعنی حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ ان کے بدلے میں ایک بڑی قربانی دے کر خود اللہ تعالیٰ نے ان کو چھڑایا.

یہ ذبح عظیم کیا تھا؟ اس کے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنت کا ایک مینڈھا تھا. قرآ ن مجید میں جس بات کو مجمل چھوڑ دیا گیا ہو تو اس کی تفصیل کیلئے 
ہمیں جناب محمد کی طرف رجوع کرنا ہو گا، کیونکہ تبیین قرآن آپؐ کا فرضِ منصبی ہے، ازروۓ آیت قرآنی : 

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ 
(النحل : ۴۴
’’(اے محمدؐ ) ہم نے یہ ذکر (قرآن مجید)آپ پر نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و تو ضیح کرتے جائیں جو ان کے لئے اتاری گئ ہے‘‘.

تو حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جنّت کا وہ مینڈھا حضرت اسماعیلؑ کی جگہ ذبح ہوا ہے. اس کو ’’ذبح عظیم‘‘ اس اعتبار سے کہا گیا کہ جنّت کا وہ مینڈھا زمین پر لا کر ذبح کیا گیا. اب اس ذبح عظیم کا سلسلہ ہے جو عیدالاضحی کے موقع پر ہر سال لاکھوں جانوروں کی قربانی کی شکل میں تواتر سے چلا آ رہا ہے. وہ یاد ہزاروں سال سے منائی جا رہی ہے. یہ جو جانور ہزاروں سال سے عیدالاضحی کے موقع پر ذبح ہوتے ہیں، یہ ایک اعتبار سے حضرت اسمٰعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کا فدیہ ہیں اور دوسرے اعتبار سے ان کا مفادیہ ہے کہ امّتِ مسلمہ کے ہر فرد کے دل میں یہ جذبہ ہر سال تازہ ہوتا رہے کہ وہ متاعِ دنیا کی محبوب ترین شے بھی اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہے. چنانچہ فرمایا : 
وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾ۖسَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿۱۰۹﴾کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۱۰﴾ 

’’اور ہم نے بعد کی نسلوں کے لیے اس (قربانی) کو (بطورِ یادگار) چھوڑ دیا. سلامتی ہو ابراہیم پر (جو اس کڑے امتحان میں پورا اترا) اور اسی طرح ہم محسنوں کی قدر دانی کرتے ہیں اور ان کو جزاء سے نوازتے ہیں‘‘.

ابراہیمؑ کی اس قربانی کے جذبے کی یادگار اللہ تعالیٰ نے آنے والوں کے لئے قائم کر دیآپ غور کریں کہ ابراہیمؑ پر سلام بھیجنے والوں کی اس وقت دنیا میں دو تہائی تعداد ہے. یہودی ہوں، عیسائی ہوں، وہ سب حضرت ابراہیمؑ کی تعظیم کرنے اور ان پر سلام بھیجنے والے ہیں اور ان کے نام لیوا ہیں. رہے مسلمان، تو وہ 
اس کا سب سے زیادہ حق رکھتے ہیں: اِنَّ اَوۡلَی النَّاسِ بِاِبۡرٰہِیۡمَ لَلَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ وَ ہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۶۸﴾ (آل عمران:۶۸

’’ابراہیم سے قریب ترین رشتہ اور نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی، اور اب یہ نبیؐ اور اس پر ایمان لانے والے اس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں. او راللہ صرف ان کا دوست ہے جو ایمان رکھتے ہیں.‘‘

پھر دیکھئے کہ ہر نماز میں آپ جو درود پڑھتے ہیں اس میں حضرت ابراہیم ؑ پر بھی درود بھیجا جاتا ہے، اس لئے یہ درودِ ا براہیمی کہلاتا ہے.

آگے حضرت ابراہیمؑ کی مدح میں فرمایا: 
اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۱﴾ 
’’یقیناََ وہ (یعنی ابراہیمؑ)ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھا ‘‘.

اب یہاں تین الفاظ نوٹ کر لیجئے: پہلا ’’اسلام‘‘ 
فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ ﴿۱۰۳﴾ۚ یہ اسلام ہے. اسی اسلام کا حضرت ابراہیمؑ کے بیان کے ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۳۱ میں ذکر ہے: اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾ ’’ ابراہیم ؑ کا یہ حال تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا مسلم ہو جاو تو اس نے فوراََ کہا : میں ربِّ کائنات کا مسلم ہو گیا‘‘ حضرت ابراہیم کی اسی کیفیت تسلیم کو سورۃ الصٰفٰت کی آیت ۸۴ میں یوں بیان کیا گیا ہےکہ اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۴﴾ ’’ جب وہ اپنے رب کے حضور قلبِ سلیم کے ساتھ پیش ہوا.‘‘ ان کے مسلم ہونے کی اللہ نے خود ہی سند عطا فرما رہے ہیں . دوسرا ’’ایمان‘‘ اب اللہ تعالیٰ کسی کو ’’مؤمن ‘‘ مان لے تو گویا اس کی طرف سے اسے ایک بہت بڑا سرٹیفکیٹ دے دیا گیا. چنانچہ فرمایا: اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۸۱﴾ اب زرا اسلام اور ایمان کی ان دو کسوٹیوں پر اپنے اسلام اور ایمان کو پر کھئے کہ ہم نے اعتبار ات سے کس مقام پر کھڑے ہیں ؟ ہم کتنے پانی میں ہیں ؟ اللہ کی راہ اپنی محبوب ترین چیز کو عملا ً قربان کرنے پر آمادہ ہوجا نا ، زبانی کلامی نہیں ، یہ ہے درجہ احسان اسلام،ایمان اور احسان ، تینوں کی حقیقتیں اس ایک واقعہ سے ہمارے سامنے آگئیں . ان ہی امتحانات سے گزرنے کے بعد حضرت ابراہیم ؑ اس مرتنے کو پہنچے کہ ان کو امام النّاس کے مقام پر فائز کیا گیا اور ان کو خلّتِ الہیٰ سے نوازا گیا: وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ (النساء:۱۲۵)