فریضۂ حج اور حیات ابراہیمی ؑ کے مراحل

اب ایک اور بات جا ن لیجئے کہ حج کا یہ جو پورا سلسلہ ہے، یہ در حقیقت ایک فرض عبادت ہے ہر زادِ راہ رکھنے والے صاحبِ استطاعت مسلمان پر، ازروئےنصِّ قرآنی: 

وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا 
(آلعمران:۹۷
’’ اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر (بیت اللہ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے ‘‘.

پھر حج جو مناسک ادا کئے جاتے ہیں ان کو شعائر اللہ قرار دیا گیا ہے سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا: 

اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَیۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ 
(آیت ۱۵۸
’’یقیناََ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ، لہذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑ یوں کے درمیان سعی کر لے‘‘.

سورۃ الحج میں فرمایا کہ قربانی کے جانور بھہ شعائر اللہ میں اسے ہیں : وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ جبکہ بیت اللہ اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا شعیرہ ہے شعائر کے مجازی معنی ہیں ’’ وہ چیز جب کے ادب و احترام کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حک دیا ہے‘‘. اس کے ایک مجازی معنی نشانی اور علامت بھی آتے ہیں. حج کے یہ سب شعائر کیا ہیں ؟ دراصل یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے مختلف مراحل ہیں . یہ اسی داستان عزیمت و امتحان کے مختلف ابواب اور ان کے اور اق ہیں جن کی ہر سال یاد منائی جاتی ہے. یہ جو بَینَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ سعی ہو رہی ہے یہ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کی اس عالم بے تابی کی نشانی ہے جبکہ حضرت ابراہیم ؑ ان کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور وہ ننھی سی جان اسماعیلؑ پیاس تڑپ رہی تھی اور حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان سات مرتبہ دوڑی تھیں اور ہر چکر میں پہاڑ پر چڑھ کر پانی ڈھونڈنے کے لئے چاروں طرف نگاہیں دوڑاتی تھیں اللہ تعالیٰ کو اپنی اس مؤمنہ بندی کی یہ ادا اتنی بھائی کہ حج اور عمرہ کرنے والوں کے لئے مسعیٰ میں دوڑنے کو شعائر اللہ میں سے قرار دے دیا.

اس لئے بھی ہوا کہ یہ حضرت ہاجرہ کے اللہ پر توکل اور صبر کی بھی ایک عظیم الشا ن نشانی ہے. جب حضرت ابراہیمؑ اس لق و دق صحرا کی پہاڑیوں میں ان کو اور شیر خوار بچے کو چھوڑ کر جا رہے تھے تو حجرت ہاجرہ نے ان سے دریافت کیا تھا کہ آپ ہم کو کس کے حوالے کر کہ جا رہے ہیں . اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے جواب دیا تھا کہ اللہ کے حوالے . جس پر حضرت ہاجرہ نے کہا تھا : یہ صورتحال ہے تو میں راضی ہوں ، آپ تشریف لے جایئے. حضرت اسماعیلؑ کے بے چینی کے عالم میں ایڑیاں رگڑنے سے معجزانہ طور پر چاہِ زم زم کا ظہور ہوا جس سےچا ر ہزار سال گزرنے کے بعد آج بھی لاکھوں بند گانِ خدا سیراب ہوتے ہیں.

ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف حضرت ابراہیم ؑ ہی امتحان سے نہیں گزرے ، بی بی ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ بھی نو عمری میں ہی امتحان سے گزر ےہیں . گویا ع ’’ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی مشکل ہے‘‘. سب سے زیادہ کھٹن امتحان سے حضرت ابراہیم ؑ گزرے ہیں . ظاہر ہے کہ جن کا رتبہ بُلند سے بُلند تر ہوگا اسی مناسبت سے ان کو آزمائشوں سے واسطہ بھی پڑے گا . جیسے جو پرائمری کا امتحان پاس کر لے اسے مڈل ، میڑک اور پھر آگے کے امتحانات سے گزرنا ہو گا اور جو پرائمری ہی میں فیل ہو جائے اس کے لئے اگلے امتحانات کا کیا سوال ؟ اگلے امتحان کا موقع تو بتدریج آتا ہے ؎

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں !

چنانچہ حج اور عید الضحیٰ یہ وہ اسلامی عبادات اور شعار دونوں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں ، جن کی تعظیم و تکریم کرۂ ارض کے بسنے والوں کی دو تہائی آبادی کرتی ہے.