البتہ یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ ہر چیز کا ایک ظاپر ہوتا ہے اور ایک باطن . نماز کا ایک ظاہر ہے ، یعنی قیام ہے، رکوع ہے، سجودہے ، قعدہ ہے، یہ ایک خول اور ڈھانچہ ہے . اس کا باطن ہے یعنی توجہ اور رجوع الی اللہ، خشوع و خضوع، بارگاہِ رب میں حضوری کا شعور اور اک ، انایت ، محبّتِ الہیٰ نماز کی اصل روح اور جان تو یہی چیزیں ہیں ؎

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام 
میرا سجود بھی حجاب، میرا قیام بھی حجاب !

اسی طرح اس بات کو سمجھ لیجئے کہ جانور کو ذبح کرنا اور قربانی دینا ایک ظاہری عمل ہے. یہ ایک خول ہے. اس کا ایک باطن بھی ہے اور وہ ’’تقویٰ‘‘ ہے. چنانچہ قرآن حکیم میں قربانی کےحکم کےساتھ متنبہ کر دیا گیا کہ: 

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ 
(الحج:۳۷
’’ اللہ تک نہیں پہنچتا ان قربانیوں کا گوشت اور ان کا خونہاں اس تک اس تک رسائی ہے تمہارے تقویٰ کی‘‘.

اگر تقویٰ اور روح تقویٰ موجود نہیں ، اگر یہ ارادہ اور عزم نہیں کہ ہم اللہ کے 
دین کے لئے اپنی مالی و جانی قربانی کے لئے تیار ہیں تو اللہ کے ہاں کچھ بھی نہیں پہنچے گا. یعنی ہمارے نامہ اعمال میں کسی اجروثواب کا اندراج نہیں ہو گا . گوشت ہم کھا لیں گے ، کچھ دوست احباب کو بھیج دیں گے، کچھ غرباء کھانے کو لے جائیں گے، کھالیں بھی کوئی جماعت یا دارالعلوم والے لے جائیں گے. لیکن اللہ تک کچھ نہیں پہنچے گا اگر وہ روح بھی موجود نہیں ہے وہ روح کیا ہے؟ وہ امتحان ، آزمائش اور ابتلاء ہے اور اس میں کامیابی کا وہ تسلسل ہے جس میں سے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی پوری زندگی عبارت ہے.

ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سوچیں ، غور کریں اور اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ کیا واقعتاً ہم اللہ کی راہ میں اپنے جذبات و احساسات کی قربانی دے سکتے ہیں ؟ کیا واقعتاً ہم اپنی محبوب ترین اشیاء اللہ کی راہ میں قربان کر سکتے ہیں ؟ کیا واقعتاً ہم اللہ کے دین کی خاطر اپنے وقت کا ایثار کر سکتے ہیں ؟ کیا ہم اپنے ذاتی مفادات کو اللہ اور اس کے دین کے لئے قربان کر سکتے ہیں ؟ اپنےعلائق دنوی ، اپنے رشتے اور اپنی محبتیں اللہ کے دین کی خاطر قربان کر سکتے ہیں ؟ اگر ہم یہ سب کر سکتے ہیں تو عید الاضحی کے موقع پر یہ قربانی بھی 
نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ اور اگر ہم اللہ کے دین کے لئے کوئی ایثار کر نے کے لئے تیا ر نہیں تو جانوروں کی یہ قربانی ایک خول اور ڈھانچہ ہے جس میں کوئی روح نہیں . بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی یہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین ِ غزالی نہ رہیٍٍ!

جانورں کا ذبح کرنا رہ گیا ہے، اس میں جو روہِ ابراہیمی رگی وہ موجود نہیں ہے.

اس نقطہ نظر سے ہم میں سے ہر شخص کو اپنے دل کا ٹٹولنا چاہئے کہ میں کہاں کھڑا ہوں. میری زندگی سنّت ابراہیمی کے مطابق ہے یا نہیں !! اگر ہے تو جانوروں کی قربانی بھی ہماری زندگی کے ساتھ ایک مطابقت ہے. اگر نہیں ہے تو یہ ایسا ہی ہے کہ نیم کے درخت پر ثمر بہشت کا ایک آم لا کر ہم نے دھاگے سے باندھ دیا ہے. اللہ اللہ خیر سلاّ!اس سے وہ درخت آم کا نہیں ہو جائے گا‘ وہ تو نیم ہی کا درخت ہے اور وہی رہے گا. ہماری جو کیفیات بالفعل ہیں وہ تو یہی ہیں کہ ہم نے نیم کے درختوں پر اِدھر اُدھر سے کچھ آم لا کر ٹانک لئے ہیں. اور جس طرح ہم نے دین کے دوسرے بہت سے حقائق کو محض رسموں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اسی طرح قربانی کی اصل روح بھی ہمارے دلوں سے غائب ہو چکی ہےاور اب اس کی حیثیت بعض کے نزدیک ایک رسم کی سی ہے اور اکثر کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر ایک قومی تہوار کییہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہر سال پندرہ بیس لاکھ سے بھی زائد کلمہ گو حج کرتے ہیں اور بلا مبالغہ پورے کرۂ ارض پر ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر کروڑوں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے لیکن وہ روحِ تقویٰ کہیں نظر نہیں آتی جس کی رسائی اللہ تک ہے. بقول علامہ اقبال مرحوم ؂

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے وہ دل‘ او آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے!

یعنی اللہ کا تقویٰ مسلمانوں میں کم یاب‘ بلکہ عنقا شے بن کر رہ گیا ہے.

ضرورت اس امر کی ہے کہ عقل و شعور کے ساتھ ہم میں اس بات کی طلب پیدا ہو‘ ہم متوجّہ ہوں اور معلوم کریں کہ کُل روحِ دین کیا ہے! روحِ قربانی کیا ہے! جس کا ایک نمونہ اور جس کی ایک یادگار ہم ہر سال جانوروں کی قربانیوں کی شکل میں مناتے ہیںاللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی اصل حقیقت کا فہم عطا فرمائے اور ہمیں ہمت دے کہ ہم واقعتاً اپنے مفادات‘ اپنے جذبات‘ اپنے احساسات اور اپنی محبتیں‘ ان سب کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر قربان کر سکیںاور ہمیں توفیق دے کہ ہم اصل روحِ قربانی کو اپنی شخصیتوں میں جذب کر سکیں اور عیدِ قربان پر جب اللہ کے نام پر جانور کی قربانی کریں اور اسے ذبح کریں تو ساتھ ہی یہ عزمِ صمیم بھی کر لیں کی ہم اپنا تن‘ من‘ دھن اس کی رضا کے لئے‘ اس کے دین کی سر بلندی کے لئے اس کی راہ میں قربان کر دیں گے. 

اقول قولی ھذا واستغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات