حج اور عیدالاضحی اور ان کی اصل رُوح قرآن حکیم کے آئینے میں

اسلام کے پانچ ارکان میں سے اوّلین اور اہم ترین تو بلا شبہ کلمۂ شہادت ہے جو ایمان کے قانونی پہلو یعنی ’’اِقْرَارٌ بِاللّسَانِ‘‘ کا مظھر ہے‘ بقیہ چار عبادات مختلف صورتوں پر مشتمل ہیں‘ یعنی ’’اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃِ‘‘ یا فرض نمازوں کی پابندی‘ ’’اِیْتَاءُ الزَّکٰوۃِ‘‘ یا صدقاتِ واجبہ کی ادائیگی‘ یا ماہِ رمضان المبارک کے روزے اور ’’ حَجُّ الْبَیْتِ‘‘ یا بیت اللہ شریف کا حج!

ان کے مابین ایک دلچسپ تقسیم تو اس اعتبار سے ہے کہ ان میں سے دو ہر مسلمان پر لازم ہیں‘ خواہ امیر ہو یا غریب‘ یعنی صلٰوۃ و صوم‘ اور دو صرف کھاتے پیتے مسلمانوں پر فرض ہیں‘ یعنی زکٰوۃ صرف صاحبِ نصاب پر اور حج صرف صاحبِ استطاعت پرلیکن ایک دوسری اور نمایاں تر تقسیم اس اعتبار سے ہے کی ان میں سے دو یعنی صلٰوۃ و زکٰوۃ بقیہ دو کے مقابلے میں قدرے اوّلیت و اَقدمیت کے حامل بھی نظر آتے ہیں اور عظمت و اہمیت کے بھی. اس لئے بھی کہ قرآن مجید میں ان کا ذکر حد درجہ تکرار و اصرار کے ساتھ آیا ہے جبکہ حج کا ذکر کُل تین بار آیا ہے اور صوم کا صرف ایک بار‘ اور اس لئے بھی کہ صلٰوۃ و زکٰوۃ کا تذکرہ مکّی دور کے آغاز ہی سے شروع ہو جاتا ہے جبکہ صوم و حج کا ذکر صرف مدنی سورتوں میں ملتا ہے. مزید برآں بعض ان روایات میں بھی جن میں نبی اکرم کی جنگ کے خاتمے کی کم از کم شرائط کا بیان ہے‘ شہادتَین کے ساتھ صرف صلٰوۃ و زکٰوۃ کا ذکر ملتا ہے‘ صوم و حج کانہیں. مثلاً حضرت معاذ بن جبل ؓ سے جو طویل روایت احمد‘ بزار‘ نسائی‘ ابن ماجہ وغیرہم نے نقل کی ہے اس میں آنحضور کے یہ الفاظ مبارکہ ملتے ہیں کہ : 

اِنّمَا اُمِرْتُ اَنْ اُقَا تِلَ النَّاسَ حتّیٰ یُقِیْمُو ا ا لصَّلٰوۃَ وَ یُٔوْ تُوا الزَّ کٰوۃَ وَ یَشْہَدُوْ ا اَنْ لاَّ اِ لٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہ لاَ شَرِیْکَ لَہ وَاَنَّ مُحَّمَدًا عَبْدُہ وَ رَ سُوْلُہ ، فَاِ ذَا فَعَلُوْ ا ذٰلِکَ فَقَدِ اعْتَصَمُوْا وَ عَصَمُوْ ا دِمَا ءَ ہُمْ وَ اَ مْوَا لَھُمْ اِلّاَ بِحَقَّا، وَحِسَا بُھُمْ عَلَی اللہ ِ عَزَّوَ جَلَّ (۱
مجھے حکم ہوا ہے کہ جنگ جاری رکھوں یہاں تک کہ لوگ نماز قائم کریں اور زکٰوۃ ادا کریں اور گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘ وہ تنہا ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور یہ کہ محمد( ) اس کے بندے بھی ہیں اور رسول بھی. جب وہ یہ شرطیں پوری کر دیں تو وہ محفوظ ہو گئے اور رہا ان (کے خلوص یا عدم خلوص) کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے‘‘.

ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شان و شوکت اور عظمت و اہمیت کی اسی ظاہری کمی کی تلافی کے لیے اسلام میں دونوں سالانہ تہواروں کو ان دو ارکانِ اسلام کے ساتھ ملحق کر دیا گیا ہے‘ یعنی عیدالفطر رمضان المبارک کے متصلاً بعد اور عیدالاضحی حج بیت اللہ کے ساتھ.

عیدالاضحی بلا شبہ حج ہی کی توسیع کی حیثیت رکھتی ہے‘ اس لئے کہ حج اس اعتبار سے ایک طرح کی محدودیت کا حامل ہے کی اس کے تمام مراسم و مناسک ایک متعین علاقے یعنی مکّہ مکرمہ اور اس کے نواح ہی میں ادا کئے جاتے ہیں. اسی لئے اس 

(۱) یاد ہو گا کہ آنحضور کے ان ہی الفاظ سے استدلال کیا تھا حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے مانعین زکٰوۃ سے جنگ کے معاملے میں. 
کے ایک رکن یعنی اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی کو وسعت دے دی گئی ہے‘ تا کہ اس میں روئے زمین پر بسنے والا ہر مسلمان شریک ہو جائے. اور یہی عید الاضحی کی اصل حکمت ہے. 

سب جانتے ہیں کہ حج اور عید الاضحی دونوں حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شخصیت ہی کے گرد گھومتے ہیں جن کی تعظیم و تکریم روئے زمین کے بسنے والوں کی دو تہائی تعداد کرتی ہے اور ان دونوں مراسم و مناسک ان کی حیاتِ طیبہ کے بعض واقعات کی یادگار ہی کی حیثیت رکھتے ہیں.

حضرت ابراہیم علیہ الصّلٰوۃ والسّلام کے طویل سفرِحیات کا خلاصہ اور لُبِّ لباب اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے : ’’امتحان و آزمائش‘‘ جس کے لئے قرآن حکیم کی اپنی جامع اصطلاح ’’ابتلاء‘‘ ہے. چنانچہ سورۃ البقرۃ میں ان کی پوری داستانِ حیات کو ان چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے :

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ (البقرۃ:۱۲۴
’’اور جب آزمایا ابراہیم(علیہ السّلام) کو اس کے رب نے بہت سی باتوں میں تو اس نے ان سب کو پورا کر دکھایا‘‘.

واضح رہے کہ قرآن حکیم میں انسان کی حیاتِ دنیوی کی اصل غرض و غایت ہی ابتلاء و آزمائش بیان کی گئ ہے. بفحوائے الفاظِ قرآنی : 

(۱) الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ 
(الملک : ۲
’’وہ جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو کہ تمہیں آزمائے کہ کون ہے تم میں سب سے اچھا عمل کے اعتبار سے‘‘. 

(۲) اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۲﴾ 
(الدھر : ۲
’’ہم نے پیدا کیا کو ملے جلے نطفے سے آزمانے کو‘ لہٰذا بنایا ہم نے اسے سننے والا‘ دیکھنے والا‘‘. 
بقولِ علامہ اقبال ؎

قلزم ہستی سے تو اُبھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی!

اور انسان کی فلاح و کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی اور پرودگارِ حقیقی کا معرفت کرے اور اس کی محبّت سے سر شار ہو جائے ، جو گویا امتحان ہے اس کی عقل و خرد کا اور آزمائش ہے اس کے قلب ِ سلیم اور فطرتِ سلیمہ کی اور پھر پور عزم و استقلال اور صبر وثبات کے ساتھ قائم و مستقیم رہے اس کی اطاعتِ کّلی اور فرما ں برداری کامل 
(۱پر جو گویا امتحان ہے اس کے عزم اور حوصلے کا اور آزمائش ہے اس کی سیرت کی پختگی اور کردار کی مظبوطی کی.

حضرت ابراہیمؑ کو بھی سب سے پہلے اسی عقلِ سلیم اور فطرتِ سلیمہ کے امتحان سے سابقہ پیش آیا . انہوں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں ہر طرف کفر اور شرک کے گٹھاٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، اور کہیں بُتوں اور مورتیوں کی پوجا ہو رہی تھی تو کہیں ستاروں اور سیاروں کو پوجا جا رہا تھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک مطلق العنان بادشاہ بھی خدائی حقوق 
(Divine Rights) اور کُلی اختیارات کے دعوؤں کے ساتھ لِمَنِ ا لْمُلْکُ بجا رہا تھا. گویا شرکِ اعتقادی اور شرکِ عملہ دونوں کے دَل بادل ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ کی شان کے ساتھ چھائے ہوئے تھے اور توحید کی کوئی کرن کہیں نظر نہ آتی تھی. اس ماحول اس ماحول میں آنکھ کھولنے اور پرورش پانے والے نوجان نے جب یہ نعرہ لگایا کہ: 
(۱) یہی وجہ ہے کہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۳۱ میں حضرت ابراہیمؑ کے کُل کانامۂ حیات کا خلاصہ بیان کیا گیا لفظ ’’اسلام‘‘ کے زریعے جس کے معنی ہی حوالگی کامل اور سپردگی کُلی کے ہیں .

اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾ 
’’جب کہا اس کے رب نے اس سے ’’حکم مان‘‘ فوراً کہا اس نے ’’ میں نے مانا حکم تمام جہانوں کے پرودگار ِ حقیقی کا‘‘.

اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾ (الانعام:۷۹
’’ میں تو اپنا ڑُخ پھیر دیا اُس ذات کی طرف جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ، ہر طرف سے یکسو ہو کر، اور میں ہر گز اس کے ساتھ شرک کرنے والا نہیں‘‘.

تو کیا آسمان اور زمین وجد میں نہ آگئے ہوں گے اور کون و مکان میں ہلچل نہ مچ گئی ہو گی ! بقول علامہ اقبال ؎

عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں 
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے!

اور کیا 
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ کی اس شہادت ِ عظمیٰ پر ملاء اَعْلٰی کی بزمِ ’’لامکاں‘‘ میں میرِ محفل ‘‘ (۱نے ایک بار پھر فتح مندانہ انداز میں نہ کہا ہو گا کہ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۰﴾ 

اسی کو تعبیر فرمایا گیا سورۃ الصّٖفٰت میں ان الفاظ میں کہ: 

اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۴﴾ 
(الصّفٰت:۸۴
’’ جب آیا وہ 
(۲(ابراہیمؑ) اپنے رب کے پاس ایک قلبِ سلیم کے ساتھ ‘‘. 

عقل و فطرت کی اس آزمائش اور ،معرفتِ رب کے اس امتحان میں کامیابی کے فوراً بعد شروع ہو گیا’’استقامت‘‘ 
(۳کی جانچ پر کھ کا ایک طویل اور جاں گسل سلسلہ ، جس میں ہر لحظہ امتحان تھا ، ہر آن ابتلاء. ایک جانب ایک نوجوان تھا اور دوسری جانب پوری سوسائٹی اور پورا نظام . گویا ’’کشائشِ خم و دریا‘‘ کا دیدنی نظارہ ! عزم و ہمت کا وہ کون سا امتحان تھا جو اسے پیش نہ آیا ! صبر و ثبات کی وہ کون سی 

(۱) خدا خود میر محفل بوداند لامکاں خسر و محمد شمع بود ، شب جائیکہ ،من بودم!
(۲) کیا یہ صوفیا ء کی اصلاح ’’سیر الی اللہ ‘‘ کا قرآنی ماخذ نہیں ہے؟
(۳
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا(حٰم السجدۃ: ۳۰آزمائش تھی جس وہ دو چار نہ ہوا!حوصلۂ تحمل و برداشت اور جذبہ ٔ ایثار و قربانی کی جانچ پر کھ کا وہ کون سا طریقہ تھا جو اس پر آزمایا نہ گیا ! گھر سے وہ نکالا گیا ، معبد میں اس پر دست درازی ہوئی، سرِعام اس پر ہجوم کیا گیا ، دربار میں اس کی پیشی ہوئی اور آگ میں ڈال گیا. بقولِ شاعر ؎

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر بازار!
کڑ کے ہیں بہت شیخ سر گوشۂ منبر 
گرجے ہیں بہت اہل حکم بر سردربار

لیکن نہ کبھی اس کے جوش اور ولولے میں کوئی کمی پیدا ہوئی نہ پائے ثبات میں کوئی لغزش ! باپ سے 
’’وَ اہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا‘‘ کی غیظ آمیز جھڑ کی کھاکر بھی وہ پورے ادب و احترام اور پورے حلم و وقار کے ساتھ یہ کہتا ہوا ر خصت ہوا : 

سَلٰمٌ عَلَیۡکَ ۚ سَاَسۡتَغۡفِرُ لَکَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِیۡ حَفِیًّا ﴿۴۷﴾وَ اَعۡتَزِلُکُمۡ وَ مَا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ اَدۡعُوۡا رَبِّیۡ ۫ۖ عَسٰۤی اَلَّاۤ اَکُوۡنَ بِدُعَآءِ رَبِّیۡ شَقِیًّا ﴿۴۸﴾ 
(مریم:۴۷،۴۸)
’’تم پر سلامتی ہو ! مین اپنے پرودگار سے تمہارے لئے معافی کی درخواست کرو ں گا ، حقیقتاً وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے. اور میں اعلانِ براءت کرتا ہوں تم سب سے بھی اور ان سے بھی جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو، اور میں تو پکاروں گا صرف اپنے پرودگار ہی کو مجھے یقین ہے کہ میں اس کو پکار کر بے نصیب نہ رہوں گا!‘‘
دربار میں پیشی ہوئی تو ؎

نہ لا و سواس دل میں جو ہیں تیرے دیکھنے والے 
سرِ متقل بھی دیکھیں گے چمن اندر چمن ساقی!

کے مصدئق خدائے واحد وقہارکے پر ستار نے دنیوی شان و شوکت ، جاہ و جلال اور دبدبے اور طنطنے کو ذرہ بھر بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے شہنشا ہِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کیا: 

رَبِّیَ الَّذِیۡ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ 
(البقرۃ:۲۵۸’’میرا رب وہ ہے جو جِلاتا ہے اور مارتا ہے‘‘.
اور جب ربوبیت والو ہیت کے مدّعی مغرو نے مناظرانہ رنگ میں کہا 

اَنَا اُحۡیٖ وَ اُمِیۡتُ 

’’مجھے بھی زندہ رکھنے یا مار دینے کا اختیا ر حاصل ہے‘‘.

تو پوری جرأت ِ رندانہ اور شانِ بے با کانہ کے ساتھ ترکی بہ ترکی جواب دیا: 

فَاِنَّ اللّٰہَ یَاۡتِیۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِہَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ 
(البقرۃ:۲۵۸
’’تو اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، (تجھ میں کچھ الوہیت ہے) تو تو اسے مغرب سے طلوع کر کے دکھا ‘‘. 

نتیجتاً اس کافر مردود مسمّٰی نمرود کے پلے سوائے مرعوبی و مبہوتی کے اور کچھ نہ رہا. 
اور پھر جب پوری قوم ، پوری سوسائٹی او ر پورے نظام ِ باطل نے اپنی شکست پر جھنجلا کر اسے آگ کے ایک بڑے الاؤ میں ڈالنے اور جلا کر راکھ کر دینے کا فیصلہ کیا تب بھی اس عزم اور ارادے میں کوئی تزلزل نہ آیا ، اور عشق کی اس بلند پروازی پر وہ عقل بھہ انگشت بد نداں رہ گئی جس نے ابتداءً اسے خود ہی اس راہ پر ڈالا تھا ؎

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق 
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی!

اور جب خدائے علیم و قدیر نے اسے آگ سے معجزانہ طور پر زندہ و سلامت نکال لیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے کہ : 

اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۹۹﴾ 
(الصٰفت:۹۹
’’میں اپنے رب کی خاطر ہجرت کر رہا ہوں ، یقیناً وہ مجھے راہِ یاب کرے گا‘‘. 

گھر بار اور ملک و وطن سب کو خیر باد کہا اور آباء واجد اد کی سر زمین کو با حسرت ویا س دیکھتا ہوا وہ اَن دیکھی منزل کی جانب روانہ ہو گیا، تاکہ صرف خدائے واحد کی 
پرستش کر سکے اور محض اسی کے نام کا کلمہ پڑھ سکے ! حالانکہ اب زندگی کہ اس دور کا آغاز ہو چکا تھا جس میں جوانی کا زور ٹوٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے اور کہولت کے آثار شروع ہو جاتے ہیں ! بقولِ حالی ؎

ضعف ِ پیری بڑھ گیا ، جوشِ جوانی گھٹ گیا
اب عصا بنوایئے نخلِ تمّنا کاٹ کر!!

حضرت ابراہیم ؑ کی ہجرت کے بعد پوری زندگی مسلسل مسافرت و مہاجرت کی داستاں ہے. آج شام میں ہے تو کل مصر میں ، پرسوں شرقِ اردن میں ہین تو اگلے روز حجاز میں ، کوئی فکر ہے تو صرف اس کی اور دھن ہے تو محض یہ کہ توحید کا کلمہ سر بلند ہو اور دعوتِ توحید کے جابجا مراکز قائم ہو جائیں . اپنی ان کوششوں میں وہ اس بوڑھے باغبان سے نہایت گہری مشابہت رکھتے ہیں جو جا بجا اپنے لئے نہین بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے باغ لگاتا پھر رہا ہو. 

جب بڑھاپے کے آثار کچھ زیادہ ہی طاری ہوتے محسوس ہوئے اور اِدھر یہ نظر آیا کہ اولاد سے تا حال محرومی ہے ، تو فکر دامن گیر ہوئی کہ میرے بعد اس مشن کو کون سنبھالے گا . وطن سے ایک بھتیجے نے ان کے ساتھ ہی ہجرت کی تھی جسے شرقِ اردن میں دعوتِ توحید کی علم برادری سونپ دی تھی. اللہ سے دعا کی 
رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰۰﴾ (الصّٰفات:۱۰۰’’پروردگار ! نیک وارث عطا فرما!‘‘. اور اللہ کی شان کہ خالص معجزانہ طور پر ستاسی برس کی عمر میں اللہ نے ایک چاند سا بیٹا عطا فرمایا اور وہ بھی ایسا جسے خود اللہ نے ’’غُلَامٌ حَلِیْمٌ‘‘ قرار دیا. 

جیسے جیسے بیٹا بڑا ہوتا گیا گویا بوڑھے باپ کا نخلِ تمّنا دوبارہ ہرا ہوتا گیا. یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ کیسی مذباتی و ابستگی بوڑھے باہ کو اس بیٹے سے ہو گی اور کیسی امیدیں اس نے اہنے دل میں اس کے ساتھ وابستہ کر لہ ہو گی . بیٹا برابر کا ہونے کو آیا تو گویا باپ کا دست و بازوں بن گیا اور دونوں نے مل کر روحید کے عظیم ترین مرکز یعنی کعبتہ اللہ کی دیواریں اٹھا ئیں ، جیسے قرآن نے 
’’اَلْبَیْتُ الْعَتِیْقُ‘‘ بھی قرار دیااور ’’اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ‘‘ کا مقصد بھی . 

یہ مقدّس معمار ان ِحرم جن جذبات کے ساتھ تعمیر کر رہے تھے ان کی عکاسی قرآن حکیم کی ان آیات میں بتام و کمال کی گئی ہے: 

وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۲۷﴾ 
(البقرۃ: ۱۲۷،۱۲۸
اور جب ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ بیت اللہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے (تو کہتے جاتے تھے) پرودگا ہمارے! قبول فرما ہم سے (ہماری یہ خدمت ) ، یقیناً تو سب کچھ سننے والا بھی ہے اور سب کچھ جاننے والا بھی . اور اے رب ہمارے ! بنائے رکھ ہم دونوں کو اپنا فرماں بردار ، اور اٹھا ہماری اولاد میں سے ایک فرماں بردار امت‘‘.

اِدھر بوڑھا باپ اپنے جوان ہوتے ہوئے بیٹے کو دیکھ دیکھ کر جی رہا تھا اُدھر قدرت مسکرا رہی تھی . اس کے تر کش امتحان میں ابھی ایک تیر باقی تھا، دل کو چھید جانے والا اور جگر سے پار ہو جانے والا تیر ! گویا ابھی آخری آزمائش باقی تھی، محبّت اور جذبات کی آزمائش ، اور ایک اور امتحان باقی تھا، امیدوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کا امتحان . 

حکم ہوا اپنے بیٹے کو قربان کر دو. زمین پر سکتہ طاری ہو گ، آسمان لرز اٹھا، لیکن نہ بوڑھے باپ کے پائے ثبات میں کوئی لغرش پیدا ہوئی نہ نوجوان بیٹے کے صبرو تحمل میں کوئی لرزش ! دونوں نے سرِ تسلیم خم دیا . بقولِ سرمد ؎

سرمد گلۂ اختصار می باید کرد یک کار ازیں دو کار می باید کرد
یا سر بضائے دوست می باید داد یا قطع نظر ز یار می باید کرد

یہ دوسری بات ہے کہ عین آخر ی لمحےپر رحمت ِ خدا و ندی حکمت ِ امتحان پر غالب آگئی اور بوڑھے باپ کی امتحان میں کامیابی کا اعلان کر دیا گیا بغیر اس کے کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کا ذبح شدہ لاشہ فی الواقع اپنی آنکھوں سے دیکھے. 
سورۃ الصّٖفٰت میں کتنے قلیل الفاظ میں صورتِ حال کی مکمل تصویر کھینچ دی گئی ہے: 

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۰۲﴾فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ ﴿۱۰۳﴾ۚوَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿۱۰۴﴾ۙقَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۰۶
(الصّفٰت:۱۰۲تا۱۰۶
’’ تو جب وہ( بیٹا )اس (باپ) کے ساتھ بھاگ دوڑ کرنے کے قابل ہوا تو اس نے کہا : میرے بچے ! مَیں خواب مین دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں ، تو تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے جوان دیا: ابّا جان ! کر گزرئیے جو حکم آہ کو مل رہا ہے ، آپ ان شا ء اللہ مجھے صبابر ہی پائیں گے. پھر جب دونوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور اس نے اسے پیشانی کے بل پچھاڑ دیا تو ہم نے پکارا: اے ابراہیم! (بس کر ) تو نے خواب پورا کر دکھایا . ہم اسی طرح جزاء دیا کرتے ہیں نیکوں کاروں کو. یقیناً یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی‘‘.

گویا جس کا امتحان لیا جا رہا تھا اس نے ہمت نہ ہاری، ممتحن ہی کو بس کرنا پڑی . جس نےنہ صرف یہ کہ اُس وقت بیٹے کی جگہ مینڈھے کی قربانی بطورِ فدیہ قبول کر لی بلکہ اس کی یاد گا ر کے طور پر ہمیشہ ہمیش کے لئے قربانی کا سلسلہ جاری رما دیا . بفحوائے الفاظ قرآنی: 

وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۷﴾وَ تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾ۖ 
(الصّٰٖفٰت :۱۰۷،۱۰۸
’’اور اس کے بدلے میں دی ہم نے ایک بڑی قربانی . اور پکا رکھا ہم نے اس (چلن ) پر پچھلوں میں‘‘. 

اور اس امتحان اور آ زمائش کی ایک طویل داستان کمال کو پہنچی اور عقل و فطرت کی 
سلامتی اور سیرت و کردار کی پختگی کی کٹھن جانچ پر کھ اور جذبات و احساسات کے ایثار اور محّبت کی قربانی کے مشکل امتحانات سے گزر کر اللہ کا ایک بندہ ایک طرف خُلّتِ الہیٰ کی خلعت سے سرفراز ہوا اور دوسری طرف امامت الناس کے منصب پر فا ئز ہوا. 

سَلٰمٌ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿۱۰۹﴾کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۱۰﴾اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾ 
(الصٰفٰت:۱۰۹،۱۱۱
’’سلام ہو ابراہیم پر ! اسی طرح ہم بدلہ دیا کرت ہیإ نیکو کاروں کو ، یقیناً وہ ہمارے صاحب یقین بندوں میں سے تھا‘‘. 

اور بقولِ علامہ اقبال ؎

چوں می گویم مسلمانم ، بلرزم کہ دانم مشکلاتِ لا الہٰ را!
گویا یہ ایک سچے مسلمان کی زندگی کی کامل تصویر اور ’’ ایمانِ حقیقی ‘‘ کی صیحح تعبیر بقولِ مولانا محمد علی جوہر ؎

یہ شہادت گہِ الفت مین قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!

سورۃ الحج میں حج کے دو ہی بنیادی ارکان کا ذکر ہے 
(۱ایک اللہ لے نام پر جانوروں کی قربانی اور دوسرے طواف بیت اللہ ، اور ان میں سے بھی زیادہ زور اور تکرار و اصرار قربانی پر ہی ہے. بفحوائے آیت مندرجہ ذیل : 

(۱) وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ ﴿ۙ۲۷﴾لِّیَشۡہَدُوۡا مَنَافِعَ لَہُمۡ وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ ﴿۫۲۸﴾ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ ﴿۲۹﴾ 
(الحج :۲۷،۲۹
(۱)حج کے بقیہ مناسک کا تفصیلی بیان سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۹۶تا۲۰۳ میں ہے. 
’’اور صدا لگا لوگوں میں حج کے لئے کہ آئیں تیرے پاس پا پیادہ اور دور دراز سے گہری وادیوں میں سے ہو کر آنے والے دبلے اونٹوں پر، تاکہ حاضر ہوں اپنے منافع کے مقامات پر اور لیں اللہ کا نام معین دنوں میں ، ان جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے جو ہم نے ان کو دئے ہیں ، پھر کھاؤ ان میں سے خود بھی اور کھلاؤ بیکسوں اور محتاجوں کو بھی ، پھر وہ دور کریں اپنا میل کچل اور پوری کریں اپنی نذریں اور چکر لگائیں ہمارے قدیم گھر کا ‘‘. 

(۲) وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ 
(الحج : ۳۴
’’ اور ہر اُمت کے لئے مقررہ کر دیا ہے ہم نے قربانی کا سلسلہ ، تاکہ لیں نام اللہ کا ان چو پایوں کو ذبح کرتے ہوئے جو عطا کئے ہیں ہم نے ان کو ‘‘. 

(۳) وَ الۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰہَا لَکُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمۡ فِیۡہَا خَیۡرٌ ٭ۖ فَاذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلَیۡہَا صَوَآفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۳۶﴾ 
(الحج : ۳۶
’’ اور کعبے کی نذر کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر میں سے ٹھہرایا ہے. سولو نام ان پر اللہ کا ان کو قطار میں کھڑا کر کر پھر جب گر جائیں وہ کروت بل تو کھاؤ ان میں سے خود بھی اور کھلاؤ صابروں اور بے قراروں کو بھی! اسی طرح ہم نے دے دیا ہے ان کو تمہارے بس میں تاکہ تم شکر کرو اللہ کا ‘‘. 

ان میں سے جہاں تک طواف ِ بیت اللہ کا تعلق ہے ظاہر ہے کہ وہ تو صرف مَّکہ مکرمہ میں ہی ادا کیا جاتا ہے، البتہ قربانی کو عید الاضحیٰ کی صورت میں روئے زمین کے ان تمام لوگوں کے لئے عام کر دیا گیا جو اللہ کی اطاعت و فرما ں برداری کی راہ اختیار کر کے گویا ابراہیمؑ ہی کی معنوی ذریت میں شامل ہو گئے ہیں ، قطع نظر اِ س سے کہ کوئی صُبلی و نسلی تعلق ان سے ہے یا نہیں . چنانچہ ایک روایت کی رو 
سے، جسے زید بن ارقم ؓ سے امام احمد بن حنبل اور امام ابن ماجہ ؓ نے اپنی اپنی مُسند میں نقل کیا ہے، آنحضور ؐ سے دریافت کیا گیا کہ ’’یا رسول اللہ! ان قربانیوں کی نوعیت کیا ہے. تو جوا باً آپؐ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سُّنت ہے!‘‘ گویا بھیڑیوں ، بکریوں ، گایوں اور اونٹوں کی قربانی اصلاً علامت کی حیثیت رکھتی ہے اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و انقیاد اور اس پر مداومت اور استقامت کی اس روح کے لئے جو حضرت ابراہیم علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی پوری شخصیت میں رچی بسی ہوئی تھی اور ان کی پوری زندگی میں جاری و ساری رہی تھی. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں متذکر ہ بالا آیات کے متصلاً بعد ہی متنبہ فرما دیا گیا تھا کہ: 

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ 
(الحج : ۳۷
’’اللہ تک نہیں پہنچتا ان قربانیوں کا گوشت یا خون ، ہاں اس تک رسائی ہے تمہارے تقویٰ کی‘‘. 

یہ دوسری بات ہے کہ جس طرح ہم نے دین کے دوسرے تمام حقائق کو محض رسموں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے، جس کا مرثیہ کہا ہے علامہ اقبال نے اس شعر میں کہ ؎

رہ گئی رسمِ اذاں روح ِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین ِ غزالی ؒ نہ رہی!

اسی طرح قربانیوں کی روح بھی آج نہاد مسلمانوں کی ایک عظیم اکثریت کے عملی ہی نہیں وہم و خیال سے بھی غائب ہو چکی ہے. اور اب اس کی حیثیت بعض کے نزدیک محض ایک رسم کی ہے اور اکثر کے نزدیک اس سے بھی بڑح کر ایک قومی تہوار کی . یہی وجہ ہے اگر چہ ہر سال پندرہ لاکھ سے بھی زائد کلمہ گو حج کرتے ہیں اور بلا مبالغہ کروڑوں کی تعداد میں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے، لیکن وہ روحِ 
تقویٰ کہیں نظر نہیں آتی جس کی رسائی اللہ تک ہے. بقولِ علامہ اقبال مرحوم ؎

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے وہ دل ، وہ آرزو بای نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے!

کاش کہ ہم جرأ ت کے ساتھ موجودہ صورتحال کا صیحح تجربہ کر سکیں اور اصل روحِ قربانی کو اپنی شخصیتوں مین جذب کرنے پر کمر ہمت کس لیں ، اور عید قربان پر جب اللہ کے لئے ایک بکرا یا دنبہ ذبح کر دیں گے گویا بقولِ شاعر؏ ’’میرا سب کچھ مرے خدا کا ہے‘‘ اور بفحوائے الفاظ قرآنی: 

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙلَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرۡتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۱۶۳