ہمیں جو سیاسی اور اقتصادی نظام… اور سماجی اور معاشرتی اقدار انگریز سے وراثت میں ملی تھیں، اور جنہیں ہم نے ’’STATUS QUO‘‘ کے انداز میں نہ صرف عملاً بلکہ ذہنا بھی برقرار رکھا ہوا ہے، اس کے اہم خدوخال یہ ہیں:

۱. مخلوط قومیت یعنی نیشنلزم کا وہ تصور جس نے مغرب کے سیکولرازم کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور جس کی کلی نفی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک چلائی گئی تھی.
۲. پارلیمانی جمہوریت جس کی ابتدائی تربیت بھی انگریز نے ہمیں دے دی تھی.
۳. صوبوں کے نام اور حدود جو انگریز نے اپنی انتظامی مصلحتوں کے تحت معین کیے تھے تھیں اور جنہیں ہم نے مستقل اور دائمی ہی نہیں، مقدس سمجھے بیٹھے ہیں!
۴. بینکنگ کا وہ نظام جس کی بنا پر ہماری پوری صنعت و تجارت بلکہ پوری معیشت میں سود کی نجاست سرایت کئے ہوئے ہے اور جس کے نتیجے میں گویا پوری قوم اور پورا ملک اللہ اور رسول  سے برسرپیکار ہے.
۵. جوئے، سٹے اور لاٹری کی وہ لعنتیں جنہیں قرآن مجید نے 
رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ (شیطان کے ناپاک کام) قرار دیا ہے.
۶. جاگیرداری اور غیر حاضر زمینداری 
(Absentee Land-Lordism) کا وہ نظام جو ظلم اور استحصال کی سب سے بڑی اور مکروہ ترین صورت ہے اور جس میں دوبار کی نام نہاد اصلاحات کے باوجود کوئی بنیادی فرق واقع نہیں ہو سکا.
۷. وہ مخلوط معاشرت جس کے نتیجے میں مغرب میں شرم و حیا اور عفت و عصمت کا دیوالہ نکلا، گھر کا سکون ختم ہوا اور خاندان کا نظام درہم برہم ہو گیا اور یہ آخری شے تو وہ ہے جو انگریز کے دورِ حکومت میں بھی ہمارے معاشرے میں اس درجہ 
راسخ نہیں ہو سکی تھی جتنی آج ہے اور روز بروز دن دونی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے.