پاکستان کے استحکام اور دفاع کا تقاضا

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پورے نظام کو بدلنے کے لیے ایک عوامی تحریک برپا کی جائے، اور اس نظامِ عدلِ اجتماعی کو قائم کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دی جائے جس کا مجموعی عنوان ’’نظام خلافت‘‘ ہے اور جس کے بارے میں مفکر و مصور پاکستان نے فرمایا تھا ؏ ’’تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار. لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر!‘‘… اس لیے بھی کہ یہی قیام پاکستان کا اصل مقصد تھا، اور اس لیے بھی کہ یہی پاکستان کے بقاء اور استحکام کا ضامن بن سکتا ہے… چنانچہ اسی مقصد سے انحراف کے باعث لسانی اور علاقائی عصبیتوں نے سر اٹھایا اور مسلمان قوم قومیتوں میں تقسیم ہوئی اور اس طرح ہم نے اللہ سے جو بدعہدی اور بے وفائی کی اس پر اس کے عذاب کا ایک کوڑا ۱۹۷۱ء میں ہماری پیٹھ پر برسا اور اب بھی اگر ہم نے حصول پاکستان کے اصل مقصد کی جانب پیش قدمی نہ کی تو اللہ کی سزا کا دوسرا اور شدید تر کوڑا کسی بھی وقت برس سکتا ہے لہٰذا پاکستان کے دفاع کے لیے ایک طرف جہاں یہ ضروری ہے کہ ہم افواجِ پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور ہر قسم کے سامان حرب و ضرب اور ہر طرح کا اسلحہ امکانی حد تک فراہم کریں اور اس ضمن میں اپنے ایٹمی پروگرام سے بھی کسی صورت میں دست کش نہ ہوں، مزید برآں دوست ممالک بالخصوص چین کے ساتھ باضابطہ دفاعی معاہدہ کریں اور بھارت کے ساتھ بھی حتی الامکان مصالحت اور مفاہمت کی کوشش جاری رکھیں… دوسری طرف وہاں پاکستان کا اصل اور حقیقی دفاع اس میں مضمر ہے کہ یہاں اسلام کے ’’نظام خلافت‘‘ کو بہ تمام و کمال رائج و قائم کر کے اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا… (الحج: ۳۸

’’اللہ خود دفاع کرے گا اہل ایمان کی جانب سے‘‘ کے مصداق اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدافعت کے مستحق بنیں! 
اس نظامِ خلافت کے لیے ظاہر ہے کہ صرف عنوان یا لیبل بدلنے کی نہیں، مکمل انقلاب کی ضرورت ہے جو صرف جانی اور مالی قربانی ہی کے ذریعے رونما ہو سکتا ہے اور جس کے لیے زبردست عوامی تحریک اور انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے… تاہم جب یہ انقلاب آ جائے گا اور نظامِ خلافت قائم ہو جائے گا تو اس کے نمایاں خدوخال حسب ذیل ہوں گے: