عہد حاضرمیں اسلامی ریاست یا نظامِ خلافت کا دستوری خاکہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم


احکامِ شریعت میں اجمال و تفصیل
شریعت اسلامی کے احکام کا خاصا بڑا حصہ تو عبادات سے متعلق ہے جو اگرچہ اسلام میں تو خالص اِنفرادی معاملہ نہیں ہے بلکہ ان میں بھی اجتماعیت کا رنگ غالب ہے، تاہم قانونی اور دستوری سطح پر ان کو لازماً احوال شخصی ہی میں شمار کیا جائے گا.پھر اسلام کے اوامرنواہی کا معتدبہ حصہ بنیادی انسانی اخلاقیات سے متعلق ہے جو نوعِ انسانی اور مذاہب عالم کامشترکہ ورثہ ہیں. اس کے بعد نمبر آتا ہے ان احکام شریعت کا جن کا تعلق انسان کی اجتماعی زندگی سے ہے. پھر چونکہ انسانی معاشرے کی اکائی خاندان کا ادارہ ہے اور اجتماعیات انسانیہ کا نقطہ آغاز رشتہ ازدواج ہے، مزید برآں چونکہ حیات انسانی کا یہ گوشتہ ابتداء ہی سے کامل ہے اور اس سے متعلق مسائل و معاملات میں تمدنی ارتقاء کے عمل کے ذریعے کسی تبدیلی کا امکان نہیں تھا، لہٰذا قرآن حکیم نے عائلی قوانین نہایت تفصیل اور شرح وبسط کے ساتھ بیان کر دیئے. اسی طرح چونکہ مرد اور عورت کی نفسیات میں بھی کسی بنیادی تغیر وتبدل کا امکان نہیں تھا، لہٰذا معاشرتی نظام کے ضمن میں بھی معروف و منکر کے تصورات اور ان سے متعلق اوامرنواہی قرآن مجید میں خاصی وضاحت اور صراحت کے ساتھ عطا کر دیئے گئے لیکن انسان کی حیات اجتماعی کے سیاسی و ریاستی اور معاشی و اقتصادی شعبوں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے.

ان کے ضمن میں تمدنی ارتقاء کا عمل نزولِ قرآن کے وقت بھی جاری تھا اور تاحال بھی جاری ہے، لہٰذا عقل و منطق کے عین مطابق ان کے سلسلے میں قرآن حکیم نے اساسی اصول اور اہداف تو معین کر دیئے، لیکن تفصیلی احکام زیادہ نہیں دیئے. پھر ان میں سے بھی معاشی اور اقتصادی معاملات سے متعلق تو بعض معین احکام بھی قرآن میں مل جاتے ہیں، جیسے ربوہ، قمار اور رشوت کی حرمت، خریدوفروخت کے ضمن میں باہمی رضا مندی کی شرط، اور احکام میراث وغیرہ، لیکن سیاست و ریاست کے سلسلے میں تو واقعہ یہ ہے کہ شریعت اسلامی نے صرف اصول عطا کئے ہیں، معین شکل کوئی بھی لازم نہیں کی! (اصل میں یہی بات تھی جو کسی زمانے میں مرحوم اے. کے بروہی نے کہی تھی لیکن بعد میں عوامی دباؤ یا ذاتی مصالح کے باعث اس سے رجوع کرلیا تھا.)