عہد حاضر کی مثالی اسلامی ریاست کا خاکہ کیا ہو گا؟ یا بالفاظ دیگر دورِ جدید میں اسلام کا نظام خلافت ریاست و سیاست کے میدان میں کیا عملی صورت اختیار کرے گا؟ اس سوال کے جواب میں نظری اور فلسفیانہ بحثوں سے قطع نظر راقم جو بات آج تک کے مطالعے اور غوروفکر کے نتیجے میں پورے انشراحِ صدر کے ساتھ عرض کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ وقت کے اعلیٰ ترین معیارات کے مطابق بلند ترین جمہوری روایات کی حامل ریاست ہو گی جو وطنی قومیت کی اساس پر قائم ہونے والی سیکولرجمہوری ریاست سے صرف دو بنیادی امورمیں مختلف ہو گی یعنی:

۱ . اللہ کی حاکمیت

پہلی اور اہم ترین اساسی وجہ امتیاز یہ کہ اس میں حاکمیت مطلقہ کا حق صرف اللہ تعالیٰ کے لیے تسلیم کیا جائے گا (بقول علامہ اقبال ؎ ’’سروری زیبا فقط اس ذات ِ بے ہمتا کو ہے ، حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری!‘‘) جس کا عملی مظہر قرآن و سنت کی نظام اور قانون دونوں پر بلااستثناء اور غیر مشروط بالادستی ہو گی، جو ریاست کے دستور اساسی میں غیر مبہم انداز میں ریاست کے اصل الاصول کی حیثیت سے ثبت ہو گی. گویا اس ریاست کا بنیادی اصول انسانی حاکمیت نہیں، بلکہ خلافت انسانی کا تصور ہوگا!

۲. اسلامی قومیت

دوسری اساسی وجہ امتیاز، جو متذکرہ بالا اصل الاصول ہی کا منطقی نتیجہ ہے، یہ ہے کہ اس کی مکمل شہریت وطنی قومیت پر مبنی ریاست کے برعکس اس کی جغرافیائی حدود کے اندر رہائش پذیر ہر شخص کو نہیں بلکہ صرف ان لوگوں کو حاصل ہو گی جو اللہ اور اس کے رسول محمد پر ایمان کا اعلان و اقرار کریں. غیر مسلموں کی حیثیت اس میں اس ’’محفوظ اقلیت‘‘ کی ہو گی جن کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا کامل ذمہ بھی لیا جائے گا (اسی لیے انہیں ’’ذمی‘‘ کہا جاتا ہے) اور جنہیں عقیدہ و عبادات اور عائلی قوانین سمیت پورے پرسنل لاء کے ضمن میں مکمل آزادی کی ضمانت بھی دی جائے گی. مزیدبرآں ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی بالکل اسی طرح کی جائے گی جیسے مساجد کی، لیکن چونکہ نظامِ خلافت یا اسلامی ریاست میں قانون سازی کا عمل اپنی اساسی نوعیت کے اعتبار سے کتاب و سنت کی حدود کے اندر اندر ’’اجتہاد‘‘ سے عبارت ہو گا اور خلافت کے ’’علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ ہونے کے باعث اس کا اصل مقصد نبوت کے مشن کی توسیع و تکمیل ہو گا، لہٰذا غیر مسلموں کو نہ قانون سازی کے عمل میں شریک کیا جا سکے گا نہ اعلیٰ سطح کی پالیسی اور حکمت عملی کی ترتیب وتشکیل میں.

ان سے اعراض کا مطلب

متذکرہ بالا دونوں اصول جو باہم لازم و ملزوم بھی ہیں، اسلامی ریاست یا نظام خلافت کے دو لازمی ولابدی خصائص ہیں جو اس سے کسی بھی صورت یا حالت میں جدا نہیں کئے جا سکتے، اور جو مسلمان ان کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اختیار نہیں کر سکتا اسے صاف کہہ دینا چاہئے کہ وہ اسلام کو صرف عقیدہ اور اخلاقی سطح پر قبول کرتا ہے، نظام ریاست و حکومت اور سیاست ملک و قوم کی سطح پر اسے یا غیر موذوں اور نامناسب سمجھتا ہے یا ناممکن اور ناقابل عمل. اس لیے کہ ان میں سے پہلا اصول توحید کا لازمی تقاضا ہے جو اسلام کی جڑ اور بنیاد ہے، لہٰذا اس کا انکار کفر ہے اور اس میں استثناء کے رخنے ڈالنا شرک ہے. چنانچہ سورۂ مائدہ کی آیات ۴۴، ۴۵ اور ۴۷ میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ’’جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں، وہی تو ظالم (مشرک) ہیں اور وہی تو فاسق (یعنی سرکش اور باغی) ہیں.‘‘ اور سورۂ روم کی آیت نمبر ۳۲ میں صراحت کر دی گئی ہے کہ نظام اطاعت کے حصے بخرے کر دینا کہ بعض حصوں میں مرکز اطاعت اللہ اور رسول ہوں اور بعض میں کوئی اور حقیقت کے اعتبار سے شرک ہے. مزید برآں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۵۸ میں شدید تنبیہ و تہدید فرما دی گئی ہے کہ: ’’تو کیا تم ہماری کتاب (یعنی شریعت) کے کچھ حصے کو تسلیم کرتے ہواور کچھ حصوں کو نہیں مانتے؟ تو جان لو کہ تم میں سے کو جوئی بھی یہ روش اختیار کرے گا اس کی سزا دنیا میں بھی ذلت ورسوائی ہو گی اور قیامت کے دن تو انہیں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے گا. اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں!‘‘

رہا دوسرا اصول، تو وہ پہلے اصول کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہونے کے اعتبار سے تمام مسلمانوں کے لیے واجب التسلیم ہونے کے علاوہ پاکستان کے لیے تو جڑ اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کہ حصولِ پاکستان کی تحریک متحدہ وطنی قومیت کی نفی اورمسلمانوں کی جداگانہ قومیت کی بنیاد پر چلائی گئی تھی. بنابریں اس کا انکار پاکستان کے جواز کی نفی، اور اس سے انحراف پاکستان کے انہدام کے مترادف ہے. (یعنی وجہ ہے کہ بھارت کے صحافی اور دانشور پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کی نفی کا یہ لطیف انداز اختیار کرتے ہیں کہ ’’ہم نے پاکستان کو تسلیم کیا ہے، دو قومی نظریئے کو نہیں!‘‘