عہد حاضر میں اسلامی ریاست یا نظام خلافت کے نو (۹) دستوری نکات

بہرحال اسلامی ریاست یا نظام کے ان دو اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے ساتھ انسانی حقوق کے بلند ترین تصورات و معیارات اور ریاست و حکومت کے جدید ترین اداروں کو نتھی کیا جا سکتا اور اس طرح انسان کے تمدنی ارتقاء کے جملہ ثمرات سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً:

۱. اجتماعی اخلاقیات

جب تک انسان کا سیاسی شعور گویاعہد طفولیت میں تھا اور انسان صرف بادشاہت یا شخصی حکومت ہی سے واقف تھا، خلافت اور امامت بھی شخصی ہی ہوتی تھی. چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام سے کہا گیا: ’’ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا ہے، پس لوگوں کے مابین حق و انصاف کے مطابق حکومت کرو! (سورۂ ص: ۲۶) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا گیا: ’’میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں!‘‘ (سورۂ بقرہ: ۱۲۴) لیکن جب نوع انسان کا سیاسی شعوربلوغ کو پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے خلافت اور امامت کوبھی عوامی اور اجتماعی اداروں کی شکل دے دی، چنانچہ ایک جانب امامت الناس کی ذمہ داری مجموعی اعتبار سے امت مسلمہ کے حوالے کر دی گئی جسے امت وسط اور خیر امت کا خطاب دیا گیا اور دوسری طرف خلافت بھی عامۃ المسلمین کا حق قرار پائی جو اپنے میں سے کسی کو منتخب کر کے اسے خلافت کے منصب پر فائز کر سکتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ اپنی حیات دنیوی کے آخری موقع پر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مطلع کیا کہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جیسے ہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ بند ہوئی ہم فوری طور پر فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر لیں گے تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنے مضطرب ہوئے کہ فوری طور پر اجتماع عام منعقد کر کے عامۃ المسلمین کو ان لوگوں کے عزائم سے خبردار کرنے کا ارادہ فرمایا: ’’جو لوگوں کا حق غصب کرنا چاہتے ہیں.‘‘ تاہم حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر آپؓ نے یہ ارادہ مدینہ منورہ واپسی تک کے لیے ملتوی کر دیا.

چنانچہ مدینہ واپس پہنچنے پر آپ نے ایک عام اجتماع میں مفصل خطاب فرمایا، جس میں مسند احمد بن حنبلؒ کی روایت کی رو سے تو یہ الفاظ شامل تھے کہ ’’جس شخص نے کسی امیر کی بیعت مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کر لی اس کی کوئی بیعت نہیں‘‘ اور صحیح بخاری کی روایت کے مطابق الفاظ یہ ہیں: ’’جس کسی نے مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی امیر کی بیعت کی تو نہ اس کی بیعت کی جائے گی نہ اس کی جس کی اس نے بیعت کی!‘‘ اسی طرح ’’مسلمانوں کے باہمی مشورے‘‘ کا نظام بھی دورِ خلافت راشدہ میں تو جیسے کہ گزشتہ صحبت میں عرض کیا جا چکا ہے، قبائلی اساس اور اس درجہ بندی کی بنیاد پر قائم تھا جو نبی اکرم کے فرامین و فرامودات کی بناء پر اس وقت بالفعل موجود تھی، لیکن موجودہ زمانے میں اسے بالغ رائے دہی کے اصول کے مطابق ریاست کی جغرافیائی حدود میں رہنے والے تمام بالغ مسلمان مردوں اور عورتوں تک وسیع کرنے میں کوئی نص شرعی مانع نہیں ہے، بلکہ فقہاءِ اسلام کا بیان کردہ اصول کہ ’’تمام مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے کفو ہیں‘‘ روح عصر کے عین مطابق ہے، اور جس طرح ایک مسلمان باپ کی وراثت میں اس کے محسن و متقی اور فاسق و فاجر بیٹے برابر کے شریک ہوتے ہیں، ایسے ہی خلیفہ اور شوریٰ یا مجلس ملی کے ارکان کے انتخاب کے ضمن میں رائے دہندگی کے حق کے معاملے میں بھی بالکل ایک دوسرے کے مساوی ہوں گے.

البتہ قرآن حکیم کی اس ہدایت ابدی کے مطابق کہ ’’امانتوں کو ان کے اہل لوگوں کے حوالے کرو.‘‘ (سورۂ نساء: ۵۸) انتخابات میں بحیثیت امیدوار سامنے آنے والوں کی سیرت و کردار کی چھان بین اور سکریننگ کا مؤثر بندوبست ضروری ہو گا، تاکہ ملک و ملت کی اہم ذمہ داریوں کی امانت صرف اہل لوگوں کے حوالے کی جا سکے. اس سلسلے میں جہاں تک امیدواری کے حلال یا حرام ہونے کا تعلق ہے اس پر گزشتہ صحبت میں گفتگو ہو چکی ہے، رہا حق رائے دہندگی کے ضمن میں عمر کا تعین اور علیٰ ہذا القیاس کسی اضافی شرط یا شرائط کا عائد کیا جانا تو یہ بھی مسلمانوں کے باہمی مشورے ہی سے طے ہونے والے امور ہوں گے!

اس پوری بحث میں نظری اعتبار سے تو ان تمام لوگوں کا موقف مختلف ہو گا جو نبی اکرم پر نبوت کے خاتمے کے بعدبھی شخصی اور معلوم امامت کے قائل ہیں، لیکن چونکہ ان کی عظیم اکثریت یعنی اثناء عشری کے عقیدے کے مطابق فی الوقت امام موجود نہیں ہیں بلکہ غیبت کبریٰ میں ہیں لہٰذا عملاً وہ بھی وہیں کھڑے ہیں 
جہاں تمام اہل سنت، (بلکہ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے تو ’’اجتہاد‘‘ کو ایک زندہ اور متحرک ادارے کی حیثیت سے قائم ہی صرف اہل تشیع نے رکھا ہے!) اور یہی معاملہ شش امامیہ حضرات میں سے دائودی بوہروں کا ہے، گویا عملی طور پر استثناء صرف آغا خانیوں یا اسماعیلیوں کا ہے. ان کا امام معصوم چونکہ حاضر و موجود ہے لہٰذا ظاہر ہے کہ اگر روئے ارضی کے کسی علاقے میں کبھی اسماعیلی ریاست قائم ہوئی تو وہاں خلافت کے لیے انتخاب کا کوئی سوال نہیں ہوگا بلکہ امام حاضر خود یا اس کا کوئی نامزد نمائندہ حکومت کا اختیار سنبھالے گا. تاہم چونکہ پاکستان میں اسماعیلی ایک اقل قلیل اقلیت میں ہیں لہٰذا ان کا معاملہ اہمیت کا حامل نہیں ہے.

۲ . ریاست کے اعضائے ثلاثہ

اسی طرح سب جانتے ہیں کہ عہد حاضر کی ریاست کے تین ’’اعضائے رئیسہ‘‘ یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ دورِ خلافت راشدہ میں باہم گڈمڈ تھے اور علیحدہ علیحدہ مشخص و ممیز نہ تھے، لیکن ظاہر ہے کہ عہد حاضر کی اسلامی ریاست یا نظام خلافت کی راہ میں تمدنی ارتقاء کے ان عظیم ثمرات سے بھرپور طور پر مستفید ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہے، چنانچہ ایک جانب مقننہ ہو گی (جسے مجلس شوریٰ بھی کہا جا سکتا ہے اور مجلس ملی بھی) جس کے ارکان بھی سب مسلمان ہی ہوں گے اور ان کا انتخاب بھی صرف مسلمانوں کی رائے سے ہو گا اور اس کے ذریعے قانونی سازی یعنی شریعت اسلامی کی تدوین نو اور اجتہاد کا عمل جاری رہے گا. دوسری جانب عدلیہ ہو گی جو جہاں شہریوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے گی اور شہریوں اور انتظامیہ کے مابین عدل قائم کرے گی اور دستور کی رو سے جو حقوق شہریوں کو حاصل ہوں گے ان کی حفاظت کرے گی وہاں دستور کی امین ہونے کے ناطے اس امر کا بھی فیصلہ کرے گی کہ آیا مقننہ کا کوئی اختیار کردہ اجتہاد شریعت کے دائرے سے تجاوز تو نہیں کر گیا اور تیسری جانب انتظامیہ ہو گی جو ملک و قوم کے معاملات کے انتظام و انصرام، قانون کی تنفیذ، امن و امان کے قیام اور دفاع ملکی کے اہتمام کی ذمہ داری ہو گی.

۳. قانون سازی یا اجتہاد

اجتہاد کے بارے میں علامہ اقبال کی یہ رائے تو صد فی صد درست ہے کہ اب اجتہاد پارلیمنٹ کے ذریعے ہو گا، لیکن ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اجتہاد کا حق صرف ارکان پارلیمنٹ کے لیے مختص ہو گا اور پارلیمنٹ سے باہر اصحاب ِ علم و فضل اور ارباب فہم و دانش کے لیے اجتہاد شجر ممنوعہ ہو گا، بلکہ اصل مراد یہ ہے کہ اس امر کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی کہ کون سا اجتہاد قانون کا درجہ حاصل کر کے بالفعل نافذ ہو گا. تاہم چونکہ اس امر کا فیصلہ کہ آیا کوئی اجتہاد حدود شریعت کے اندر اندر ہے یا تجاوز کر گیا ہے، ایک علمی اور فنی معاملہ ہے لہٰذا عقل و منطق کی رو سے اس کا اختیار ایسی پارلیمنٹ کو نہیں دیا جا سکتا جس کے ارکان محض عمر کے لحاظ سے بالغ مردوں اور عورتوں کے حق رائے دہی کی بنیاد پر منتخب ہوئے ہوں، قطع نظر اس کے کہ وہ دین و شریعت کے علم سے بہرہ ور ہوں یا تہی دست ہوں. اور چونکہ دستور کی اس دفعہ کہ ’’یہاں کوئی قانون کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی نہیں بنایا جا سکے گا‘‘ کی عملی تنفیذ کی نظری طور پر تین ہی صورتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ اس کا اختیار مطلق پارلیمنٹ ہی کو دے دیا جائے جیسا کہ آج کل جمہوریت کے بہت سے علمبردار کہہ رہے ہیں،لیکن اس صوت میں منطقی طور پر لازم آئے گا کہ پارلیمنٹ میں صرف وہ لوگ شامل ہوں جو شریعت اسلامی کا معتدبہ علم حاصل کر چکے ہوں. اس طرح گویا مقننہ کا عوامی قاعدہ (Base) بہت محدود ہو جائے گا جس سے روح عصر کے تقاضے مجروح ہوں گے، دوسری صورت یہ ہے کہ پارلیمنٹ سے بالا تر ایک ادارہ ہو جو علماء پر مشتمل ہو اور اسے اس فیصلہ کا اختیار ہو کہ آیا جو بل پارلیمنٹ زیر غور یا منظور ہو کر قانون کا درجہ حاصل کر چکا ہے وہ شریعت کی حدود کے اندر اندر ہے یا نہیں. لیکن اس طرح ایک نوع کی تھیو کریسی وجود میں آجائے گی اور یہ بھی روح عصر کے منافی ہے، اس کے بعد تیسری رُوح دین اور رُوحِ عصر دونوں سے ہم آہنگ واحد صورت یہی رہ جاتی ہے کہ اجتہاد کا اختیار تو پارلیمنٹ ہی کے ہاتھ میں ہو لیکن اس میں خالص فنی اور علمی معاملے کو ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے سپرد کر دیا جائے کہ آیا کوئی اجتہاد واقعی ’’اجتہاد‘‘ ہی ہے یعنی کتاب و سنت کی حدود کے اندر اندر ہے یا حاکمیت خداوندی کو چیلنج کر کے بغی و طغیان اور فسق و فجور کی صورت اختیار کر گیا ہے!

اس ضمن میں موجود الوقت دو عملی بھی صرف عارضی طور پر درمیانی عرصہ کے لیے گوارا کی جا سکتی ہے کہ ملک کی عام اعلیٰ عدالتیں جدا ہوں اور ایک شریعت کورٹ علیحدہ قائم کی جائے اور یہ صورتحال تو بہت ہی ناپسندیدہ ہے کہ ان عدالتوں کے ججوں کے نصب و عزل کے معیارات اور قواعد و ضوابط مختلف ہوں… مستقبل کی مثالی اسلامی ریاست یا نظام خلافت علیٰ منہاج النبوۃ میں تو ظاہر ہے کہ لاء کالج اصل میں 
کلیۃ الشریعہ ہی ہوں گے اور جملہ وکلاء و جج صاحبان ماہرین علم شریعت ہوں گے، لہٰذا ایک ہی عدالتی نظام ہو گا اور کسی ثنویت کی قطعاً کوئی ضرورت نہ ہو گی.

۴ . سیاسی جماعتیں

عصر حاضر کی ترقی یافتہ اور روشن خیال ریاست کا اہم ادارہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور انسان کی حریت فکر اور آزادیٔ اظہار رائے کی طرح جماعت سازی کو بھی شہریوں کا ایک مسلم حق سمجھا جاتا ہے. عہد حاضر کی اسلامی ریاست یا نظام خلافت میں بھی عوام کو یہ حق بعض پابندیوں اور بعض اضافی آزادیوں کے ساتھ حاصل ہو گا. پابندی یہ ہو گی کہ کوئی سیاسی جماعت یا تنظیم اپنے منشور میں ایسی چیز شامل نہ کر سکے گی جو کتاب و سنت کی نصوص کے منافی ہو. اس لیے کہ سیاسی جماعتیں جس نظام کو چلانے کے لے وجود میں آئیں گی وہ خودبھی انہی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہو گا. اور اضافی آزادی یہ کہ ہر رکن پارلیمنٹ، خواہ کسی بھی جماعت کے ٹکٹ پر کامیاب ہوا ہو، روز مرہ کے معاملات میں اپنی رائے کے اظہار میں آ زاد ہو گا کہ اپنے ضمیر اور صوابدید کے مطابق رائے دے، الا یہ کہ معاملہ اساسی نوعیت کا ہو اور اس کی رائے بنیادی طور پر اس پارٹی کے منشور ہی کے خلاف جاری ہو جس کے ٹکٹ پر وہ منتخب ہوا ہو. اس صورت میں عقل ومنطق اور دیانت و شرافت، دونوں کا تقاضا ہو گا کہ وہ ازخود اپنی نشست سے مستعفی ہو جائے یا بصورت دیگر محروم کر دیا جائے.

۵ . آزادی اور پابندی کا حسین امتزاج

اس پوری بحث کا لب لباب ایک حدیث نبوی ؐ کے حوالے سے بآسانی چند الفاظ میں ادا کیا جا سکتا ہے. حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں کہ ’’مومن کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہو‘‘ (مسند احمدؒ عن ابی سعید الخدریؒ ) اس مثال کو ذرا وسعت دے کر فرض کریں کہ ایک وسیع و عریض میدان ہے جس میں گھوڑے کے بھاگنے دوڑنے کی کافی گنجائش ہے لیکن آپ نہیں چاہتے کہ وہ بالکل آزاد ہو کر فرار ہی ہو جائے، لہٰذا آپ اسے ایک سو گز لمبی رسی کے ذریعے کھونٹے سے باندھ دیتے ہیں. اس طرح سوگز نصف قطر کا ایک دائرہ ایسا وجود میں آ جائے گا جس میں گھوڑا آزاد ہو گا. البتہ ایک سو ایک واں گز ہر سمت میں ممنوع یا ناممکن ہو گا. ایک اسلامی ریاست یا نظام خلافت میں آزادی اور پابندی کا جو حسین امتزاج ہوتا ہے وہ اس مثال سے اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ دائرے کا محیط کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کی نمائندگی کرتا ہے جس سے تجاوز کی اجازت نہ افراد کو ہے نہ بحیثیت مجموع معاشرے یا ریاست کو، البتہ اس دائرے کے اندر اندر افراد بھی آزاد ہیں اور ریاست اور معاشرہ بھی چنانچہ اس حصے میں عہد حاضر کے اعلیٰ ترین معیارات کے مطابق جمہوری اقدار کی ترویج و تنفیذ اور ’’ان کا معاملہ باہمی مشاوت سے طے ہوتا ہے‘‘ کے قرآنی اصول (سورۂ شوریٰ آیت نمبر ۳۸) کے تقاضوں کو عہدحاضر کے بہترین ترقی یافتہ اداروں کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے.

۶ . فقہی اختلافات کا حل

ایک بہت اہم معاملہ جو شریعت کے عملی نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کی حیثیت سے بالعموم پیش کیا جاتا ہے فقہی اور مسلکی اختلافات کا ہے. حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کچھ تو اس مسئلے کی سنگینی واقعتا اتنی نہیں جتنی بظاہر معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ اس کی اصل حدت و حرارت، یا توجمود اور تعطل کی پیداوار کردہ ہے یا مذہبی پیشہ وارانہ چشمک کا نتیجہ! اور یہ دونوں چیزیں اسلامی ریاست یا نظامِ خلافت کے قیام سے ازخود ختم ہو جائیں گی. مزیدبرآں ؎

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

کے مصداق اس میں بہت کچھ رنگ آمیزی الحاد اور اباجیت کے علمبرداروں نے جان بوجھ کر کردی ہے، تاہم اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ فقہی اختلافتات ایک حقیقت واقعی ہیں اور ان کو یکسر ختم کردینا ممکن ہی نہیں محال عقلی ہے اور عہد حاضر کی اسلامی ریاست یا نظام خلافت میں ان کو مناسب قانونی اور دستوری حیثیت دینا لازمی و لابدی ہے.

اس اعتبار سے میری یہ بات یقینا بہت عجیب معلوم ہو گی لیکن میں ابلاغ کی سہولت کے لیے یہ اصطلاح استعمال کر رہا ہوں کہ عہد حاضر کی اسلامی ریاست یا نظام خلافت ’’نیم سیکولر‘‘ ہو گا، یعنی جس طرح سیکولر نظام میں کم ازکم نظری طور پر تمام مذاہب و ادیان کو شہریوں کے شخصی معاملے کی حیثیت سے برابر تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کے ضمن میں ہر شخص کو مکمل آزادی دی جاتی ہے، اسی طرح جدید اسلامی ریاست یا نظام خلافت میں پورے پرسنل لاء اور احوال شخصی (بشمول عائلی قوانین) میں جملہ فقہی مسالک برابر تسلیم کیے جائیں گے اور تمام شہریوں کو مکمل آزادی حاصل ہو گی کہ عقیدہ و عبادت، پیدائش، شادی بیاہ، اور تجہیز وتکفین کی جملہ رسومات و تقریبات حتیٰ کہ عائلی قوانین اور احکام میراث میں اپنے اپنے مسلک کے مطابق عمل کریں (اور جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے یہ آزادی غیر مسلموں کو بھی بہ تمام و کمال حاصل ہو گی). اس ضمن میں مشمل صرف عائلی قوانین کے ضمن میں 
پیش آ سکتی ہے، یعنی ہو سکتا ہے کہ لڑکا کسی ایک مسلک سے تعلق رکھتا ہو اور لڑکی کسی دوسری فقہ کی پیرو ہو، اس صورت میں سادہ اور آسان حل یہ ہے کہ نکاح کے موقع پر طے کر لیا جائے کہ اس شادی سے متعلق جملہ معاملات کس فقہ کے تحت طے ہوں گے، گویا دونوںمیں سے کسی ایک کو، صرف عائلی قوانین کی حد تک دوسرے کے مسلک کو قبول کرنا ہو گا.

اس معاملے میں بھی ہمیں ترقی یافتہ ممالک سے رہنمائی حاصل کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہئے. چنانچہ اس میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہو گا کہ مختلف فقہی مسلک رجسٹر کر لیے جائیں اور ان کے اپنے اپنے اعلیٰ سطحی بورڈ ہوں جو اپنے اپنے مسلک کی مساجد اور اوقاف کا انتظام سنبھالیں اور حکومت کو اپنے اپنے مسالک سے متعلق امورمیں مشورے دے سکیں، یہاں تک کہ عائلی مقدمات کا فیصلہ بھی ان ہی کے حوالے کر دیا جائے.

باقی جہاں تک قانونِ ملکی، یعنی فوجداری اور دیوانی قوانین، اور ملک کے پورے انتظامی ڈھانچے سے متعلق قواعد و ضوابط کا تعلق ہے تو اس معاملے میں دو میں سے کوئی ایک راہ اختیار کی جا سکتی ہے، یعنی ایک یہ کہ ان کے ضمن میں کسی بھی فقہ کو معین طور پر نافذ نہ قرار دیا جائے، بلکہ اصل حجت صرف کتاب اللہ اورسنت رسولؐ ہی قرار پائیں اور تمام مذاہب فقہی اور ان کے اختیار کردہ اجتہادات حض نظائر کی حیثیت سے مشترک علمی ورثہ قرار پائیں. اور دوسری یہ کہ ملک کی آبادی کی اکثریت جس فقہ کی پیرو ہو پبلک لاء میں اسی کو نافذ کر دیا جائے، جیسے کہ فی الوقت ایران میں کیا گیا ہے. میرے نزدیک ان دونوں صورتوں میں بالفعل کوئی زیادہ فرق نہیں ہو گا، اس لیے کہ عملاً تو عہد حاضر کی اسلامی ریاست میں قانون اسلامی کی تدوین ازسر نو ہو گی، اور یہ کام پارلیمنٹ یا مجلس ملی کے ذریعے ہو گا جس کے ضمن میں یہ فیصلہ کہ کہیں کتاب و سنت کی حدود سے تجاوز تو نہیں ہو گیا، ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے ہاتھ میں ہو گا جہاں اصل دلیل صرف کتاب و سنت ہی ہوں گے. ملک کی آبادی کی 
اکثریت کی فقہ کو اگر دستوری حیثیت بھی دی جائے تو اس کا عملی اثر صرف اس حد تک مترتب ہو گا کہ کتاب و سنت سے استدلال اور استنباط میں اس مخصوص مکتب فقہ کے اصول اختیار کیے جائیں. الغرض ع ’’مشکلے نیست کہ آساں نہ شود‘‘ کے مصداق یہ معاملہ بھی ہرگز لاینحل نہیں ہے. ضرورت صرف اس ارادے اور عزم کی ہے کہ ہمیں مسلمان جینا اور مسلمان مرنا ہے اور زندگی کے انفرادی اور اجتماعی دونوں گوشوں کو دین کے تابع کرنا ہے.

۷ . صدارتی وفاقی نظام

رہا یہ سوال کہ آیا عہد حاضر کی اسلامی ریاست کا دستوری خاکہ پارلیمانی طرز کا ہو گا یا صدارتی طرز کا اور اسی طرح یہ امر کہ آیا ریاست وحدانی ہو گی یاوفاقی تو ان میں سے کتاب و سنت کی کسی نص نے کسی بھی صورت کو مسلمانوں پر واجب و لازم نہیں کیا ہے بلکہ اصولی طور پر یہ معاملہ بھی وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ کے ذیل میں ہے، لہٰذا کلیتاً ریاست کے شہریوں کی صوابدید پر ہے. تاہم اس تاریخی حقیقت کا ذکر کرنا نامناسب نہیں ہو گاکہ دورِ خلافت راشدہ کا نظام حکومت جدید تصورات کے اعتبار سے صدارتی اور وحدانی نظام سے قریب تر تھا. اور اسی طرح اس ذاتی رائے کے اظہار میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت میں جس طرح پارلیمانی نظام کو گویا اصول موضوعہ اور ہمیشہ کے لیے طے شدہ فیصلے کی حیثیت دے دی گئی ہے وہ بھی کسی شعوری اور بالارادہ انتخاب کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم پر انگریز حکمران تھے اور انہوں نے ہمیں جو ابتدائی تربیت دی وہ اسی نظام کی تھی، جو خود ان کے اپنے ملک میں رائج تھا. ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اگر معروضی طور پر غور کیا جائے تو پاکستان اوربھارت، دونوں کے حالات سے صدارتی نظام زیادہ مطابقت رکھتا ہے. البتہ اسے حقیقی معنوں میں وفاقی ہونا چاہئے. اس ضمن میں بھارت نے تو بعض اقدامات کر بھی لیے ہیں جیسے بہت سے صوبوں کی نئی تشکیل اور ان کے ضمن میں جغرافیائی حقائق کے ساتھ ساتھ لسانی اور ثقافتی حقائق کا بھی مناسب لحاظ، لیکن پاکستان کو ابھی اس مرحلے سے بھی گزرنا ہے اور اس کے علاوہ مناسب ہے کہ صوبے چھوٹے چھوٹے بنائے جائیں اور ان کے مابین آبادی کا فرق و تفاوت بھی بہت زیادہ نہ ہو بلکہ اندازاً تمام صوبے لگ بھگ ایک کروڑ کی آبادی مشتمل ہوں (الا یہ کہ کسی خاص علاقے میں رقبہ کی نسبت سے آبادی بہت کم ہو، جیسے بلوچستان، تو وہاں کم آبادی پر بھی صوبہ بنایا جا سکتا ہے) . مزید برآں روحِ عصر کا تقاضا ہے کہ جملہ وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ داخلی خودمختاری دی جائے اور ہر علاقے کے لوگوں کی زبان اور ثقافت کو یکساں اہمیت دی جائے. سوائے عربی زبان کے جو ریاست کے اصل الاصول کے منبعوں اور سرچشموں، یعنی کتاب و سنت کی زبان ہے جس کی تعلیم پوری ریاست میں لازمی قرار دی جائے گی، اور جیسے ہی ممکن ہو ا اسی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جائے گا.

۸. خواتین کی شرکت

ر ہا اس پورے نقشے خواتین کی شرکت اور شمولیت کا سوال تو اس سلسلے میں یہ امر تو قطعی طور پر ہو گا کہ کوئی عورت خلافت کے منصب پر فائز نہ ہو سکے گی. اس لیے کہ یہ اگرچہ حرام مطلق تو نہیں، لیکن مکروہ تحریمی کی حد تک ناپسندیدہ ضرور ہے. اسی طرح یہ رائے بھی پہلے ہی دی چکی ہے کہ جہاں خلیفہ اور ارکانِ شوریٰ کی رکنیت کا معاملہ ہے، خواتین کوبھی رائے دہی کا حق حاصل ہو گا. البتہ مجلس شوریٰ کا معاملہ اس کے بین بین ہے کہ اگر ان کی مجلس شوریٰ میں شرکت کی گنجائش رکھی گئی ہی، تب بھی ان کے لیے ستروحجاب کے شرعی احکام کی پابندی لازم ہو گی.

۹ . غیر مسلموں کی حیثیت

جہاں تک غیر مسلم اقلیتوں کا سوال ہے اصولی بات تو پہلے ہی عرض کی جا چکی ہے. صدر ریاست یا خلیفہ اور مجلس شوریٰ کے انتخاب میں ان کو حق رائے دہی حاصل نہیں ہو گا. البتہ تمام اقلیتی مذاہب کی ایک مشترکہ مجلس مشاورت یا مختلف مذاہب سے متعلق لوگوں کے علیحدہ علیحدہ مشاورتی بورڈ ان کے ووٹوں کے ذریعے تشکیل دیئے جاسکتے ہیں جو ان سے متعلق معاملات کے ضمن میں حکومت کو مشورے دے سکیں. یہ معاملہ یقینا عہد حاضر کے مسلمہ اورمروجہ نظریات کے بالکل خلاف ہے، لیکن اگر ہم واقعتا ایک اسلامی ریاست یا نظام خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو، جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے، یہ کڑوی گولی بہرصورت نگلنی پڑے گی. بصورت دیگر ہم نہ اِدھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے… اور مسلسل ؎

’’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے!‘‘

کی تصویر بنے رہیں گے!

لمحہ فکریہ

اس کا حتمی فیصلہ ظاہر بات ہے کہ ایک زبردست عوامی تحریک ہی کے ذریعے ممکن ہے، چنانچہ ہماری تمام مذہبی جماعتوں کو غور کرنا چاہئے کہ جب تک ملک کے دستور اساسی میں یہ بنیادی امور طے نہ کرا لیے جائیں، ان اسمبلیوں میں شرکت مفید اور مناسب بھی ہے یا نہیں جن میں شمولیت کا پہلا قدم ہی دستور سے کامل وفاداری کا حلف اٹھانا ہوتا ہے؟ اور کیا صرف یہ خالص نظری اورموہوم سی امید کہ اسمبلی کے ذریعے دستور میں ترمیم بھی کرائی جا سکتی ہے، اس عمل میں تن من دھن کے ساتھ شرکت کے لیے کافی وجہ جواز ہے. ؍ بَیِّنُوْا تُوجَرُوا… اب ان شاء اللہ آئندہ صحبت میں ’’پاکستان کی قومی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار‘‘ کے موضوع پر گفتگو ہو گی.

(شائع شدہ نوائے وقت ۵ جون۹۲ء