بسم اللہ الرحمن الرحیم 
حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی سرکاری تربیتی ادارے میں خطاب کی دعوت ملی. وہاں گفتگو کے لیے جو موضوع دیا گیا وہ بہت دلچسپ تھا. یہ موضوع دو اجزا پر مشتمل تھا، یعنی ایک ’’اسلامی ریاست میں سیاسی جماعتوں کا کردار‘‘ اور دوسرا ’’پاکستان کی قومی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار‘‘… گویا ایک بحث خالص علمی اور اصولی تھی اور دوسری و اقعاتی اور تجزیاتی. وہاں ان دونوں موضوعات پر جو کچھ عرض کیا گیا اسے کسی قدر حک واضافہ کے ساتھ سلسلہ وارہدیہ قارئین کرنے کی کوشش کی جائے گی. چنانچہ آج اس موضوع کے حصہ اوّل سے متعلق گفتگو ہو گی اور اس کے بعد پاکستان کی قومی سیاست میں مذہبی جماعتوں کے کردار اور اس کے نتائج کا جائزہ لیا جائے گا. بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے یہ رائے بہت شدومد کے ساتھ پیش کی جاتی ہے کہ اسلامی ریاست میں سیاسی جماعتوں کاوجود جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ تفرقہ اور انتشار کا سبب بنتی ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے تفرقہ اور تحزب کے قبیل کی چیزیں فتنہ اور شرک کے ذیل میں آتی ہیں.ا س رائے کے حامل حضرات اپنے مؤقف کی تائید میں نہ صرف یہ کہ تفرقہ اور اختلاف کی مذمت میں وارد شدہ جملہ آیات قرآنی اور احادیث نبوی( ) پیش کرتے ہیں بلکہ اپنی رائے کے اتحاد و اتفاق کو تحسین و ترغیب پر مشتمل آیات و احادیث کے ذریعے مزید مؤکد کرتے ہیں. اس کے ساتھ ساتھ ان حضرات کا مؤقف یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں کا وجود اصلاً موجودہ انتخابی نظام کا حصہ ہے اور یہ نظام امیدوار ی کی اساس پر قائم ہے جو اسلام کی رو سے حرام ہے. اس طرح یہ پورا سلسلہ بنائے فاسد علی الفاسد کی کامل مثال ہے.

جہاں تک اس موقف کے جزو اوّل کا تعلق ہے یقینا جو حضرات یہ رائے پیش کر رہے ہیں وہ اپنی اس رائے پر بہت پہلے سے قائم ہوں گے لیکن امر واقعہ بہرحال یہ ہے کہ اس رائے کا اظہار سابق صدر پاکستان، جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور حکومت میں ہوا جو خود بھی اس کے حامی ہی نہیں پرجوش مبلغ تھے. پھر جنرل صاحب، موصوف کی یہ رائے بھی، ہو سکتا ہے کہ اصولی موقف پر مبنی ہو، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ان کی ذاتی اور وقتی مصلحت کے بھی عین مطابق تھی. رہا اس مرکب رائے کا جزوثانی، یعنی امیدواری کی حرمت، تو یہ موقف سب سے پہلے جماعت اسلامی نے ۵۱۱۹۵۰ء میں قیام پاکستان کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات کے موقع پر اختیار کیا تھا جو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے ہوئے تھے. جماعت اسلامی نے تو ان انتخابات کے نتائج کے پیش نظر اپنے پورے طریق اور اپنی جملہ آراء (مثلاً امیدواری حرام ہے اور پارٹی ٹکٹ لعنت ہے!) سے عملاً رجوع کر لیا تھا لیکن بعض حضرات تا حال اس موقف کی صحت اور درستی کے قائل ہیں اور اس کے ضمن میں بھی ان کی جانب سے جہاں قرآن مجید کی وہ آیات پیش کی جاتی ہیں جن میں دنیا میں ذاتی علو اور بالادستی کی طلب کو موجب فساد قرار دیا گیا ہے (جیسے سورۂ قصص کی آیت نمبر ۸۳) وہاں ان احادیث کی حوالہ بھی دیا جاتا ہے جن میں عہدہ کے حصول کی خواہش یا سوال کی مذمت کی گئی ہے.

واقعہ یہ ہے کہ یہ آراء چند درچند مغالطوں پر مبنی ہیں اور اگر ہم پاکستان میں واقعتا ایک مثالی اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں تو ہمیں ان مغالطوں کے ازالے کے لیے کھل کربات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے ذہین اور فہیم عناصر کے شکوک و شبہات رفع ہوں اور اسلام کے نظام حکومت و سیاست کی جانب پیش قدمی کی راہ ہموار ہو سکے.