اس سلسلہ میں اوّلین اور عظیم ترین مغالطہ، جو اکثر لوگوں کو لاحق ہوا ہے یہ ہے کہ شاید عہد حاضر کی اسلامی ریاست دورِ خلافت راشدہ کے نظام حکومت کا ہو بہو چربہ یا کاربن کاپی ہو گی، لہٰذا سب سے پہلے اسی پر گفتگو مناسب ہے.

پہلی خصوصیت: دورِ نبوت کا ضمیمہ

واقعہ یہ ہے کہ اگرچہ ایک جانب خلافت راشدہ کا دور ہماری تاریخ کے عہد زریں کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ساتھ محبت اور عقیدت کے رشتے کا استوار ہونا عین ایمان کا تقاضا ہے لیکن دوسری جانب اس حقیقت کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ دور خلافت راشدہ کے بعض ایسے خصائص اور امتیازات ہیں جو اس کے نظام حکومت میں تو جزولاینفک کے طور پر پیوست تھے لیکن اب دنیا میں دوبارہ کبھی وجود میں نہیں آ سکتے، مثلاً اوّلین اور اہم ترین یہ کہ دورِ خلافت راشدہ دورِ نبوت کا ضمیمہ تھا اور اس وقت کا معاشرہ نبی اکرمؐ کی دعوت اور تربیت وتزکیہ کے مبارک اثرات و ثمرات سے مالا مال تھا. اب نہ دنیا میں دوبارہ دورِ نبوت آئے گا نہ اس کے سے آثار وبرکات کا حامل ضمیمہ یا تتمہ!

دوسری خصوصیت: صحابہ ؓ کی درجہ بندی

ثانیا… دور خلافت راشدہ میں ہمیں اشخاص و افراد کے مابین ایک درجہ بندی نظر آتی ہے جو نبی اکرمؐ کی حیات ِ طیبہ کے دوران کی گئی جان گسل انقلاب جدوجہد کے دوران سبقت الی الایمان اور ہجرت و جہاد فی سبیل اللہ کے ضمن میں صبرومصابرت، ایثار و انفاق اور سرفروشی و جانفشانی کی کیفیت و کمیت کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی. چنانچہ چوٹی پر وہ دس صحابہ کرامؓ تھے جو عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں، پھر اصحابِ بدر کا درجہ تھا، ان کے بعد اصحاب بیعت رضوان کا شمار تھا، وَقِسْ عَلٰی ذٰلِک . اب ظاہر ہے کہ یہ درجہ بندی نہ صرف یہ کہ فی الوقت موجود نہیں بلکہ آئندہ بھی اگر کوئی جدوجہد اصولی اعتبار سے انقلابِ نبویؐ کے نہج اور منہاج پر ہوئی تب بھی اگرچہ اس کے کارکنوں میں ایک فطری درجہ بندی تو لازماً قائم ہو گی لیکن اس کے لیے اس قسم کی ’’سند‘‘ کا وجود میں آنا محال مطلق ہے جو نبی اکرمؐ کے فرامین وفرمودات کی بنیاد پر جملہ صحابہ کرام ؓ کو بحیثیت مجموعی اور مختلف صحابہ کو اپنے اپنے مرتبہ و مقام کے اعتبار سے انفرادی اور شخصی حیثیت سے حاصل تھی.

سنت خلفاءِ راشدین کا اتباع لازم

دورِ خلافت راشدہ کے اس قسم کے خصائص کی بناء پر ہی نبی اکرم نے اپنے اس فرمان مبارک میں خلفائے راشدین کی سنت کو اپنی سنت کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نتھی کر دیا ہے کہ: ’’تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنت، لہٰذا اسے مضبوطی کے ساتھ دانتوں سے پکڑے رکھو!‘‘ (ترمذی، ابوداؤد، عن عرباض ابن ساریہؓ ) چنانچہ اسی بنا پر فقہاء کرام نے خلفاء راشدینؓ کے اجتہادات کو اجماع کا درجہ دے کر ہمیشہ کے لیے واجب الالتزام قرار دیا ہے.

قبائلی معاشرہ اور تمدنی ارتقاء

دورِ خلافت راشدہ کے ان مثبت خصائص کے ساتھ ساتھ اس امر واقعی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری تاریخ کا عہد زریں اور دینی اور فقہی اعتبار سے حجت ہونے کے باوجود وہ دور زمان و مکان اور ظروف و احوال کے ایک خاص پس منظرکا حامل ہے. چنانچہ جہاں یہ حقیقت ظاہر و باہر ہے کہ چونکہ اس وقت کا معاشرہ خالص قبائلی بنیادوں پر قائم تھا، لہٰذا اس دور کا نظام مشاورت بھی لا محالہ اسی کی اساس پر استوار تھا اور کسی گھرانے کے سربراہ یا قبیلے کے شیخ کی رائے معلوم ہو جانے کے بعد اس کے ایک ایک فرد سے رائے لینا سوائے وقت اور وسائل کے ضیاع کے اور کچھ نہ تھا، وہاں یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ آج سے چودہ سو سال قبل نوع انسانی بحیثیت مجموعی کم ازکم سیاسی شعور کے اعتبار سے عہد طفولیت میں تھی اور ابھی سیاسی اداروں کے نشوونما کا عمل جاری تھا جس کا سب سے نمایاں مظہر یہ ہے کہ نہ صرف اس وقت بلکہ بعد میں بھی بہت طویل عرصے تک ’’ریاست‘‘ اور ’’حکومت‘‘ کے مابین کسی فرق و تفاوت کا فہم اور شعور نوعِ انسانی کو حاصل نہ ہوا تھا، جس کا لازمی اور منطقی، اور نہایت خوفناک نتیجہ یہ تھا کہ حکومت وقت کے مخالف لامحالہ ’’بغاوت‘‘ ہی شمار ہوتی تھی. (اور اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہی اصل سبب تھا کربلا کے حادثہ فاجعہ کا اور اس کے بعد کے ان متعدد حوادث کا جو حکومت کی تبدیلی کی کوشش کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے.

اس سلسلہ میں ہمیں اس اعتراف میں ہرگز کوئی باک محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ 
اگرچہ مسلمان عربوں نے فلسفہ، ریاضی، فلکیات اور طب وغیرہ جملہ علوم زیادہ تر یونان اور کسی قدر ہندسے سے حاصل کر کے انہیں پروان چڑھایا اور ترقی دی اور پھر ان علوم کو ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں کے ذریعے وسطی یورپ کی اقوام، خصوصاً اہل فرانس اور جرمنی کو منتقل کیا… چنانچہ اسی کے نتیجے میں ’’اصلاحِ مذہب‘‘ کی تحریک بھی برپا ہوئی اور ’’احیائے علوم‘‘ کی بھی، لیکن اس کے بعد ہم نہ صرف لمبی تان کر سو رہے بلکہ عیش وعشرت میں محو ہو گئے اور پھر جملہ علوم و فنون کا ارتقاء یورپ ہی میں ہوا. چنانچہ وہیں سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی، جس کے نتیجے میں انکشافات و ایجادات کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کی بلندیاں اب ؎ ’’عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں… کہ یہ ٹوٹا ہوا تارامہ کامل نہ بن جائے!‘‘ کے مصداق آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں اور تمدنی اور سیاسی ارتقاء کا عمل بھی یورپ ہی میں آگے بڑھا جس کے نتیجہ میں انسانی حقوق کا تصور بھی پروان چڑھا اور سیاسی ادارے بھی وجود میں آئے. اب اگر ہم یورپ کی سائنسی اور تیکنیکی ترقی کے ثمرات سے بہرہ اندوز ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اور زیادہ سے زیادہ یہی اصول اپناتے ہیں کہ نئی ایجادات کا استعمال شریعت کی حدود کے اندر ہونا چاہئے تو یہی اصول ہمیں مغرب کے تمدنی ارتقاء کے ثمرات کے ضمن میں بھی اختیار کرنا چاہئے کہ ان اداروں یا ان کے معمولات میں سے جو بھی قرآن و سنت کی واضح نصوص کی روشنی میں کلی یا جزوی طور پر ’’حرام‘‘ قرار پائیں ان سے تو لازماً اجتناب کریں لیکن باقی سے خواہ مخواہ الرجک نہ ہوں.

تاریخ کا حقیقت پسندانہ مطالبہ

دورِ خلافت راشدہ کے ضمن میں ایک تیسری حقیقت یہ بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس سے جو محبت اور عقیدت ہمارے دلوں میں ہے (اور ہونی چاہئے!) اُسے اِس دور کے حالات وواقعات کو حقیقی واقعاتی پس منظر میں دیکھنے کی راہ میں حجاب نہیں بننا چاہئے. اگر ہم ذرا دیر کے لیے تقدس کے پردے کو ہٹا کر دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ اس دور میں بھی سیاسی پارٹیاں موجود تھیں، اور اگرچہ ابتدا میں وہ خالص قبائلی بنیادوں پر قائم تھیں، جیسے مہاجرین و انصار، یا اوس و خزرج یا بنوہاشم اور بنو امیہ وغیرہ… تاہم کچھ ہی عرصے بعد ان میں شخصیات کا عمل دخل نمایاں ہو گیا تھا. چنانچہ شیعان علی ؓاور شیعان عثمانؓ دو پارٹیاں وجود میں آگئیں جو ابتداء میں خالص سیاسی اختلافات کی بنا پر ہی وجود میں آئی تھیں. ان کی بناء پر مذہبی اور اعتقادی تفرقہ بہت بعد کی پیداوار ہے.

اسی طرح ’’امیدواری‘‘ اس دور میں جس طرح حرام قرار دی جا رہی ہے اس میں بھی واقعات وحقائق سے صاف اور صریح گریز نظر آتا ہے. اس لیے کہ جہاں تک حضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ منتخب ہونے کا معاملہ ہے، سب جانتے ہیں کہ وہ خالص ہنگامی حالات میں ہوا تھا. یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاریؒاور مسند احمد ابن حنبلؒ میں وارد روایات کے مطابق حضرت عمرؓ نے صراحتاً واضح کر دیا تھا کہ اسے آئندہ کے لیے نظیر نہیں بنایا جا سکتا اور مسلمانوں کے مشورے کے بغیر خلافت کا فیصلہ گویا مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے کے مترادف ہو گا! اسی طرح حضرت عمرؓ کا معاملہ بھی استثنائی ہے، اس لیے کہ وہ بجائے خود بھی ایک غیر متنازعہ اور متفق علیہ شخصیت کے حامل تھے، پھر ان کا انتخاب نہیں ہوا بلکہ انہیں حضرت ابوبکرؓ نے اصحاب حل وعقد سے استصواب اور مشورے کے بعد نامزد کر دیا تھا. لیکن خلیفہ ثالث کے انتخاب کا معاملہ مختلف تھا. حضرت عمرؓ خود کسیکے لیے انشراحِ صدر کے ساتھ فیصلہ نہ کر پائے تو انہوں نے معاملہ ان صحابہؓ کے حوالہ کر دیا جو عشرہ مبشرہ میں سے اس وقت موجود تھے… کہ اپنے میں سے کسی کو خلیفہ چن لیں (یہ ایک نہایت فیصلہ کن مثال ہے اُس دور میں موجود درجہ بندی کی!) گویا یہ اس وقت کا ’’الیکٹورل کالج‘‘ تھا.

اب یہ تفصیل سب کے علم میں ہے کہ ان حضرات میں سے تین نے بقیہ تین کے حق میں ’’دستبرداری‘‘ کا اعلان کر دیا. بقیہ تین میں سے بھی ایک (حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ ) نے اعلان کر دیاکہ اگر باقی دو حضرات فیصلے کا اختیار انہیں دے دیں تو وہ بھی ’’دستبردار‘‘ ہوجائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، تو بتایئے کہ بقیہ دو حضرات جدید اصطلاح کے مطابق ’’امیدوار‘‘ کے سوا اور کیا قرار پائیں گے؟ اگرچہ یہ ’’امیدواری‘‘ معاذ اللہ، حکومت اور اقتدار کی حرص اور ذاتی علوو سربلندی کی خواہش کی بناء پر ہرگز نہ تھی بلکہ اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق ملک و ملت کو بہتر سے بہتر انتظامی ڈھانچہ عطا کرنے اور اپنی اپنی خداداد صلاحیتوں و استعدادات کی مناسبت سے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے مقاصد کو 
زیادہ سے زیادہ سرعت اور تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھانے کے لیے تھی.

اخلاقی اور قانونی تعلیمات میں فرق

ایک دوسرا خلط مبحث جو اس قسم کے معاملات میں بالعموم پیش آتا ہے وہ اسلام کی اخلاقی و روحانی اور فقہی و قانونی تعلیمات کے مابین فرق نہ کرنے کے باعث پیدا ہوتا ہے. اسلام کی ان دونوں سطحوں کی تعلیمات اکثر وبیشتر معاملات میں مختلف، اوربعض معاملات میں تو متضاد تک ہوتی ہیں، اور اگر ان کے مابین فرق و امتیاز قائم نہ رکھا جائے تو بسا اوقات خالص نیک نیتی کے تحت بھی نہ صرف یہ کہ بڑے بڑے مغالطے پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ عظیم فتنے رونما ہو جاتے ہیں. مثلاً اخلاقی سطح پر تو نبی اکرم نے تین بار اللہ کی قسم کھا کر اس شخص کے ایمان کی مطلق نفی فرمائی ہے جس کی کج خلقی کے باعث اس کا پڑوسی امن اور چین میں نہ ہو، لیکن ظاہر ہے کہ اس کی بناء پر کسی کو غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس قسم کی احادیث کی بنا پر خلط مبحث کے باعث خوارج ایسا انتہائی گمراہ فرقہ وجود میں آیا جس نے ایک عظیم فتنے کی صورت اختیار کر لی. اسی طرح روحانی اور احسانی سطح پر قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ جو کچھ اپنی ضرورت سے زائد ہو اللہ کی راہ میں دے دیاجائے اور اپنے پاس مال جمع نہ کیا جائے، دوسری طرف قانونی سطح پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ حلال ذرائع سے جو کچھ کماؤ اس میں سے صرف زکوٰۃ تو لازماً وصول کر لی جائے گی، باقی کے ضمن میں تمہیں اختیار حاصل ہے کہ چاہو تو ازخود اللہ کی راہ میں دے دو اور چاہو تو اپنے پاس رکھ لو… چنانچہ اسی پر زکوٰۃ اور میراث کے شرعی احکام نافذ ہوتے ہیں.

سب جانتے ہیں کہ آیت کنزہی کی بناء پر خالص نیک نیتی سے حضرت ابوذرؓ اس رائے کے شدت سے قائل ہو گئے تھے کہ چاندی سونے کی کوئی بھی مقدار اپنے پاس رکھنا حرامِ مطلق ہے. یہی معاملہ تفرقہ و انتشار کی مذمت اور اتحاد اور اتفاق کی ترغیب یا اقتدار کی حرص یا علوذات کی خواہش کی مذمت کا ہے. یہ ایک اصولی اور اخلاقی تعلیم ہے لیکن نہ شعوب و قبائل کی تقسیم و تمیز اس کے منافی ہے جسے اللہ نے خود اپنی جانب منسوب کیا ہے، نہ ہی اس کی نفی اس حقیقت واقعی سے ہوتی ہے کہ معاشرے کا ہرفرد ایک نیم آزادی (آٹو نومس) تنظیمی وحدت ہے جس کا سربراہ اپنی جگہ ’’والی امر‘‘ اور حدیث نبویؐ 
کے الفاظ میں ’‘راعی‘‘ ہوتا ہے. اس پر قیاس کرتے ہوئے ملکی و قومی مسائل، خارجی اور داخلی حکمت اور قومی آمد و خرچ (بجٹ) کے ضمن میں ترجیحات کے فرق کی بنیاد پر لوگ علیحدہ علیحدہ سیاسی جماعتوں کی صورت میں منظم ہوں تو جب تک ہر جماعت اور تنظیم کتاب و سنت کے حدود کے اندر اندر رہنے کی پابندی کا اقرار و اعلان کرے، اس میں ہرگز کوئی حرج نہیں ہے اور قرآن و سنت کی کوئی نص صریح ایسی نہیں ہے جس سے اس کی حرمت ثابت ہو.

ہمارا اصل مسئلہ: اخلاق کا زوال

اس مسئلے میں مغالطے کا ایک اور سبب یہ ہے کہ ہم جب بھی ان موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں، ہمارے پیش نظر اپنا ماحول ہوتا ہے اور ہم اپنے یہاں کی سیاسی جماعتوں کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے رائے قائم کرتے ہیں. حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کی اصولی حیثیت کو سامنے رکھا جائے، ورنہ ہمارے ہاں جو پیشے مقدس سمجھے جاتے ہیں اگر ان سے وابستہ لوگوں کی بھی اکثریت کے کردار کو سامنے رکھا جائے تو شاید رائے اکثر حالات میں برعکس قائم کرنی پڑے. اسی پر سیاسی جماعتوں کے کردار کو قیاس کرنا چاہئے کہ اصل خرابی قومی سطح پر کردار اور اخلاق کے زوال، دیانت و امانت کے فقدان، اور ایفائِ عہد کے عنقا ہو جانے کی ہے، جس پر مستزاد ہے سیاسی شعور کی کمی اور سیاسی جماعتوں کی استحکام کی راہ میں بار بار کے مارشل لاء کے ادوار کے باعث رکاوٹ، جس کی بناء پر ہم سیاسی اعتبار سے بحیثیت مجموعی ایک ’’نابالغ‘‘ قوم بن کر رہ گئے ہیں اور ملکی سیاست نے خالص ذاتی مفادات کے کھیل کی صورت اختیار کر لی ہے، اس کے برعکس متمدن اور ترقی یافتہ ممالک کی سیاسی جماعتوں کو دیکھیے کہ داخلی طور پر کتنی مستحکم اور منظم ہوتی ہیں اور عوامی سطح پر ملک و قوم کے مسائل کے ضمن میں لوگوں کو سوچنے اور غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں اور سیاسی و قومی معاملات کے ضمن میں تعلیم بالغاں کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں.

حاصل کلام

اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں عہد حاضر کی اسلامی ریاست کے ضمن میں قرآن اور سنت اور دورِ خلافت راشدہ سے بنیادی اصول اخذ کرنے ہوں گے اور ان کے ساتھ انسان کے تمدنی ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آنے والے جملہ اداروں کی پیوند کاری کرنی ہو گی، اس شرط کے ساتھ کہ ان کے اصول و قواعد، یا معمولات و روایات میں جو چیزیں قرآن و سنت کی نصوص کی رو سے حرام ہوں ان کی قطع وبرید اور تراش خراش کر دی جائے. اس لیے کہ جن اعلیٰ اقدار تک انسان نے اپنے اس طویل تمدنی ارتقاء کے ذریعے رسائی حاصل ہی ہے واقعہ یہ ہے کہ وہ سب علامہ اقبال کے قول کے مطابق اصل میں ’’نور مصطفی‘‘ ( ) ہی سے مستعار ہیں اور اس سفر کے دوران انسان نے جو ادارے تشکیل دیئے ہیں وہ نوعِ انسانی کی مشترک میراث ہیں اور ان اعلیٰ اقدار اور ان سیاسی و تمدنی اداروں کی برکات سے انسان صرف اس لیے محروم رہ گیا ہے، اور بحروبر میں فساد اس لیے رونما ہو گیا ہے کہ اس نے فرغون اور نمرود کی پیروی کرتے ہوئے حاکمیت مطلقہ کا مدعی بن کر خود ’’شارع‘‘ یعنی قانون ساز کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور اگر آج بھی آسمانی ہدایت و شریعت اور تمدنی ارتقاء کے ثمرات کو یکجا کر دیا جائے تو بائبل کی اصطلاح کے مطابق ’’زمین پر آسمان کی بادشاہت‘‘ قائم ہو جائے گی اور ہر وہ عالمی نظامِ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ وجود میں آجائے گا جس کے قیام کی صریح اور قطعی پیش گوئیوں کے ساتھ ساتھ اس کی کیفیات کے بارے میں حدیث نبویؐ میں یہ الفاظ مبارکہ بھی وارد ہوئے ہیں کہ: ’’اس سے آسمان والے بھی خوش ہوں گے اور زمین والے بھی. چنانچہ اس وقت آسمان بھی نعمتوں کی موسلادھار بارش برسائے گا اور زمین بھی اپنی نباتات و برکات کے سارے خزانے باہر نکال دے گی!‘‘ 

آئندہ صحبت میں ان شاء اللہ ہم یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصول کیا ہیں اور وہ عہد حاضر کی اعلیٰ ترین جمہوری معیارات کی حامل ریاست سے کن کن اعتبارات سے مختلف ہیں. 

(شائع شدہ: نوائے وقت ۲۹ مئی ۹۲ء)