بسم اللہ الرحمن الرحیم 

پاکستان کی قومی سیاست میں مذہبی جماعتوں کے کردار کے مثبت اور منفی پہلوؤں اور اس کے میزانیۂ نفع و نقصان کے موضوع پر گفتگو سے قبل تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے. ان میں سے دو باتیں تو سادہ بھی ہیں اور مختصر بھی، یعنی ایک یہ کہ یہاں سیاست کا وسیع تر مفہوم پیش نظر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف انتخابی سیاست ہے جس میں حصہ لینے والی جماعتیں الیکشن لڑ کر اس کے نتیجے میں حزب اقتدار یا حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں اور دوسری یہ کہ اس گفتگو میں مذہبی جماعتوں سے مراد بھی صرف وہ مذہبی جماعتیں ہیں جو الیکشن میں براہِ راست حصہ لیتی ہیں، دوسری مذہبی جماعتیں خواہ ان کی سرگرمیاں کتنی ہی وسیع ہوں (جیسے مثلاً تبلیغی جماعت) اور وہ انتخابات پر بھی بالواسطہ اثر انداز ہوتی ہوں، اس گفتگو کے دائرے سے خارج ہیں.

تیسری وضاہت جو کسی قدر تلخ بھی ہے اور تفصیل طلب بھی، یہ ہے کہ حقیقت واقعی کے اعتبار سے قومی سیاست کا وجود پاکستان کے ابتدائی چند سالوں کے بعد ہی ناپید ہو گیا تھا. اس کے بعد کی سیاست کو ملکی سیاست تو قراردیا جا سکتا ہے، قومی نہیں! چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اس عاجز کے سامنے جیسے ہی یہ موضوع آیا اور اس نے اس پر اظہار خیال کے لیے غور شروع کیا تو فوری طور پر ذہن اس روایتی لطیفے کی جانب منتقل ہو گیا کہ جب ایک ضعیف بصارت کے مریض کو ڈاکٹر نے کرسی پر بٹھا کر سامنے کی دیوار پر آویزاں چارٹ پر درج عبارت کو پڑھنے کو کہا تو مریض نے پوچھا ’’کون سا چارٹ؟‘‘ اور اس پر جب ڈاکٹر نے کہا ’’وہ جو سامنے کی دیوار پر لگا ہوا ہے!‘‘ تو مریض نے سوال کیا ’’وہ دیوار کہاں ہے؟‘‘… حقیقت یہ ہے کہ بعینہٖ یہی معاملہ پاکستان کی قومی سیاست کا ہے ؏ ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے!‘‘

اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نے ۱۹۳۷ء سے لے ۱۹۴۷ء تک کے عرصے کے دوران مسلمانان ہند کی عظیم قومی تحریک کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور پورے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کا اس کے جھنڈے تلے جمع ہوج اتنا اتنا ظاہر و باہر اور اس قدر حتمی اور قطعی تھا کہ وقت کی برطانوی حکومت، انڈین نیشنل کانگرس ایسی عظیم سیاسی قوت اور جمعیت علمائے ہند ایسی بااثر مذہبی جماعتوں کی مخالفت کے علی الزعم پاکستان وجود میں آ گیا… لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس امر میں بھی ہرگز کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اس عظیم قومی جدوجہد کے دوران بھی مسلم لیگ اصلاً صرف ایک ’’تحریک‘‘ کی حیثیت رکھتی تھی اور اسے ایسی منظم جماعت کی حیثیت حاصل نہیں تھی جس کے رہنمائوں اور کارکنوں کی صفیں اور درجے مرتب اور معین ہوں. یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی پاکستان قائم ہوا مسلم لیگ پر اضمحلال طاری ہو گیا. اس ابتدائی اضمحلال کی تلافی کے لیے یہ مصنوعی صورت اختیار کی گئی کہ مسلم لیگ کی صدارت اور ملک کی وزارت عظمیٰ کو ایک ہی شخص میں جمع کر کے قومی جماعت کو حکومت کا سہارا دیا جائے. لیکن ع ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ یعنی اس کے بھی برعکس نتائج برآمد ہوئے اور اس طرح مسلم لیگ کی عوامی جڑیں کمزور پڑتی چلی گئیں، یہاں تک کہ جلد ہی وہ صرف سرکار و دربارکی زیبائش و آرائش کا ذریعہ بن کر رہ گئی.

ادھر مسلمہ قومی قیادت کے منظر عام سے ہٹنے اور قومی جماعت کے کمزور پڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی ملکی سیاست صرف وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں اور قبائلی سرداروں کے ذاتی مفادات کا کھیل بن کر رہ گئی اور اس سے میدان سیاست میں جو دھماچوکڑی مچی اسے جواز بنا کر ۱۹۵۸ء میں پاکستان کی بری افواج کے کمانڈر انچیف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی. وہ دن اور آج کا دن، پاکستان میں اقتدار کے دو مستقل ستونوں کی حیثیت فوج اور سول بیورو کریسی کو حاصل ہے. رہے نام نہاد سیاست دان جن کی غالب اکثریت وڈیروں اور جاگیرداروں پر مشتمل ہے تو وہ اس اقلیم سیاست کے دوسرے درجہ کے شہری ہیں جو لیبل بدل بدل کر مختلف سیاسی جماعتوں کی صورت اختیار کرتے رہتے ہیں اور فلمی دنیا کے ایکسٹرا اداکاروں کے مانند منتظر رہتے ہیں کہ ایوان اقتدار کے اصل قابضین میں سے کسی کی نگاہ کرم کب اور کس پر پڑتی ہے جو کچھ دیر کے لیے ’’جسے پیا چاہیں، وہی سہاگن!‘‘ کے مطابق حرم اقتدار میں داخل ہو سکے.

گویا اس تجزیئے کے مطابق تو پاکستانی سیاست میں نام نہاد قومی سیاسی جماعتوں کا کردار بھی ثانوی ہے. تو ’’تابہ دیگراں چہ رسد؟‘‘ اور ؏ ’’قیاس کن زگلستان من بہار مرا!‘‘ کے مصداق تیسرے نمبر پر شمار ہونے کے قابل علاقائی اور لسانی تنظیموں اور پھر ان کے بعد چوتھے نمبر پر آنے والی مذہبی جماعتوں کے مثبت اور مستقل سیاسی رول کا انداز بخوبی کیا جا سکتا ہے. چنانچہ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پاکستان کی چھیالیس سالہ تاریخ کے دوران صرف ایک مذہبی جماعت کے قائد نہایت مختصر مدت کے لیے پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے کے وزیراعلیٰ رہے اور وہ بھی ان لوگوں کے سہارے جو علماءِ دین کے لیے اعلانیہ طور پر نہایت رکیک اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسری جماعت کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں قابل لحاظ عرصے کے لیے اقتدار حاصل رہا لیکن صرف بلدیات کی حد تک!

البتہ ایک دوسرے اعتبار سے مذہبی جماعتیں پاکستان کی سیاست میں نہایت نمایاں اور مؤثر بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہیں. اگرچہ اس کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ رول مثبت اور مفید رہا یا منفی اور مضر! … ہماری مراد مختلف مواقع پر اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں سے ہے جن کے نتیجے میں وقتاً فوقتاً ایوان حکومت میں زلزلے آتے رہے اور پاکستان میں اقتدار کی مستقل مثلث زاویئے بدلتی رہی. چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب خان کے خلاف برپا ہونے والی ایجی ٹیشن میں بھی سب سے مؤثر کردار مذہبی جماعتوں کا تھا. بعدازاں بھٹو صاحب کے اقتدار کے خاتمے کا سہرا بھی اصلاً مذہبی جماعتوں ہی کے سر پر تھا اور اسی طرح حال ہی میں ان کی بیٹی کی حکومت کے خاتمے اور پھر الیکشن میں شکست کا کریڈٹ بھی سب سے زیادہ بڑھ 
کر مذہبی جماعتوں کو ہی جاتا ہے… اور اس کا سبب بھی بالکل واضح ہے کہ عوام کو قربانی پر آمادہ کرنے والا سب سے مؤثر جذبہ میں ہوتا ہے جس کے زیر اثر لوگ جانیں دے دینے کو سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ ؎

’’منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید، ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے!‘‘
کے مصداق احتجاجی مہموں اور مظاہراتی سیاست کے لیے ایسے لوگوں سے بڑھ کر کون موزوں ہو سکتا ہے!

تاہم جیسے عرض کیا جا چکا ہے اس رول کے مثبت یا منفی ہونے کا فیصلہ کرنا یا اس کا میزانیۂ نفع نقصان مرتب کرنا آسان کام نہیں ہے. اس لیے کہ جہاں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ان احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں ایسی حکومتوں کا خاتمہ ہو گیا جو مختلف طبقات کو مختلف وجوہات کی بنا پر ناپسند تھیں،وہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اس سے نہ اسلام کو کوئی حقیقی اور واقعی فائدہ پہنجا، نہ مذہبی جماعتوں ہی کو کچھ حاصل ہوا بلکہ اینٹی ایوب ایجی ٹیشن کی کمائی بھٹو صاحب نے کھائی اور اینٹی بھٹو ایجی ٹیشن کا فائدہ جنرل ضیاء الحق نے اٹھایا. گویا ع ’’مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال بے نوازی!‘‘ اس پر مستزادیہ کہ ان تحریکوں کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عمل کی گاڑی باربار پٹری سے اترتی رہی جس کے باعث عوام کا سیاسی شعور بھی ناپختہ اور نابالغ 
(Retarded) رہا اور سیاسی ادارے بھی مسلسل شکست وریخت کا شکار رہے!

پاکستان میں قومی سیاست کے ضعف یا فقدان کے اسباب کا ذرا گہرا تجزیہ کیا جائے تو اس کی تہہ میں یہ عقدہ لاینحل 
(Dillemma) بھی کار فرما نظر آتا ہے کہ حصول پاکستان کی تحریک مسلم فوقیت کی بنیاد پر چلی اور اس کے دوران عوامی سطح پر سب سے زیادہ زور دار نعرہ اسلام کا لگایا گیا… لیکن جب پاکستان قائم ہو گیا تو ع ’’جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا!‘‘ کے مصداق جو واقعی صورت حال اور ٹھوس حقائق سامنے آئے وہ یہ تھے کہ اس میں آباد لوگوں کی غالب اکثریت میں اسلام کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی تو تھی لیکن سیرت و کردار اور اعمال و اخلاق کا حال ؎

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود!‘‘

کا مصداق اتم تھا یا اس سے بھی بڑھ کر ؎

’’جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآن نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں‘‘

ا ور ؎

’’جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں!‘‘

کی تصویر کامل!… بلکہ اس سے بھی زیادہ خوفناک صورت حال یہ تھی کہ عوام تو پھر بھی کم ازکم عقیدے کی حد تک اللہ اور رسولؐ ، قرآن اور حدیث اور جنت اور دوزخ کے قائل تھے لیکن تعلیم یافتہ طبقات کا معتدبہ حصہ، جو قومی معاملات میں فیصلہ کن اہمیت کا حا مل تھا ؎

’’ہم تو سمجھے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ!

کا منہ بولتا ثبوت اور ؏ ’’میرے اسلام کو اک قصہ ماضی سمجھو!‘‘ کی مجسم تصویر تھا. اب ظاہر ہے کہ ’’جذبات‘‘ کے بل پر ’’تحریکیں‘‘ چلا کرتی ہیں، لیکن سیاست میں اس کے بالکل برعکس ٹھیٹھ حقائق اور ٹھوس واقعات کی عکاسی ہوتی ہے چنانچہ پاکستان کی چھیالیس سالہ تاریخ کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو وہ ایک جانب ان ہی ٹھوس حقائق واقعی اور دوسری جانب مذہبی جذبات اور امنگوں کی رسہ کشی کا مظہر نظر آتی ہے اور نصف صدی کے لگ بھگ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی اگر حالاتِ واقعات کے بین السطور چشم حقیقت بیں سے مشاہدہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ 
ایک جانب ہمارے معاشرے کی عمومی اقدار اور تعلیم یافتہ اور مقتدر طبقات کے مجموعی تصورات اور رجحانات ہیں جن پر عہد حاضر کی عالمی تہذیب کے زیر اثر مادہ پرستی، الحاد اور اباحیت کی گہری چھاپ ہے جن کا تقاضا ہے کہ ملک مغرب کے مروجہ تصورات کے مطابق وطنی قومیت کے اصول پر مبنی ریاست (Nation-State) قرار پائے اور مغرب کے سیاسی اور اقتصادی نظام کو سماجی اور تہذیبی اقدار سمیت جوں کا توں اختیار کر لیا جائے اور دوسری طرف مذہبی طبقات اور سیاست کے میدان میں برسر عمل مذہبی جماعتیں ہیں جو عوام کی مذہب کے ساتھ جذباتی لگاؤ کے سہارے قانونِ شریعت کی تنفیذ اور اسلام کی تہذیبی اقدار کی ترویج کی جانب زور لگا رہی ہیں.

اس رسہ کشی کے ضمن میں مذہبی جماعتوں کا یہ دعویٰ تو یقینا صحیح ہے کہ اگرچہ ہم پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام اور قوانین شریعت کے نفاذ میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکے لیکن ہماری میزانِ نتائج میں نفع اور کامیابی کے پلڑے میں یہ وزن کیا کم ہے کہ ہم نے یہاں سیکولر نظام کی جڑیں بھی مضبوط نہیں ہونے دیں!… لیکن قومی اور ملکی سطح پر یہ بات بہت قابل غور ہے کہ اس منفی کامیابی (اگر اسے کامیابی قرار دیا جا سکے!) کی قیمت قومی سیاست کے تعطل 
(Stasis) کی صورت میں ادا کی جاتی رہی تو شاید ملک ہی ؏ ’’آں قدح بشکست وآں ساقی نماند‘‘ کے مصداق حصے بخرے(Balkanisation) ہو کر ختم ہو جائے اور وہ شاخ ہی باقی نہ رہے جس پر نظام اسلام اور قانونِ شریعت کے آشیانے بنائے جا سکیں. گویا اس رسہ کشی کے جاری رہنے میں اس بات کا بھی اندیشہ موجود ہے کہ رستہ ہی بیچ میں سے ٹوٹ جائے… مزید برآں اس تعطیل میں بھی خلاء تو بہرحال موجود نہیں ہے اور اس (STATUS QUO) کے معنی بھی تو یہی ہیں کہ جاگیرداری نظام بھی جوں کا توں برقرار رہے اور سودی معیشت بھی علیٰ حالہ قائم و دائم ہے اور نفاذ شریعت ایکٹ بھی نافذ ہوا ہے تو ایسا جسے جملہ مذہبی جماعتوں نے ’’انسداد شریعت ایکٹ‘‘ قرار دیا ہے. رہی بات مغربی معاشرت اور اس کے لوازم یعنی عریانی، بے حیائی اور فحاشی تو وہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں!

حاصل کلام یہ ہے کہ انتخابی سیاست کے میدان میں سرگرم مذہبی جماعتوں کو اپنی حکمت عملی 
(Strategy) پر نظر ثانی کی شدید ضرورت ہے. چنانچہ بعض جماعتیں اس وقت اس انداز سے سوچ بھی رہی ہیں لیکن بحالات موجودہ یہ اندیشہ وہمی اور خیالی نہیں ہے کہ وہ کسی رد عمل کا شکار ہو کر دوسری انتہا کی جانب نکل جائیں اور ماحول کو کم از کم حد تک سازگار بنائے بغیر اور خود اپنی صفوں کی تربیت و استواری اور کارکنوں کی تربیت اور تزکیے کے ناگزیر تقاضے پورے کیے بغیر تصادم کی راہ اختیار کر لیں. جس کا نتیجہ ملک و قوم کے حق میں بھی تباہ کن ہو گا اور دین اور مذہب کے لیے بھی نہایت افسوسناک!… بنابریں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ اس منہج نبوی (علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) کو اچھی طرح سمجھا جائے جس کے ذریعے تاریخ انسانی کا پہلا اسلامی انقلاب برپا ہوا تھا اور جسے اختیار کیے بغیر ؏ ’’خدایا آں کرم بارے دگر کن!‘‘ کی آرزو شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتی!

(شائع شدہ: نوائے وقت ۱۲ جون ۹۲ء)